ملک زادہ منظور احمد کی یاد میں

معصوم مرادآبادی
”ماہ وسال کی گرد چہرے پر جم رہی ہے۔ شریانوں میں دوڑتے ہوئے گرم خون کی چہچہاہٹ مدھم ہوگئی ہے۔ بالوں کی سفیدی کو خضاب کی کرشمہ سازی نے چھپا رکھا ہے۔ آنکھوں کی بینائی کمزور پڑچکی ہے۔ عمر باسٹھ برس کے کچھ اوپر ہے مگر دنیا کو دیکھنے اور برتنے کا حوصلہ ہنوز دل میں باقی ہے۔ زندگی کی ناہمواریوں کے خلاف جہاد کرنے کو جی چاہتا ہے۔ جی چاہتا ہے کہ استحصال کے خلاف آواز بلند کی جائے۔ عیاریوں کا پردہ فاش کیاجائے۔ مگر خاموش ہوں، مصلحتوں کی زنجیر میں پیر جکڑ گئے ہیں۔ اشعار میں دل کی بھڑاس ضرور نکالتا ہوں مگر اب لہجے میں وہ تیور اور استقامت باقی نہیں ہے جو پہلے تھی۔ شعلہ نوا استعارات اور کنایات کی راکھ میں دبتا چلاجارہا ہے۔“
ممتاز شاعر ملک زادہ منظور احمد نے ان تاثرات کا اظہار اپنی دلچسپ آپ بیتی ’رقص شرر‘ کے ابتدائی صفحات میں اب سے 25برس پہلے کیا تھا۔ ان کے دل میں بڑھتی ہوئی عمر کے باوجود دنیا کو برتنے کا جو حوصلہ موجود تھا، اس نے چوتھائی صدی تک ان کا ساتھ دیااور ان کے لہجے میں آخری دم تک وہ گھن گرج باقی رہی جو انہیں اپنے ہم عصر شاعروں اور دانشوروں میں ممتاز حیثیت عطا کرتی ہے۔ گزشتہ 22اپریل 2016 کو عین نماز جمعہ کے وقت جب انہوں نے اپنی جان، جانِ آفریں کے سپردکی توان کی عمر87 برس تھی۔ وہ اردو زبان اور تہذیب کا ایک ایسا جیتا جاگتا نمونہ تھے کہ ان کے پاس دیرتک بیٹھنے کو جی چاہتا تھا۔ جن لوگوں نے اردو زبان کی چاشنی، شعری رچاؤ اور تہذیبی بوقلمونی کے قصے کتابوں میں پڑھے ہیں، وہ ان کی خوشبو ملک زادہ صاحب کی شخصیت اور گفتگو میں محسوس کرتے تھے۔ پروفیسر ملک زادہ منظور احمد نے ایسے نازک وقت میں آنکھیں موندھی ہیں جب اردو زبان اور تہذیب کے سامنے خود کو بچانے کا چیلنج درپیش ہے۔ وہ دبستان لکھنؤ کے ایسے آخری نمائندہ ادیب، شاعر اور دانشور تھے جس نے اپنی جاگتی آنکھوں سے اردو زبان وتہذیب کے عروج و زوال کو دیکھا تھا۔ اپنے نصف صدی سے زیادہ کے شعری اور ادبی سفر میں انہوں نے ان تمام قدروں کو سینے سے لگائے رکھا جو اردوزبان اور تہذیب کا خاصہ ہیں۔ وہ اردو کو محض ایک زبان اور ذریعہ اظہار نہیں سمجھتے تھے بلکہ ان کے نزدیک اردو ایک تہذیب اور طرز زندگی کا بھی نام تھا۔ انہوں نے تمام زندگی اعلیٰ انسانی اور ادبی قدروں کی پاسداری کی اور کبھی اپنے اصولوں سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ وہ آخری وقت تک اردو زبان کا کھویا ہوا وقار بحال کرنے کی جدوجہد میں مصروف رہے۔انہیں نظم اور نثر دونوں پر یکساں عبور حاصل تھا۔ جہاں ایک طرف ان کا شعری سرمایہ شعروسخن کے میدان میں ان کے بلند مرتبے کا گواہ ہے وہیں دوسری طرف ان کی دلچسپ اور دلنشین آب بیتی’رقص شرر‘ اردو نثر پر ان کی بہترین گرفت کی آئینہ دار ہے۔
ملک زادہ منظور احمد نے اپنی علمی اور ادبی خدمات سے اردو کو جلا بخشی اور ملک کی سب سے بڑی ریاست میں دم توڑتی ہوئی اردو زبان کو نئی زندگی عطا کرنے کی عملی جدوجہد بھی کی۔ انہوں نے اردو رابطہ کمیٹی کے پرچم تلے اس زبان کے کھوئے ہوئے وقار کو بحال کرنے کی جدوجہد بھی کی۔ اردو رابطہ کمیٹی کے صدر ممتاز افسانہ نگار رام لال تھے اور ملک زادہ منظور احمد اس کے جنرل سکریٹری۔ 1988میں اردو رابطہ کمیٹی کی عظیم الشان کانفرنس لکھنؤ میں منعقد ہوئی تھی جس میں راقم الحروف نے بھی شرکت کی تھی۔ اس کانفرنس میں اردو کے اکابرین کی بڑی تعداد موجود تھی۔ یہی کانفرنس ان سے قلبی تعلق کا وسیلہ بنی۔ وہ راقم الحروف کی ادارت میں گزشتہ چوتھائی صدی سے شائع ہونے والے پندرہ روزہ اخبار ’خبردار‘ کے مستقل قاری تھے اور اکثر اپنی تحریریں اشاعت کے لئے روانہ کرتے تھے۔
عام طورپر ہمارے شعراء اپنی تمام ترتوجہ اپنی نرگسی شخصیت کی تعمیر اور تدوین پر صرف کرتے ہیں اور اپنی ہی دنیا میں مگن رہتے ہیں۔ مشاعروں کے عوض حاصل ہونے والی شہرت اور عوامی مقبولیت سے وہ اپنے گردوپیش کو بارونق بناتے ہیں۔ بڑے بڑے اعزازات حاصل کرکے سکہ رائج الوقت بننے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ لیکن ملک زادہ صاحب نے مشاعروں کے حوالے سے شہرت اور مقبولیت حاصل کی تھی، اس کا استعمال انہوں نے اردو تحریک کو توانائی بخشنے کے لئے کیا۔ مشاعروں کی نظامت کے حوالے سے انہوں نے جو گراں قدر خدمات انجام دیں اور اس فن میں جو ملکہ حاصل کیا، وہ کسی دوسرے شاعر کا حصہ نہیں بن سکا۔ انہوں نے نظامت کے فن کو بام عروج پر پہنچایا۔ وہ جس مشاعرے کی نظامت کا فریضہ انجام دیتے تھے، اس کی کامیابی یقینی تصور کی جاتی تھی۔ وہ مشاعرے کے سامعین کو جہاں اردوزبان وتہذیب کی تسبیح میں پروئے رکھتے تھے، وہیں شعرائے کرام کو بھی اس بات پر مجبور کرتے تھے کہ وہ شعر وسخن کے آداب کو ملحوظ خاطر رکھیں۔ نظامت کے دوران جو نپے تلے اور تراشیدہ جملے ان کی زبان سے ادا ہوتے تھے، وہ مشاعرہ ختم ہونے کے بعد ایسے ہی زبان زدخاص وعام ہوجاتے تھے، جیسا کہ اس مشاعرے کے مقبول اشعار۔ ان کے لہجے میں جو ایک خاص قسم کی گھن گرج تھی اس سے مشاعرے کا پورا پنڈال گونجتا تھا۔ یوں محسوس ہوتا تھا گویا اردو زبان اور تہذیب کا جادوگر سامعین سے ہم کلام ہے۔ یہ بھی ایک ریکارڈ ہے کہ انہوں نے پورے پچاس برس دہلی میں بزم شنکر وشاد کے مشاعرے کی نظامت کا فریضہ انجام دیا اور اپنے انتقال سے ڈیڑھ ماہ پیشتر یعنی 5مارچ 2016 کو وہ اسی آب وتاب کے ساتھ اس مشاعرے میں آخری بار شریک ہوئے۔ ہرچند کہ ان کے اعضاء جواب دینے لگے تھے اور ان کا جسم کمزور ہڈیوں کا ایک ہار محسوس ہوتا تھا لیکن ان کی جاگتی آنکھوں اور بیدار ذہن میں ماضی، حال اور مستقبل کے سارے مناظر کروٹیں بدلتے رہتے تھے۔ پروفیسر وسیم بریلوی کے بقول:
”انہوں نے شعری روایات کو نئی زندگی اور مشاعروں کے آداب کو نئی بلندی عطا کی۔ ناظم مشاعرہ کی حیثیت سے پچاس سالہ سفر میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ انہوں نے اپنی زبان سے کوئی کمزور جملہ ادا کیا ہو۔“
مشاعروں کی نظامت کے حوالے سے خود اپنے بارے میں ملک زادہ منظور احمد کی رائے یہ تھی:
”مجھے اس بات پر فخر ہے کہ آزادی وطن کے بعد میری شناخت کا امتیازی پہلو مشاعرہ اور مشاعروں میں شعراء کا تعارف کرانا رہا ہے۔“
(شہر ادب: صفحہ94)
ملک زادہ منظور احمد نے محض شہرت، دولت اور ثروت کے لئے مشاعروں کی دنیا آباد نہیں کی تھی۔ وہ خانہ بدوش قسم کے شاعر بھی نہیں تھے وہ اس معاملے میں اپنے اصولوں سے سمجھوتہ نہیں کرتے تھے۔ وہ اچھے اور معیاری مشاعروں میں شرکت کرتے تھے۔ اپنے ہم عصر شاعروں اور ادیبوں کے علاوہ وہ اپنے جونیئر شعراء اور ادیبوں کے ساتھ یکساں محبت اور شفقت کے ساتھ پیش آتے تھے۔ ان کے اندر نہ تو احساس برتری تھا اور نہ ہی وہ اپنے چھوٹوں پر اپنے بڑا ہونے کا رعب دکھاتے تھے بلکہ عاجزی انکسار اور ملائمیت کے ساتھ پیش آنا ان کا وطیرہ تھا۔
پروفیسر ملک زادہ منظور احمد نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور درس وتدریس کے شعبے سے وابستہ رہے۔ ان کی پیدائش 17اکتوبر 1929کو ضلع فیض آباد کے گاؤں ’بھدہنڑ‘ میں ہوئی تھی۔ وہ اپنے پیدائشی گاؤں کے نام کو غیر شاعرانہ تصور کرتے تھے۔
پروفیسر ملک زادہ منظور احمد نے تاریخ، انگریزی اور اردو میں ایم اے کرنے کے بعد”مولانا ابوالکلام آزاد: فکروفن“کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور پہلے پہل 1951میں مہاراج گنج کے ایک کالج میں لیکچرر مقرر ہوئے۔ بعد ازاں گورکھ پور اور پھر اعظم گڑھ کے شبلی کالج میں 1953سے 1964تک انگریزی کے لیکچرر رہے۔ وہ فراق گورکھپوری کے بعد اردو کے غالباً دوسرے شاعر تھے جنہیں انگریزی پر بھی اردو جیسا ہی عبور حاصل تھا۔ وہ گورکھپور یونیورسٹی میں 1964سے 1968تک اردو کے لیکچرر رہے لیکن انہوں نے درس وتدریس کے میدان میں سب سے زیادہ طویل عرصہ لکھنؤ یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں گزارا، جہاں انہوں نے 1968 سے 1990 تک لیکچرر، ریڈر اور پروفیسر کی خدمات انجام دیں۔ ملک زادہ صاحب کو مختلف نوعیت کے تقریباً 90ایوارڈوں سے سرفراز کیاگیا۔ جن میں دوحہ کا عالمی فروغ اردو ادب ایوارڈ بھی شامل ہے۔انہیں آخری ایوارڈ دسمبر 2015 میں غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی نے عطا کیا تھا۔
متعدد طلباء نے انہیں تحقیق کا موضوع بنایا۔ ناگپور یونیورسٹی کے ایک طالب علم کو”پروفیسر ملک زادہ منظور احمد شخصیت اور کارنامے‘‘ پر پی ایچ ڈی کی ڈگری عطا کی گئی۔وہ یوپی اردو اکیڈمی کے صدر اور فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی کے چیئرمین کے علاوہ قومی اردو کونسل اور پرسار بھارتی کے بھی ممبر رہے۔ انہوں نے پاکستان، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، ایران، بحرین، مسقط، قطر، کناڈا، امریکہ، نیپال جیسے ملکوں میں متعدد مشاعروں میں شرکت کی۔ ان کی شائع شدہ دس کتابوں میں کالج گرل (ناول) اردو کا مسئلہ، شہر سخن، مولانا ابوالکلام آزاد: فکر وفن(پی ایچ ڈی کا مقالہ) مولانا آزاد الہلال کے آئینے میں، ’غبار خاطر کا تنقیدی مطالعہ، رقص شرر (خود نوشت) انتخاب غزلیات اور’شعر وادب‘ شامل ہیں۔ انہوں نے ماہنامہ ’امکان‘ کے نام سے ایک ادبی جریدہ بھی شائع کیا۔ جس کے اداریے بڑے فکر انگیز ہوا کرتے تھے۔
اردو رابطہ کمیٹی کی یہ تحریک محض کوئی رسمی تحریک نہیں تھی بلکہ اس کی پشت پر اخلاص اور محبت کا بوجھ تھا۔ انٹرویو کے دوران ملک زادہ صاحب نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا تھا کہ اس وقت اردو والوں نے بغیر لڑائی کے ہی ہار مان لی ہے۔ ادھر برسوں سے اترپردیش اور دہلی میں کوئی تحریک نہیں ہے۔ وہ جمہوری طریقوں سے اردو زبان کا کھویا ہوا وقار بحال کرانے کے طرف دار تھے۔ ان کاکہنا تھا کہ”آزادی وطن کے بعد جب ہم ماہ وسال کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتے ہیں تو ہمارے ملک میں اردو زبان کا مسئلہ قدم قدم پر الجھتا ہوا نظر آتاہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے رجعت پرست عناصر نے منظم طورپر عوام سے اردو زبان کے رشتے کو کاٹنے کے لئے ایک سازش کرلی ہو۔“انہیں اردو میں اچھے ادب کی تخلیق نہ ہونے کا بھی شکوہ تھا۔ ان کاکہنا تھا ”تقسیم ملک کے سانحہ نے اچھے ادب کی تخلیق کے لئے بہت سے عنوانات فراہم کردیئے تھے مگر وہ نسل رفتہ رفتہ ختم ہوتی جارہی تھی جو اس اعلیٰ درجے کے ادب سے استفادہ کرسکتی تھی۔اگر کسی زبان میں 30-35سال تک اچھے ادب کی تخلیق نہ ہو تو یہ کوئی بہت بڑا المیہ نہیں ہوتا۔ سانحہ یہ ہوتا ہے کہ اچھا ادب تو تخلیق ہوتا رہے مگر اس کے پڑھنے والے ختم ہوجائیں۔ ہمارے عہد کا اولین تقاضہ یہ تھا کہ ہم بادمخالف کی زد پر اردو زبان کے چراغ کو روشن رکھتے تاکہ اس کی روشنی میں ادب کی اعلیٰ وارفع قدروں کی شناخت ہوسکتی۔“
پروفیسر ملک زادہ منظور احمد نے علمی ادبی اور شعری میدان میں جو گراں قدر خدمات انجام دی ہیں، اس کے مطابق ان کی پذیرائی نہیں کی گئی۔ غالباً اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ نہ تو کسی ادبی گروہ کا حصہ تھے اور نہ ہی انہیں حاشیہ برداری پر یقین تھا۔ بلکہ وہ اپنی خداداد صلاحیتوں پر بھروسہ رکھتے تھے۔ معروف شاعر منور رانا نے ملک زادہ منظور احمد کے انتقال کو ایک عہد کا خاتمہ قرار دیتے ہوئے درست کہا ہے کہ ”ملک زادہ منظور احمد نے جیسا اردوادب اردو والوں کو دیا ہے، اس کا اعتراف نہ ہونا ہماری بے حسی کو ظاہرکرتاہے۔“
Comments are closed.