دارالقضاء کے تعلق سے سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی وضاحت

مکرمی!
سپریم کورٹ نے 2014ء کےایک فیصلے کو بنیاد بناکر کہا کہ دارالقضاء کی فیصلے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، لیکن فریقین رضاکارانہ طورپر مان سکتے ہیں، منوانے کے لئے زورزبردستی نہیں کی جاسکتی ہے۔یہی حیثیت پہلے بھی تھی اور اب بھی ہے۔اسی طرح باہمی رضامندی سے جو پیپر بنایا جاتا ہے اس کی حیثیت پہلے بھی مسلّم تھی اور اب بھی ہے۔ بشرطیکہ ہم شریعت اور قانون کے دائرے میں رہ کر پیپر بنائیں؛یاد رہے کہ دارالقضاؤں میں 98٪ معاملات باہمی رضامندی سے ہی حل ہوتے ہیں؛لیکن سوشل، پرنٹ اور الکٹرانک میڈیامیں جس طرح اس پر ہنگامہ پرباہے وہ قابل افسوس ہے۔جب سپریم کورٹ ہائی کورٹ کے فیصلے کورد کرسکتا ہے تو ہما شما کے فیصلے کی کیا حیثیت؟ملزم کوہائی کورٹ سے پھانسی کی سزاہوتی ہےلیکن وہی سپریم کورٹ سے باعزت بری ہوتاہے، ایسا تو بارہاں ہواہے۔ تو دارالقضاء کے کسی فیصلہ کو اگر سپریم کورٹ رد کردے تواس پر واویلا مچانے کی کیاضرورت ہے؟
دارالقضاء میں جب دونوں فریق کی بات سننے کے بعد فیصلہ کیا جاتاہے تو اس کو رد کرنے کا امکان نوے فیصد کم ہوجاتاہے۔ اور جب عورت کے اوپر ظلم وستم کئے جانے کی وجہ سے اس کو ظلم سے نجات کافیصلہ کیا جاتا ہے تو نناوے فیصد تک کم ہوجاتاہے۔لیکن اس کے باوجود بہر صورت رد کرنے کا امکان تو رہتا ہی ہے۔
یہ بھی یاد رہے کہ آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈ اور دیگر امارات کے دارالقضاؤں میں عورت کی طرف سے خلع، طلاق، نان نفقہ وغیرہ کامعاملہ لیاجاتاہے، مرد کی طرف سے صرف مصالحت کے لئے لیاجاتاہے، مرد کی طرف سے طلاق دینے کے لئے نہ معاملہ لیاجاتاہے اور لیاجاناچاہئے اور نہ اس کی ضرورت ہے، شریعت اور قانون نے اس کواز خود طلاق دینےکا حق دے رکھاہے،تو ایسی صورت میں دارالقضاء سے رجوع کرنے کاکوئی مطلب نہیں۔ اور دارالقضاء کوبھی ایسے معاملات میں پڑکر پورے نظام قضاء کو خراب نہیں کرناچاہئے۔
ایک قابل غور پہلویہ بھی ہے کہ آج تک آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈ،اورامارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ، اور دیگر معتبرامارات کی ماتحتی میں قائم سینکڑوں دارالقضاؤں نے جو فیصلے دئےگئے، جن کی تعداد لاکھ سے بھی زیادہ ہے۔ان میں سے اب تک کتنے کورٹ میں گئے اور کتنے رد ہوئے؟
میرے خیال سے اس کا جواب صرف نا سے ہوگا۔ دارالقضاء سے فیصلہ ہونے کے بعددونوں فریق برضاورغبت مانتاہے۔ تصفیہ ہونے کے بعد کوئی معاملہ نہ کورٹ جاتاہے۔اور نہ رد ہوتاہے۔دو چار تو مستثنی ہوں ہی سکتے ہیں۔ صرف دو چار کے کورٹ میں جانے سے ہمارا ڈرنا، گھبرانا، ٹینشن لینا، مایوسی کا شکار ہو جانا بالکل بھی مناسب نہیں۔فقط
(قاضی محمد فیاض عالم قاسمی)
ناگپاڑہ ممبئی۔۸
8080697348
29/اپریل2025ء
Qazi Shariat Daul-Qaza All India Muslim Personal Law Board
K.D Basement Masjid, Nagpada Junction, Mumbai.8
8080697348
Comments are closed.