ناگپور بلڈوزر:  اڑتے اڑتے آس کا پنچھی دور افق میں ڈوب گیا

 

ڈاکٹر سلیم خان

ناگپور تشدد کے بعد پہلی باروہاں  پہنچنے والے  وزیراعلیٰ فڑنویس نے عوام کے بجائے  متعلقہ  پولیس کے سینئرافسران سے ملاقات کی۔  5-4 گھنٹےکے اندر فساد پر قابو پا نے پر پولیس کی تعریف  کی نیز زخمی  اہلکاروں سے ہمدردی جتائی مگر پریشان حال لوگوں کے لیے خیر خواہی کے دو بول ان کی زبان سے نہیں پھوٹے۔ ایک سرکاری افسر کی مانند انہوں نے بتایا کہ 104؍ افراد کی پہچان کرکے 92 لوگوں کو گرفتارکیا گیا ہے۔ جن میں 10 بچے بھی شامل ہیں۔سیاسی مبصرین کی عام رائے ہے کہ اس فساد کے ذریعہ  دیویندر فڈنویس خود کو شاہ اور یوگی کی مانند مودی کا جانشین بناکر پیش   کررہے ہیں۔  اسی لیے انہوں نے ناگپور فرقہ وارانہ تشدد کی تفتیش کے دوران بنگلہ دیشی لنک سامنے آنے کا شوشا چھوڑا۔  اب ان کی   پولیس سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلنے والی اشتعال انگیزی کے پیچھے کوئی بڑا منصوبہ تلاش کرنے میں جٹی ہوئی  ہے۔ تحقیقات میں  انکشاف ہوا کہ اس کیس کا نام نہاد  ماسٹر مائنڈ فہیم خان ہے ، ناسک ضلع کے مالیگاؤں سے تعلق رکھتا ہے ۔سوال یہ ہے کہ کیا مالیگاوں بنگلہ دیش میں ہے؟ اور کیا اس کی  سیاسی جماعت مینارٹیز ڈیموکریٹک پارٹی  بنگلہ دیشی  ہے جس کے رہنما انجنیر حامد کو گرفتار کیا جاچکا ہے   ؟  

مہاراشٹر کے وزیر اعلی دیویندر فڈنویس سے پریس کانفرنس میں جب   پوچھا گیا  کہ کیا یوپی کے سی ایم یوگی آدتیہ ناتھ جیسا انصاف فراہم کرنے کا طریقہ مہاراشٹر میں بھی اپنایا جائے گا؟ تو انہوں نے کہا تھا کہ ’اگر قانون اجازت دے گا تو بلڈوزر چلے گا۔‘ اس کے بعد ناگپور میونسپل کارپوریشن  نے 21 مارچ کے دن  فہیم خان کی اہلیہ ظاہر النساء کے نام پر رجسٹرڈ 86.48 مربع میٹر مکان غیر قانونی  تعمیر قرار دے  دیا سرکاری  نوٹس میں کہا گیا کہ 20 مارچ کو میونسپل حکام نے گھر کا معائنہ  کیا تو پایا  کہ اس کی تعمیر میں  مہاراشٹر ریجنل اینڈ ٹاؤن پلاننگ ایکٹ 1966 کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ حکام کے مطابق اس گھر کے لیے کوئی بلڈنگ پلان منظور نہیں کیا گیا اس لیے یہ غیر قانونی تعمیرات کے زمرے میں آتا ہے۔  اس کے بعد  انتظامیہ کی کارروائی تیز ہو گئی ۔ فہیم خان کو ناگپور تشدد کا ماسٹر مائنڈ قرار دے کر پہلے ہی   پولیس کی حراست میں لےرکھاہے  اور اب  میونسپل کارپوریشن کی ٹیم نے ان کے گھر کے غیر قانونی حصے پر  بلڈوزر چلا دیا۔

 میونسپل کارپوریشن نے جیل میں بند  فہیم خان کو غیر قانونی تعمیرات ہٹانے کے لیے 24 گھنٹے کا وقت دینا ایک دکھاوا تھا  کیونکہ اس  لیے انتظامیہ نے گھر کو بلڈوز کر دیاگیا۔ فہیم خان کا دو منزلہ مکان ناگپور کے سنجے باغ کالونی میں ہے۔ این ایم سی نے کسی تشدد کے ملزم کی جائیداد کوپہلی بار بلڈوز کیا ہے۔ ناگپور پولیس نے فہیم خان کی دو دکانوں کو بھی  یہ کہہ کر سیل کر دیا ان  کا استعمال فسادیوں نے کیا تھا۔ اب الزام لگانے والے من مرضی الزام  لگانے کے لیے آزاد ہیں ۔ عدالت میں کئی سال بعد اگر وہ غلط ثابت بھی ہوجائے تب بھی نقصان تو ہوچکا ۔ مینارٹی ڈیموکریٹک پارٹی کے سٹی صدر فہیم خان  پر  ایف آئی آر میں  تصادم شروع ہونے سے کچھ دیر قبل اشتعال انگیز تقریر کا الزام ہےاور اسے  تشدد کی وجہ بتایا جارہا ہے حالانکہ اگر چادر نہیں جلتی تو تقریر کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی مگر اس سبب کو ڈھانپ دیا گیا۔  فہیم خان 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں نتن گڈکری کے خلاف انتخاب  لڑ چکا ہے۔ اس وقت میونسپل کارپوریشن کو پتہ نہیں چلا کہ وہ غیر  قانونی مکان میں رہ رہے ہیں لیکن تعجب ہے کہ  اب بلڈوزر چلانے کی خاطر یہ انکشاف ہوگیا۔

 مہاراشٹر کے حزب اقتدار میں  فی الحال خود کو سیکولر اور مسلمان دوست کہنے والی اجیت پوار کی  این سی پی بھی شامل ہے ۔ اس بلڈوزر کارروائی سے تین دن قبل   پارٹی کے اقلیتی مورچے کی جانب سے ممبئی اسلام جمخانہ میں افطار پارٹی کا انعقاد کیا گیا تھا ۔ اس  میں خطاب کرتے ہوئے مہاراشٹر کے نائب وزیر اعلیٰ اور این سی پی کے سربراہ اجیت پوار نے کہا تھا  کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ ہیں اور مسلمانوں کو آنکھ اٹھاکر دیکھنے والوں کو نہیں بخشیں گے۔ فہیم خان کے گھر پر  چلنے والے بلڈوزر نے اس یقین دہانی کو زمین دوز کردیا  کہ جس میں کہا گیا تھا کہ  مسلم بھائی بالکل محفوظ ہیں۔ اجیت پوار نے مسلمانوں کو یقین دلاتے ہوئے کہا تھا ، ’’میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ کا بھائی اجیت پوار آپ کے ساتھ ہے۔ جو کوئی بھی ہمارے مسلم بھائیوں اور بہنوں کو آنکھ دکھائے گا یا دو فرقوں میں جھگڑا کروا کر حالات خراب کرے گا، اسے ہرگز بخشا نہیں جائے گا۔ قانون کو ہاتھ میں لینے والوں کو معاف نہیں کیا جائے گا، چاہے وہ کوئی بھی ہو اور کسی بھی پارٹی سے تعلق رکھتا ہو ۔‘‘ لیکن عملاً ایسا نہیں ہوا۔ وی ایچ پی غنڈوں کو بخش دیا گیا اور فہیم خان کا گھر مسمار ہوگیا ۔ اجیت پوار کی دادرسی پر قتیل شفائی کا یہ شعر صادق آتا ہے؎

اڑتے اڑتے آس کا پنچھی دور افق میں ڈوب گیا                   روتے روتے بیٹھ گئی آواز کسی سودائی کی

اجیت پوار نے زور دے کر  کہا تھا  کہ ہندوستان مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے اتحاد کی علامت ہے ۔ہمیں کسی بھی تقسیم پسند طاقت کے جال میں نہیں پھنسنا ہے لیکن سچائی یہ ہے کہ وہ کمل کے مایا جال میں پھنسے ہوئے ہیں۔  مختلف مذاہب کو ساتھ لے کر چلنے کا دعویٰ کرنے والے اجیت دادا  بی جے پی کے شانہ بشانہ چل رہے ہیں ۔ اس لیے یہ کھوکھلے  الفاظ اپنی معنویت کھو چکے ہیں کہ   یہی (اختلاف میں اتحاد)  ملک اور ریاست کی خوبصورتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم نے ابھی ہولی منائی ہے، اب گڑی  پاڑوا  آنے والا ہے اور ساتھ ہی عید الفطر بھی آرہی ہے۔  یہ بہت اچھا موقع ہے کہ ہم اتحاد و محبت کا ثبوت دیں۔ ہمیں تمام تہوار مل کر منانے چاہئیں کیونکہ اتحاد ہی ہماری طاقت ہے۔ اس اتحاد کے لئے ضروری ہے کہ ہندو اور مسلمان مل جل کر رہیں لیکن اس کے لیے عدل و مساوات لازمی ہے۔ اس کے فقدان کی صورت میں  یہ باتیں  بے معنیٰ ہوجاتی ہیں ۔ انہوں نے خبردار کیا کہ   مذہب کے نام پر شرانگیزی کرنے والوں کو   عوامی سطح پر ایسے اشتعال انگیز  بیانات  سے گریز کرنا چاہئے جو فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دے سکتے ہوں۔

اجیت دادا پوار  کے اس بیان کا اشارہ یقیناً  نتیش رانے کی جانب تھا مگر کیا اس  پر اس کا  کوئی اثر ہوگا؟ امکان کم ہے۔ مالون میں ایک بے بنیاد الزام پر قطب اللہ خان کی دوکان پر بلڈوزر چلا۔ ایک بچے پر الزام لگایا گیا کہ اس نے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا مگر اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے ۔ نتیش رانے کی اشتعال انگیزی پر اس بچے کے گھر پر سیکڑوں لو گ جمع ہوگئے ۔   رانے نے انتظامیہ کو ان کی دوکان توڑنے کا حکم دے دیا اور اس پر عمل کرتے ہوئے قطب اللہ خان سمیت ان کے بھائی کی دوکان بھی بغیر کسی نوٹس کے آناً فاناً  توڑ دی گئی۔ نتیش رانے نے اس پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے انتظامیہ کو شاباشی دی مگر  اجیت دادا پوار کے کان پر جوں نہیں رینگی ۔ ان  کی زبان سے ہمدردی میں ایک حرف نہیں نکلا ۔ اب ناگپور میں بلڈوزر چل گیا ۔ فہیم خان پر ابھی الزام ثابت نہیں ہوا ہےمگر ، بیوی کے نام پر گھر گر گیا۔ فہیم اگر مجرم ہو تب بھی اس کی سزا بیوی بچوں کو کیونکر دی جاسکتی ہے؟ مگر  اس پر بھی  وہی پر اسرار خاموشی ہے۔ ایسے میں یہ میٹھی میٹھی باتیں کس کام کی ؟

 افطار پارٹی میں نصیحت و فہمائش کے دوران  نائب وزیر اعلیٰ اجیت پوار نے  فرقہ واریت کی سیاست اور فرقہ وارانہ بیان بازی پر سخت گر فت کی ۔ انہوں نے کہا کہ  رمضان کا مہینہ صرف ایک مذہب تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ انسانیت، قربانی اور خود احتسابی کی علامت ہے۔ رمضان ہمیں صبر و ضبط سکھاتا ہے اور ضرورت مندوں کے درد کو سمجھنے کی ترغیب دیتا ہے۔ روزہ نہ صرف جسم بلکہ ذہن اور روح کو بھی پاک کرتا ہے لیکن کچھ لوگ ہیں جو اس مقدس مہینے میں بھی چین سے بیٹھنا نہیں چاہتے ہیں۔ وہ ہمیشہ اشتعال انگیزی کرتے ہیں اور ماحول خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن میں اپنے تمام مسلم بھائیوں کو یہ یقین دلاتا ہوں کہ جب تک میں موجود ہوں  انہیں کوئی ہاتھ بھی نہیں لگاسکتا۔ یہ ملک ان کا ہے اور وہ اس ملک کے ہیں۔یہ ایک حقیقت ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ  اس  ملک میں مسلمانوں کے ساتھ مساویانہ سلوک نہیں  ہوتا ورنہ تشدد کے الزام میں  بے قصور مسلم ملزمین  پر ملک سے غداری کی دفعات نہیں لگائی جاتی ۔ اجیت دادا اگر مسلمانوں کے ہمدرد ہیں تو انہیں ناگپور جاکر وہاں گرفتار ہونے والے لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھنا چاہیے ۔ ممبئی میں بھاشن بازی کرنےکے بجائے فساد میں جان گنوانے والے عرفان انصاری کے گھر جاکر تعزیت کرنی چاہیے  ورنہ  ایسے ہی مواقع کے لیے    غالب نے کہاہے ؎

رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل                جو آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو وہ لہو کیا ہے

 

Comments are closed.