دینی مزاج کی فکر کے لئے اسلامی ہوسٹل کا قیام

 

مولانا محمد قمر الزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام موئی کلاں کنڈہ پرتاپگڑھ 9506600725

کچھ دنوں قبل ایک عالم دین اور داعی ملت کا ایک اقتباس نظر سے گزرا، جس میں مولانا محترم نے مسلمانوں سے اپیل کی تھی کہ اگر نوجوان نسل کو فساد اور بگاڑ سے بچانا ہے اور ان کی صحیح دینی و اخلاقی تربیت کرنی ہے ، تو اس کی ایک صورت اسلامی ہوسٹل اور اسلامی لاج کا قیام ہے، جہاں کالج اور یونیورسٹی کے بچے مناسب کرایہ پر قیام کریں، غریب طلبہ کے لیے بھرپور رعایت ہو اور وہاں انہیں دینی تربیت بھی دی جائے، یقینا یہ کام آج کے حالات میں بہت ضروری ہے۔اس تجویز کو سب سے پہلے حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی رح سابق صدر شعبئہ دینیات عثمانیہ یونیورسٹی حیدر نے پیش کیا تھا، حضرت مولانا عبد الباری صاحب ندوی رح اور حضرت مولانا علی میاں ندوی رح نے اس تجویز کی بھر پور تائید کی تھی اور اس کو نوجوانوں کی دینی اور اسلامی تربیت کا بہترین ذریعہ قرار دیا تھا، حضرت مولانا عبد الباری صاحب ندوی رح نے تو باضابطہ اس کے لیے لکھنؤ میں زمین بھی خریدی تھی اور اس منصوبے پر عمل کرنے کے لئے بالکل تیار تھے کہ ان کا آخری وقت آگیا اور یہ خواب شرمندئہ تعبیر نہ ہوسکا۔بعد میں کسی نے اس کی طرف توجہ نہیں کی۔
میں نے بہت سے اصحاب خیر کو اس جانب متوجہ کیا کہ اللہ نے آپ کو نوازا ہے، اوریہ حلال روزی کا بھی بہترین ذریعہ ہوگا،آپ اس کام میں پہل کیجئے اور مولانا گیلانی رح کے خواب کو پورا کیجئے اور سب سے بڑی بات یہ کہ اس سے نوجوان نسل کی اچھی تربیت ہوگی۔ لیکن کسی نے اس تجویز پر زیادہ توجہ نہیں دی اور مشکلات اور دقتیں بتانی شروع کردیں۔ ہم نے مشورہ دیا کہ اس کے لیے آپ ایک وکیل رکھئے اور ایک عالم دین کو رکھیے وکیل قانونی دقتوں سے نپٹیں گے اور عالم دین وہ ہاسٹل کے سجدہ گاہ میں نماز پڑھائیں گے اور بچوں کی دینی و اخلاقی تربیت کریں گے۔
لیکن آج تک یہ تجویز صرف تحریر اور تقریر کی حد تک ہی رہی اور اس پر کہیں کوئی عملی اقدام نہیں ہوسکا۔ ضرورت ہے کہ ملی اور فلاحی تنظیمیں اس جانب متوجہ ہوں اور ضلع اور تحصیل کی سطح پر اس کے قیام پر غور کریں۔ کچھ دنوں قبل ہم نے اس موضوع پر جو کچھ لکھا تھا وہ قند مکرر کے طور پر پھر پیش کرتے ہیں۔ م ق ن
حضرت مولانا عبیداللہ سندھی رح فرمایا کرتے تھے ۔ *”ایک تو میں علماء سے کہتا ہوں کہ وہ مہربانی کریں کہ اب کوئی دارالعلوم کےنام پر ہرگز دار العلوم نہ بنائیں، البتہ ایک ضروری کام یہ کریں ، کہ جہاں حکومت کوئی یونیورسٹی یا کالج بنائے، وہیں تم لوگ طلباء کی رہائش کے لیے ہاسٹل بناؤ، مدرسہ نہ ہو دارالعلوم نہ ہو، ہاسٹل ہو اور اس میں بس مسجد ہو اس ہاسٹل میں طلبا کو مفت رہائش دی جائے لیکن کھانے کے پیسے ان سے لیے جائیں ان سے کہا جائے کہ بھائی کھانے کے پیسے جمع کراؤ اور رہائش فری ہوں،بس ان سے یہ شرط طے کر لی جائے، کہ بیٹا جب تک تم اس ہاسٹل میں رہو گے تو نماز باجماعت پڑھو گے ، جب تم کالج میں جاؤ کہیں جاؤ تو ہم تمہیں کچھ نہیں کہیں گے تم جانو تمہارا خدا جانے اور صبح کی نماز کے بعد تین آیات درس قرآن اور عشاء کے بعد تین احادیث کا درس دیا جائے پھر یہی لوگ کل کو حکومت کے اعلی عہدوں پر پہنچیں گے یہ مولوی تو نہیں بنیں گے لیکن مولوی بے زار نہیں ہوں گے مولویوں سے نفرت نہیں ہوگی، یہ تمہارے قریب رہ چکے ہوں گے اور انہوں نے تم سے استفادہ کیا ہوگا”* ۔
یہی تجویز حضرت مولانا گیلانی رح کی تھی، جو اپنے وقت کے بڑے عالم، محقق اور مصنف تھے، جن کی وسعت نظر اور وسعت مطالعہ کی نظیر و مثال آسانی سے نہیں ملے گی۔ رسوخ فی العلم ان کا امتیاز تھا، خدا نے انہیں ملت کا درد دیا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ مسلمانوں کے لیے کالج اور تعلیم گاہوں کے قائم کرنے سے زیادہ ضروری اسلامی ہوسٹل یا اسلامی اقامت خانے قائم کرنا ہے، جہاں ان کی پوری علمی، دینی، اخلاقی اور فکری تربیت کی جاسکے، جہاں ان کی نقل و حرکت پر نظر ہو اور ان کی صحیح نگرانی ہوسکے، اور ان کی زندگی ملت کے لیے مفید اور آڈیل بنایا جاسکے۔ ان اقامت خانوں میں وہ طلبہ قیام کریں جو سرکاری اور غیر سرکاری تعلیمی اداروں سے وابستہ ہوں۔ ان کے قیام و طعام کا قیمتاً نظم ہو اور ہر طرح کا عمدہ ماحول اور علمی و عملی فراوانیاں ہوں، تاکہ ان کی ذھنی نشو و نما اسلامی طرز سے ہوسکے۔ مقدمہ مکاتیب گیلانی میں مولانا عبد الباری ندوی رح نے اس کی پوری تفصیل تحریر فرمائی ہے، مولانا گیلانی رح نے اخبار و رسائل کے ذریعہ ملک بھر کے سرکردہ اہل علم حضرات اور علماء کو اپنی تجویز سے باخبر کیا، سبھوں نے اس کی پذیرائی کی، اور خوب سراہا، اور اس تجویز کو خوش آئند قدم قرار دیا، مولانا علی میاں ندوی رح نے تو یہاں تک کہا کہ مولانا گیلانی کی یہ تجویز بڑی دینی بصیرت تھی کہ انہوں نے اسلامی اقامت خانوں کی تجویز پیش کی، جو کم از کم ہندوستان کے موجودہ حالات میں اس مسئلہ کا ایک علمی اور معقول حل ہے۔
یقیناً اس تجویز کا فائدہ تعلیم گاہوں کے قیام سے زیادہ تھا اور کم خرچ بالا نشیں کا مصداق تھا۔ ہر شہر میں ایسے ہوسٹل اور اقامت خانوں کی شدید ضرورت ہے۔ لیکن اب تک مولانا سندھی رح اور مولانا گیلانی رح کی اس بے مثال تجویز کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش نہیں کی گئی، اور امت نے ان دو اکابر کے اس قیمتی مشورے کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ تعلیمی ادارے بہت قائم ہوئے جن میں پڑھ کر تعلیم یافتہ لیکن نا تربیت نسل تیار ہو رہی ہے اور مسلمانوں کی تمام تر تنظیمی اور مالی صلاحیتیں صرف ان تعلیمی اداروں کے قائم کرنے پر خرچ ہو رہی ہیں۔ یہ کام بھی بہت ضروری ہے لیکن اسلامی ہوسٹل اور اقامت خانوں کے بغیر ان کی افادیت کم ہے۔۔۔
مولانا گیلانی رح کو اللہ تعالیٰ نے امت کی اصلاح کی فکر اور بطور خاص نئی نسل کے زاوئیہ فکر و نظر کو دینی سانچے میں ڈھالنے کی بے پناہ استعداد سے نوازا تھا۔ تقدیر کا فیصلہ دیکھئیے وہ عثمانیہ یونیورسٹی پہنچ گئے، وہاں ان کا سابقہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ سے پڑا، ان کے افکار و خیالات سے واقفیت ہوئی، ان کے اعترضات و اشکالات سامنے آئے۔ ان تمام چیزوں سے انہیں بے شمار تجربات حاصل ہوئے، مولانا کے اندر یہ تڑپ تھی کہ اگر آج قوم مسلم کی نوجوان نسل خصوصاً جدید تعلیم یافتہ طبقہ کے ذھن و افکار میں اسلامیات، دینی مزاج اور سیرت سازی کا کام کیا جائے تو عالم اسلام کی کایا پلٹ سکتی ہے۔ اور بگڑی تقدیر سنور سکتی ہے، اسی طرح عام مسلمانوں کے اندر جذبئہ ایمانی کو پیدا کرکے اسلام کی روح پھونکی جاسکتی ہے۔ اس کے لیے وہ اسلامی اقامت خانے کو سب سے زیادہ مفید و موثر خیال کرتے تھے۔۔ دوسری طرف انہوں نے عثمانیہ یونیورسٹی میں رہ کر جدید عصری تعلیم یافتہ نسل کی جو دینی و فکری تربیت کی، جس طرح انہوں نے افراد تیار کئے، طلبہ کی زندگی میں جو تبدیلیاں آئیں۔ اور اسلامی ذھن و فکر اور اس مزاج و مذاق رکھنے والوں کی جو ایک کھیپ تیار ہوئی جس نے اطراف عالم میں پھیل کر اپنے استاد کے تیار کردہ عظیم خاکوں میں جو رنگ و آہن بھرا اور جس سے آج بھی ایک خلقت سیراب اور فیضیاب ہو رہی ہے۔ یہ مولانا گیلانی رح کا وہ کارنامہ ہے جن میں بہت کم لوگ ان کے سہیم و شریک ہیں۔ مولانا سعید احمد اکبر آبادی کی شہادت سنئے، لکھتے ہیں۔ ان (مولانا) کا سب سے بڑا کارنامہ جس میں ان کا کوئی حریف نہیں ہوسکتا یہ ہے کہ انہوں نے اپنے فیضانِ تعلیم و تربیت سے انگریزی تعلیم یافتہ طبقہ میں ایک دو نہیں کثرت سے ایسے افراد پیدا کر دئیے، جو مغربی علوم و فنون کی اعلی اسناد رکھنے کے باوجود آج اسلامی علوم و فنون کی بڑی قابل قدر خدمات انجام دے رہے ہیں، اور جن کی اسلامی تحقیقات کی گونج یورپ و امریکہ تک کے علمی حلقوں میں ہے۔( مناظر گیلانی ۵۷)
کاش مولانا گیلانی رح کا اسلامی ہوسٹل کا خواب شرمندئہ تعبیر ہوجاتا، خلف سلف کے اس قیمتی مشورہ کو قبول کرلیتی تو آج امت کی یہ حالت نہ ہوتی۔ آج مخصوص افراد ، اصحاب ثروت اور دینی تنظیمیں جمعیت علماء ہند۔ مجلس مشاورت، ملی کونسل پاپولر فرنٹ امارت شرعیہ اور دیگر ذیلی اور علاقائی تنظیمیں اس کے لیے کوشش کرلیں تو یہ کوئی محال اور ناممکن کام نہیں ہے۔ کاش اللہ انہیں یہ توفیق مرحمت فرما دے آمین۔

Comments are closed.