اکبر اعظم سے…..اکبر الدین اویسی تک…!

ڈاکٹرسید فاضل حسین پرویز
ہندوستان میں ایک ایسے وقت جب گھٹیا درجے اور نچلی ذہنیت کے سیاست دان اور ان کے پالتو مسلمانوں کے خلاف نفرت دشمنی کا ماحول پیداکرکے اس ملک کی آبرو کو ملیا میٹ کرچکے ہیں۔جب مسجد مسجد کی بنیادیں کھود کر مندر تلاش کر رہے ہیں۔ اورنگ زیب سے 400 سال بعد انتقام لینے کے لئے ان کی قبر تک کو اکھاڑ دینے کی شرانگیز مہم چلا رہے ہیں۔ ایسے وقت میں حیدرآباد کا ایک جیالا جواں سال سیاست دان تلنگانہ ایوان اسمبلی میں ریاستی حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ چندرائن گٹہ اسمبلی حلقہ لال دروازہ میں واقع مہا  کالی مندر کی توسیع اور اس کی تعمیر نو کے لئے فنڈ جاری کرے۔ چیف منسٹر ریونت ریڈی نے فوری مثبت رد عمل ظاہر کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ مہا کالی مندر کی توسیع اور تعمیر کے لئے 20 کروڑ کا فنڈ منظور کر رہے ہیں۔ 10 کروڑ روپئے مندر پر خرچ کئے جائیں گے اور 10 کروڑ روپئے 1031 مربع گز کی اراضی پر مقیم افراد کی باز آبادکاری اور انہیں متبادل جگہ فراہم کرنے پر خرچ کئے جائیں گے۔ ریونت ریڈی نے تالیوں کی گونج میں کہا کہ 17 مارچ 2025ء کے دن کو ریکارڈ میں محفوظ رکھا جائے کہ ایک مسلم رکن اسمبلی اکبر الدین اویسی کے مطالبے پر مہا کالی مندر کی تعمیر و توسیع کے لئے فنڈ جاری کئے جارہے ہیں۔
یہ وہی اکبر الدین اویسی ہے جس کی 15 منٹ والی تقریر پر نہ صرف آج تک ہنگامہ برپا ہوتا رہتا ہے بلکہ اس کے لئے نہ جانے اویسی برادران کو نہ جانے کتنے ازیت ناک لمحات سے گزرنا پڑا اور اور یہی اکبر الدین اویسی جب اپنے حلقہ اسمبلی کے ہندو عوام کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے ان کی مندر کی توسیع کا مطالبہ کرتا ہے تو میڈیا نہ جانے کیوں اندھا،گونگا، بہرابن جاتاہے۔ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ اکبر الدین اویسی نے اس مندر کے لئے مطالبہ کیا ہو۔ کے سی آر کے دورہ حکومت میں بھی انہوں نے بار بار اس مسئلے کو اٹھایا۔ کے سی آر نے مندر کا دورہ بھی کیا۔ وعدہ بھی کیا مگر وہ وعدہ ہی کیا جو پورا ہو جائے۔ لال دروازہ کی ایک اپنی تاریخ ہے۔ مہاراجہ کشن پرشاد نے 1907ء میں اسے تعمیر کروایا تھا اور یہ مندر بھی آصف جاہ ششم نواب میر محبوب علی خان سے فنڈ حاصل کرکے تعمیر کی گئی تھی۔ مہاراجہ کشن پرشاد نے ہی اس مندر سے بونال جلوس نکالنے کی روایت ڈالی تھی۔ قارئین کرام مجلس اتحاد المسلمین پر مخالف ہندو ہونے کا ہمیشہ سے الزام لگایا جاتا رہا حالانکہ اسی جماعت نے حیدرآباد میں تین مرتبہ غیر مسلم،پرکاش،عالم پلی پوچیا اور ستیہ نارائن کو میئر کے عہدے پر فائز کیا۔ شاید آپ کے ذہن میں اس واقعے کی یاد محفوظ ہو جب 1990 کی دھائی میں جمعۃ الوداع کے موقع پر ایک ناخوشگوار واقعے پر کچھ مسلمانوں کی صفوں میں شامل اشرار نے حالات کو بگاڑنے کے لئے چارمینار کے دامن میں گڑ بڑ کرنے کی کوشش کی۔ جنہیں منتشر کرنے کے لئے جناب صلاح الدین اویسی نے پولیس کانسٹیبل سے ڈنڈا چھین کر لاٹھی چارج کیا دوسری دن قومی اخبار انڈین ایکسپریس نے اپنے ادارئے Kudos to Owaisi لکھ کر انہیں خراج تحسین پیش کیا تھا۔ حیدرآباد ہو یا ہندوستان کا کوئی بھی علاقہ اگر ایک ہزار سال سے زائد حکومت کرنے کے باوجود سیکولرازم کی نشانیاں اگر نظر آرہی ہیں تو صرف اور صرف مسلم حکمرانوں کی مذہبی رواداری کی وجہ سے۔ حیدرآبادکی تاریخ بالخصوص آصف جاہی خاندان کی تاریخ سنہرے حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے کیونکہ ساتوں نظام نے مذہبی رواداری، اخلاص اور مروت ایسی مثالیں قائم کی جس کاذکر کرکے فرقہ پرست شرمندہ ہونا نہیں چاہتے مثال کے طور پر نظام کے دور میں پچاس ہزار سے زائد مذہبی مقامات یا عبادت گاہوں کے لئے سالانہ امداد فراہم کی جاتی تھی۔ ان میں سے مساجد 14777تھی جبکہ مندروں کی تعداد 34 ہزار 509 تھی۔ سیتا رام باغ مندر،کشن باغ مندر کو باقاعدہ قابل لحاظ سالانہ گرانٹ منظور ہوئی تھی۔ تاریخ کے اوراق الٹ کر دیکھیں تو ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کا بانی شہنشا ہ ببر پہلی مثال ہے جنہوں نے ہندوؤں اور دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو مل جل کر ساتھ رہنے کی ترغیب دی۔ انہوں نے اپنی رعایا پر اپنے مذہبی عقائد کو مسلط نہیں کیا بلکہ ہر مذہب کے ماننے والوں کو آزادی دی۔ مندروں کی تعمیر کی اجازت تھی۔ انہوں نے ہمایوں کے نام اپنے وصیت نامہ میں تاکید کی تھی کہ وہ گؤ کشی سے گریز کرے، ان کے مذہبی جذبات کو ٹھیس نہ پہنچائیں، بابر کے انتظامیہ میں ہندو راجپوتوں کو اہم منصب عطا کی گئی۔ بابر اور ہمایو کے دور میں کئی عمارتیں تعمیر ہوئیں جو اسلامی فن تعمیر کا نمونہ رہیں مگر انہوں نے کسی مندر کو نقصان نہیں پہنچایا۔ اسی سلسلے کو اکبر اعظم نے آگے بڑھایا اور اس کے دور کو ہندوستان کا سنہرہ دور کہا جاتا ہے۔ اکبر اعظم نے غیر مسلموں کے لئے جزیہ (ٹیکس) کو برخاست کیا۔ ہندو اور جین اسکالرس کو اپنے درباریوں میں شامل کیا۔ اپنی غیر معمولی مقبولیت اور حد سے زیادہ غیروں سے میل جول نے اس کا دماغ خراب کردیا تھا اور وہ گمراہ بھی ہوگیا تھا۔ چونکہ تاریخ میں ایک مسلم حکمران کی حیثیت سے اس کا نام محفوظ ہے اس لئے یہ ضروری ہے کہ اس کے دور میں تعمیر کئے گئے منادر کا بھی ذکر ہو۔ گجرات کے مشہور اکشر دھم مندر اکبر نے تعمیر کروائی تھی۔ متھورا، برندھاون کے علاوہ دہلی میں کبر جہانگیر، اکبر دویم نے کئی منادر تعمیر کروائے۔ جہانگیر نے اپنے والد اکبر اعظم کی جانب سے 35 منادر کو دی جانے والی گرانٹ میں مزید دومندروں کا اضافہ کیا۔ اس نے برندھاون کی مندر کے خدمت گزار پانچ خاندانوں کے لئے 30ہکٹر اراضی کا عطیہ دیا تھا۔ جب کبھی پنڈٹوں اور پجاریوں کو کوئی مسئلہ در پیش ہوتا وہ راست مغل حکمرانوں سے رجوع ہوتے اور ان کے مسائل فوری حل کردئے جاتے۔
ایودھیا بلا شبہ ہندوؤں کا مقدس شہر مانا جاتا ہے جہا ں اللہ کے گھر کو شہید کرکے سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا گیا اور مندر تعمیر کرلی گئی۔ ایودھیا کا ذرہ ذرہ اس بات کا گواہ ہے کہ اس شہر میں مسلم حکمرانوں نے مذہبی رواداری کی ایسی مثا لیں قائم کی اگر مردہ ضمیر سیاستدان اور ان کے بے حس عقل کے اندھے چاہنے والے اس سے واقف ہوجائیں تو اپنے آپ سے انہیں گھن ہونے لگے گی۔ مغل سلطنت کے 12 صوبوں میں سے ایک صوبہ اود ھ بھی تھا جہاں کے نوابوں نے اٹھارھویں اور 19 ویں صدی میں حکومت کی اور نہ صرف کئی مندروں کی تعمیر کی بلکہ ان کے لئے گرانٹ جاری کی۔ نواب صفدر جنگ نے ایودھیا میں کئی مندر تعمیر کئے۔ ان کے جانشین نواب شجاع الدولہ نے بیس ہیکٹر (فی ہیکٹر 10 ہزار مربع گز) اراضی ہنومان گڑھی کی تعمیر کے لئے عطیہ کی جو ہندو ؤں کی ایک اہم مندر ہے۔ یہ مندر 1774 ء میں تعمیر کی گئی۔ اس کے علاوہ چتراکوٹ،وارانسی،اجین،الہ آباد اور کئی مقامات پر نوابوں جاگیر داروں نے مندروں کی تعمیر کے لئے زمین اور پیسہ دونوں ہی عطیہ کئے۔ اورنگ زیب جنہیں ہم عالمگیر ؒ کے نام سے ادب و احترام سے یاد کرتے ہیں۔انہیں نہ صرف غیر مسلم بلکہ کچھ مسلم فرقہ بھی ناپسند کرتے ہیں اس لئے کہ اس شہنشا ہ نے تقریبا 50 برس ہندوستان میں حکومت کی۔ اس لئے اکبر جہانگیر کی طرح اپنی اقتدار کے لئے اپنی مذہبی عقائد سے کھلواڑ نہیں کیا۔
ڈاکٹر رام کمار پنیانی اور دیگر گشادہ دل مؤرخین ببانگ دہل اورنگ زیب کی مذہبی رواداری کی گواہی دیتے ہیں کہ اس عظیم شہنشاہ نے کتنی مندروں کوگرانٹ جاری کی۔ کتنے پجاریوں کے لئے امداد منظور کی۔ کون سے مندر میں گھی کے چراغ جلانے کے لئے اس نے رقم مختص کی تھی۔
اورنگ زیب اور شیوا جی کے سیاسی اختلافات اور جنگوں کی آڑ میں اورنگ زیب کی مخالفت کی جارہی ہے۔ اورنگ زیب کی تعریف کا مطلب شیواجی کی مخالفت نہیں ہے، شیواجی ہندوستانی تاریخ کے ایک سورما رہے ہیں۔ اورنگ زیب کی مخالفت کرنے والے غور کریں، اپنے آپ سے سوال کریں کہ جب شیواجی اور اورنگ زیب میں اتنی دشمنی تھی اتنی نفرت تھی تو پھر شیواجی کی پوترے نے اورنگ زیب کے مزار پر جاکر انہیں شردھانجلی کیوں پیش کی؟
آج ملک کا حالات کچھ بگاڑنے والے عناصر ہمارے سامنے ہیں۔ فلموں کے ذریعہ تاریخ کو توڑ موڑ کر پیش کیا جارہا ہے۔ سیاست دان نفرت کو ہوا دے رہے ہیں۔ ان سیاست دانوں کو چاہے وہ کسی ریاست کا موجودہ یا سابق چیف منسٹر ہی کیوں نہ ہو۔انہیں عدالتوں میں کھسیٹا جائے۔افسوس اس بات کا ہے کہ انصاف کے ایوان بھی جعفرانی رنگ میں ڈھلنے لگے ہیں۔ کسی علاقے میں فرقہ پرستی کی آگ بھڑکانے والے مجرمین کو چند گھنٹوں میں ضمانت مل جاتی ہے اور اپنے حق کے لئے آواز اٹھانے والے مسلم طلبہ کو برسوں سے جیلوں میں سڑایا جارہا ہے۔
انصاف کے ایوانوں کے بدلتے رویہ کی وجہ ہماری کمزوری، ہمارا آپسی انتشار ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کی روایت ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ مسلمان وہ قوم ہے جسے تباہ کرنے کے لئے کسی دشمن کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر ہندوستانی مسلمان ایک ہوکر اپنے آپ کو منوائے اور اپنی آواز کو بلند کریں تویہ چھچھورے جو اچھل کود کر رہے ہیں بلوں میں دبکی مار کر چھپ جائیں۔
بہرحال! کہنے کا مقصد یہی ہے کہ اکبر الدین اویسی نے اپنے حلقہ کے ایک مندر کی تعمیر و توسیع کے لئے کامیاب نمائندگی کی جو در اصل مسلم حکمرانوں امراء اور جاگیرداروں کی صدیوں پرانی روایت ہے۔ ماضی میں اگر کسی نے کسی دوسرے مذہب کی عبادت گاہ کو نقصان پہنچایا ہے تو یقینی طورپر انسانی اقدار سے اس کی لاعلمی ہوگی۔ کیونکہ ہمیں تو یہی درس دیاگیا ہے کہ تم دوسروں کے خداؤں کو برا مت کہو ورنہ وہ تمہارے خدا کو برا کہیں گے۔صلاح الدین ایوبی ؒ فاتح فلسطین نے کئی صلیبی جنگیں جیتیں ان کے دور میں عیسائیوں کے ایک وفد نے ان سے ملاقات کرکے شکایت کی کہ مسلمانوں نے حضرت عیسیؑ کے مجسمہ کو تیر سے نقصان پہنچایا، مجسمے کی ایک آنکھ ضائع ہوگئی۔ اسلام میں قصاص کا رواج ہے، آنکھ کے بدلے آنکھ۔صلاح الدین ایوبی ؒنے ان سے کہا کہ اسلام میں مجسمہ سازی نہیں ہے اس لئے میرے پیغمبر کا کوئی مجسمہ نہیں ہے۔ میں ان کا نمائندہ ہوں۔ تم میری آنکھ کا قصاص لے سکتے ہو۔ عیسائی وفد پر اس کا غیر معمولی اثر ہوا۔ انہوں نے معاف بھی کردیا اور معافی بھی مانگ لی اور کچھ نے اسلام بھی قبول کرلیا۔ یہی ہماری روایت ہے۔ کاش! شیواجی رضاکار جیسی من گھڑت فلموں کے جواب میں ہمارے اسلاف کے اعلی اقدار کو فلموں کے ذریعہ پیش کیا جاسکے۔

Comments are closed.