محبت کے پھول: نفرت کے اندھیروں میں محبت کی روشنی

مسعودمحبوب خان (ممبئی)
ہر دور میں انسانیت کو سب سے زیادہ جس چیلنج کا سامنا رہا ہے، وہ نفرت اور تعصب کی تاریکی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی نفرت کی آندھیاں چلیں، توڑ پھوڑ اور انتشار نے سماج کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ مگر انہی اندھیروں میں محبت کی روشنی بھی ہمیشہ چمکتی رہی، وہ روشنی جو دلوں کو جوڑنے، فاصلے مٹانے اور اخوت کے رنگ بکھیرنے کا کام کرتی ہے۔ محبت کا یہ نور کبھی کسی ایک مذہب، قوم، یا خطے تک محدود نہیں رہا، بلکہ اس کی چمک ہر اس دل میں محسوس کی جا سکتی ہے جہاں انسانیت کے جذبے زندہ ہوں۔
یہی روشنی ہمیں ہر اس موقع پر دیکھنے کو ملتی ہے جب لوگ نفرت کے بیوپاریوں کو رد کرتے ہوئے یکجہتی اور امن کی شمعیں جلاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک خوبصورت منظر رواں برس عید الفطر کے موقع پر دیکھنے میں آیا، جب چند مقامات پر ہی سہی وطن عزیز کے باسیوں نے محبت، الفت اور رواداری کی خوشبو سے فضا کو معطر کر دیا۔ یہ محض ایک دن کی بات نہیں تھی، بلکہ یہ اس ابدی سچائی کی ایک اور یاددہانی تھی کہ محبت کی طاقت ہر قسم کی نفرت کو شکست دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ تحریر انہی جذبوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کی ایک کوشش ہے، جو نہ صرف ہمارے سماج کی بنیادوں کو مضبوط کرتے ہیں، بلکہ انسانیت کے حسین رنگوں کو بھی اجاگر کرتے ہیں۔
اسلاموفوبیا کے زیرِ سایہ سرگرم نفرت انگیز گروہوں کی مسلسل نئی سازشوں اور اشتعال انگیزیوں نے ملک میں بےچینی اور خوف کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ ان کے منظم پروپیگنڈے اور شر انگیز کارروائیوں کے نتیجے میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچ رہا ہے، اور سماج میں تفرقہ اور بداعتمادی کی گہری خلیج پیدا ہو رہی ہے۔ ایسے میں حکومت، انتظامیہ، اور مخصوص سیاسی عناصر کی چشم پوشی اور جانبداری نے حالات کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے، گویا ملک کو ایک ایسے نازک مقام پر لا کھڑا کیا گیا ہے جہاں انصاف اور یکجہتی پسِ پشت ڈال دی گئی ہے اور تعصب و نفرت کو دانستہ طور پر فروغ دیا جا رہا ہے۔
مگر ان تاریک حالات میں بھی وہ افراد جو اپنی سماجی و اخلاقی ذمّہ داریوں کو سمجھتے ہوئے رواداری، محبت، اور یکجہتی کے چراغ روشن کر رہے ہیں، وہ امید کی کرن ہیں۔ ان کے اقدامات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ حق و صداقت کے متلاشی دل آج بھی زندہ ہیں اور انسانیت کے نام پر قائم ہونے والے تعلقات کو پائیدار رکھنے کی کوششیں جاری ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ ایسے افراد کی بصیرت و ہمت میں مزید اضافہ کرے، ان کے فکر و عمل میں مزید استقامت عطاء فرمائے، اور اس خطے کو نفرت کی دلدل سے نکال کر امن و آشتی کی شاہراہ پر گامزن کرے۔
ہر طلوعِ سحر اپنے دامن میں ایک نئی امید لے کر آتی ہے، مگر کچھ سحر ایسی بھی ہوتی ہیں جو اپنی تابانی سے دلوں میں نئی زندگی کی رمق پیدا کر دیتی ہیں۔ رواں برس کی عید الفطر کی وہ حسین صبح بھی کچھ ایسی ہی تھی، جب ملک کی فضائیں محبت، اخوت اور رواداری کی خوشبو سے مہک اٹھیں۔ عید کی نماز ایک ایسی عبادت ہے جو محض ایک رسمی عمل نہیں، بلکہ اجتماعی ہم آہنگی اور بندگی کی معراج کا عملی اظہار ہے۔ اس روز بھی جب لاکھوں مسلمان اپنے ربّ کے حضور سجدہ ریز تھے، تو کون جانتا تھا کہ جیسے ہی یہ خوش نصیب عبادت گزار اپنے گھروں کی طرف لوٹیں گے، تو ان پر محبت کی وہ بارش ہوگی جس کا تصور بھی آج کے حالات میں کرنا مشکل تھا۔ مگر یہی تو حقیقت کی وہ کرن ہے جو اندھیروں میں امید کا چراغ روشن کرتی ہے۔
یہ منظر واقعی حیرت انگیز اور خوش آئند تھا، جب ملک کی فضا محبت اور رواداری کے دلکش رنگوں میں رنگی ہوئی دکھائی دی۔ عید الفطر کی پُربہار صبح، جب مساجد اور عید گاہوں میں لاکھوں مسلمان اپنے ربّ کے حضور سجدہ ریز ہو رہے تھے، تب شاید کسی کے تصور میں بھی نہ تھا کہ جب یہ سعادت حاصل کر کے وہ اپنے گھروں کو لوٹیں گے تو ایک منفرد اور دل کو چھو لینے والا منظر ان کا استقبال کرے گا۔
نماز کے بعد جیسے ہی مسلمانوں کا ہجوم مساجد سے نکلنے لگا، یکایک فضاؤں میں خوشبو بکھر گئی۔ یہ خوشبو کسی عطر یا بخور کی نہ تھی، بلکہ یکجہتی، محبت اور اخوت کی وہ خوشبو تھی جو ملک کے ہندو باسیوں نے مسلمانوں پر پھول برسا کر بکھیر دی تھی۔ وہ لمحہ ایک خواب کی مانند تھا، جس کا تصور شاید آج کے پُرآشوب دور میں کرنا بھی محال لگتا تھا۔ لیکن حقیقت اس سے زیادہ حسین تھی— زمین پر بکھرتے وہ رنگ برنگے پھول محض پتیاں نہ تھیں، بلکہ ایک پیغام تھا، ایک احساس تھا، جو دلوں کو جوڑنے آیا تھا۔
یہ نظّارہ یوں لگا جیسے امید کی کوئی کھوئی ہوئی کرن اندھیروں میں پھر سے جگمگا اٹھی ہو، جیسے خزاں رسیدہ شاخوں پر بہار نے دھیرے سے دستک دے دی ہو۔ نفرتوں اور بدگمانیوں کے بادلوں میں بھی اخوت اور بھائی چارے کی روشنی باقی ہے، یہ یقین پھر سے تازہ ہوگیا۔ یہ واقعہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ اگر دلوں میں خلوص ہو، اگر نیتیں صاف ہوں، تو دنیا کے سبھی فاصلے مٹ سکتے ہیں، سبھی دراڑیں پُر ہو سکتی ہیں۔ یہ محض ایک دن کی محبت نہیں، بلکہ ایک ابدی سچائی کی یاددہانی ہے کہ انسانیت ہر تعصب سے بلند ہے، اور اخوت کی روشنی ہر نفرت کو مٹا سکتی ہے۔
یہ منظر ان تمام نفرت کے سوداگروں کے لیے ایک زوردار تازیانہ تھا جو اپنی زہریلی سیاست کو پروان چڑھانے کے لیے فرقہ واریت کی آگ بھڑکاتے ہیں، معصوم جانوں کو اس آگ کی نذر کر دیتے ہیں، اور معاشرے میں زہر گھولنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ جو ہر لمحہ مذہبی منافرت کے بیج بو کر انسانیت کے چمن کو ویران کرنے پر تُلے ہوئے ہیں، آج انہیں خود انہی کے درمیان سے ایسے چراغوں کا سامنا ہے جو تاریکی کے مقابل روشنی کی علامت بن کر کھڑے ہیں۔
یہ مناظر دراصل اس فطری حقیقت کا مظہر ہیں کہ ظلم اور نفرت چاہے جتنی بھی بڑھ جائے، انسانیت کی چمک کبھی ماند نہیں پڑتی۔ جہاں زہر گھولنے والے ہوتے ہیں، وہیں ایسے افراد بھی ہوتے ہیں جو اس زہر کا تریاق بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو امن، محبت اور اخوت کے سفیر بن کر نفرت کی ہر دیوار کو گرا دیتے ہیں اور یہ ثابت کرتے ہیں کہ انسانیت کی جڑیں بہت گہری ہیں، جنہیں محض فتنہ و فساد کی آندھیاں نہیں اکھاڑ سکتیں۔ آج بھی انہی کے درمیان ایسے ضمیر کے رکھوالے موجود ہیں جو ان کے نظریۂ شر کو چیلنج کر رہے ہیں، جو بھائی چارے اور یکجہتی کی شمعیں جلا رہے ہیں، اور جو دنیا کو یہ باور کرا رہے ہیں کہ نفرت کے بیوپاری کبھی محبت کے سوداگر نہیں بن سکتے۔ یہ وہ سچائی ہے جو وقت کے ساتھ مزید نمایاں ہوتی جا رہی ہے، اور جو تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھی جائے گی۔
یہ منظر ایک ایسی یادگار حقیقت ہے جو تاریخ میں ایک روشن باب کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ محبت کے یہ پھول محض ایک لمحاتی جذبہ نہیں تھے، بلکہ یہ اس ازلی سچائی کی گواہی تھے کہ نفرت کے اندھیرے کتنے ہی گہرے کیوں نہ ہوں، محبت کی روشنی ہمیشہ اپنا راستہ بنا لیتی ہے۔ یہی وہ پیغام ہے جو ہر دور کے ہر باشعور انسان کو عام کرنا ہے— کہ اختلافات کے باوجود ہم ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک اور خیرخواہی کے جذبات کو زندہ رکھ سکتے ہیں۔ یہ ذمّہ داری صرف چند افراد کی نہیں، بلکہ پورے سماج کی ہے کہ وہ تعصبات کی زنجیریں توڑ کر محبت، اخوت اور باہمی احترام کے راستے پر قدم بڑھائے۔
مسلمانوں نے اب تک کئی مرتبہ اپنے حصّے کا چراغ جلانے کی کوشش کی ہے، اپنے قدم آگے بڑھائے ہیں اور باہمی ہم آہنگی کی راہ میں عملی اقدامات کیے ہیں، مگر نفرت کی اندھیری رات نے ان کی کاوشوں کو اپنی سیاہ چھاؤں میں چھپا لیا ہے۔ تعصب کی تیز آندھی نے ان کے خلوص کو پراگندہ کر دیا، اور ان کی نیک نیتی شکوک و شبہات کے دھندلکوں میں گم ہو گئی۔ اب یہ صرف مسلمانوں کی ذمّہ داری نہیں، بلکہ اس دھرتی کے ہر باسی پر فرض ہے کہ وہ بھی انصاف کا علم بلند کرے، سچائی کی شمع روشن کرے، اور فرقہ واریت کی تاریکی کو دور کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ امن اور محبت کے اس کارواں میں سب کو شریک ہونا ہوگا، تاکہ بھائی چارے، یگانگت اور خیرسگالی کی وہ فضاء بحال ہو جو کبھی ہماری پہچان تھی۔
دعا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ان محبتوں کو مزید پروان چڑھائے، اس محبت و الفت کو استحکام بخشے، اور ان دلوں میں بھی ہدایت کی روشنی پیدا کرے جو ابھی تک نفرتوں کی تاریکی میں الجھے ہوئے ہیں۔ یہ دن صرف ایک خوشگوار لمحہ نہیں تھا، بلکہ امید کا وہ چراغ تھا جو اگر مسلسل روشن رکھا جائے تو دنیا کے ہر گوشے کو منور کر سکتا ہے۔

Comments are closed.