غیرمسلموں کے ساتھ مذہبی تعلقات

ڈاکٹر قاضی محمدفیاض عالم قاسمی
قاضی شریعت دارالقضاء ناگپاڑہ، ممبئی۔۸
8080697348
مسلمان اورغیرمسلموں کے درمیان تعلقات کے سلسلے میں اہم موضوع مذہبی تعلقات کاہے،اس سلسلے میں دوباتیں بنیادی اہمیت کی حامل ہیں۔اپنے دین پراستقامت اوردوسروں کے مذہبی جذبات کااحترام، ان دونوں نکات کی کسی قدروضاحت کی جاتی ہے۔
مذہبِ اسلام دیگرمذاہب اوران کی رسم وروایات کی طرح نہیں ہے،بلکہ اسلام ایک مکمل دستورحیات اورضابطہ اخلاق ہے،زندگی گزارنے کاطریقہ اورمنشورہے۔ اعتقادات،عبادات،معاملات،معاشرت اوراخلاقیات ہرشعبہ میں اسلام کی تعلیمات موجودہیں۔یعنی ایک آدمی کودنیااورآخرت کی کامیابی کےلئے، پکا سچا مسلمان بننے اوراللہ کوخوش کرنےکے لیےدوسرے مذہب سے کچھ لینے یاان کے رسم وروایات پر عمل کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے؛بلکہ کامیابی کے لیےمسلمان جہاں بھی رہیں،اورجس ملک میں بھی رہیں،ان تمام شعبوں میں ان پرلازم ہے کہ شریعت کے مطابق عمل کریں،سرے موانحراف کرنابھی جائزنہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ نےجسمانی عبادت اورصحت وتندرستی کے لئے نمازاورروزہ دیاہے، مالی عبادت اورغربت کے خاتمہ کے لیے زکاۃ اورصدقات وخیرات کوضروری قرار دیا ہے، جسمانی اورمالی عبادت نیز اظہارِاتحاد، اخوت وبھائی چارگی کےلئےحج کو فرض کیا۔قلبی سکون کے لئے قرآن کی تلاوت اوراللہ کاذکردیا۔رشتہ داری بڑھانے کےلیےنکاح ہے،تفریح طبع اوراظہارخوشی ومسرت کے لیےعید وبقرعیدہے،امن وسکون کی زندگی گزارنے کے لئےحسن ظن،صبروبرداشت اورمعافی تلافی ہے۔ دوسری طرف مجرموں کوسزادلانے کے لیےحدودوتعزیرات بھی ہیں۔کھانے کے لئے حلال اورمال طیب کی نشاندہی بھی کی گئی ہے،جو انسان کی صحت اورجسم کے لیےمفید ہے۔غرض کہ اسلام میں انسان کی ساری ضروریات کاحل موجود ہے،اس لیےاللہ کے علاوہ کسی دوسرےمثلاکسی بھی قسم کی مورتی کے سامنے سرجھکانا، اس سے امید لگانا،یااسے نفع ونقصان کامالک سمجھنا،دیوالی یاہولی منانایاغیرمسلموں کے کسی تہواریامیلہ میں شریک ہونے کی نہ ضرورت ہے اورنہ جائزہے؛البتہ ایسے موقعہ پران کی خبرگیری کرنااورحال چال معلوم کرنا بہترہے۔
اسلام مسلمانوں سے اس بات کابھی مطالبہ کرتاہے کہ وہ جہاں بھی رہیں تہذیبی اورتمدنی اعتبارسے اپنے وجود کو دوسروں کےساتھ گم نہ کرلیں،بلکہ اپنی شناخت اورپہچان کوباقی رکھیں۔اوریہ کوئی برانہیں ہے،بلکہ یہ ایک فطری عمل ہے،ہرملک اورہرقوم اپنی شناخت الگ رکھناچاہتی ہے،اپنے تمدن کی حفاظت کرتی ہے،اپنے جھنڈے الگ رکھتی ہے،ہراسکول اپنامستقل یونیفارم رکھتاہے۔اس لئے اسلام چاہتاہے کہ مسلمان جہاں بھی رہیں اسلامی شعائراوراپنی شناخت کوباقی رکھیں، اس سلسلے میں غیرمسلموں کے شعائراوران کی شناخت کو نہ اپنائیں۔
نبی کریم ﷺ نے ارشادفرمایا: لَيْسَ مِنَّا مَنْ تَشَبَّهَ بِغَيْرِنَا۔(ترمذی، حدیث نمبر:۲۶۹۵)یعنی جوشخص دوسرے کی مشابہت اختیارکرے وہ ہم مسلمانوں میں سے نہیں ۔چنانچہ فقہاء کرام نے لکھاہے کہ: جوشخص کسی کفریہ عمل پراپنی رضامندی کا اظہارزبانی یاعملی طوپرکرےتو یہ بجائے خود کفرہے۔(الملتقط:۲۴۵)۔ (مقالہ حضرت مولاناخالد سیف اللہ رحمانی، ط:بحث ونظر)
مذہبی آزادی:
قرآن کریم میں سب سے زیادہ جس چیزکی تعلیم دی گئی ہے وہ توحید کی دعوت اورشرک سے نفرت ہے،ایک مسلمان اس وقت کامل ایمان والاہوسکے گاجب وہ عقیدہ توحید میں پختہ اورشرک سے بچنے والاہو،مگر اس کے باوجود غیرمسلموں کو مذہب کی آزادی دی ہےکہ چاہیں تو مذہب اسلام قبول کریں یانہ کریں،نیز اپنے حساب سے جس طرح کاعقیدہ چاہیں رکھیں۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ترجمہ:دین کے قبول کرنے میں کوئی زورزبردستی نہیں،ہدایت گمراہی کے مقابلہ میں واضح ہوچکی ہے۔(سورہ بقرۃ:۲۵۶)،دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نےنبی اکرم ﷺ سے کہاہے: کیاآپ لوگوں کوایمان لانے پر مجبورکرناچاہتے ہیں؟یعنی مجبورنہیں کرسکتے۔(یونس:۹۹)
عمل کی آزادی:
عقائدکے علاوہ عمل کی بھی مکمل آزادی حاصل ہے،یعنی غیرمسلم اپنے مذہب کے اعتبارسے جس طرح عمل کرناچاہیں کریں، ان پر روک ٹوک کرناصحیح نہیں ہے۔ قرآن کریم نے صاف طورپر پر مشرکین مکہ سےکہاہے: ہمارے لئے ہمارے اعمال ہیں اورتمہارے اعمال تمہارے لئے۔(سورہ شوریٰ:۱۵)۔رسول ﷺ کی مذہبی رواداری کایہ حال تھاکہ نجران کے عیسائیوں کاایک وفد باگاہ اقدس میں حاضرہواتوآپ نے ان کو ان کے مذہب کے مطابق قبلہ اول یعنی بیت المقدس کی طرف رخ کرکے مسجد نبوی میں نماز اداکرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔(احکام اھل الذمہ،لابن القیم ؒ:۲/۵۲)۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ غیر مسلم حضرات مسلمانوں کی مسجدوں میں آکر بتوں کی پوجا کرنا شروع کردیں ؛کیوں کہ مسجدیں صرف اللہ کی عبادت کے لیے بنائی جاتی ہیں، مسجدوں میں اللہ کے علاوہ کسی کی بھی عبادت کرنا جائز نہیں ۔قرآن کریم میں ہے:ترجمہ:اور یہ کہ مسجدیں اللہ ہی کے لئے ہیں تو اللہ کے ساتھ کسی اور کی عبادت نہ کرو ۔(سورۃ الجن :۱۸)
غیرمسلموں کے معبودوں کو برابھلانہ کہاجائے:
اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑاجرم اس کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہراناہے، اس کے باوجود خود اللہ تعالیٰ نے کہاہے کہ غیرمسلموں کے معبودان باطلہ کوبرابھلانہ کہاجائے،اورنہ ان کے ساتھ چھیڑچھاڑ کیاجائے؛ کہیں ایسانہ ہوکہ ان کے معبودوں کوبرابھلاکہنے کی وجہ سے وہ بھی تمہارے معبود یعنی اللہ کوبرابھلاکہنے لگیں۔اللہ تعالیٰ کاارشادہے:ترجمہ: اورگالیاں نہ دو ان کو جن کی یہ لوگ اللہ کو چھوڑکرعبادت کرتے ہیں۔ورنہ وہ بھی اپنی جہالت کی وجہ سے حد سے گزرکراللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کریں گے۔(سورہ الانعام:۱۰۸)
غیرمسلموں کے عبادت خانوں کااحترام ضروری ہے:
قرآن کریم نےجہاں عبادت گاہوں کے منہدم کرنے کی مذمت کی ہے وہاں مسلمانوں کی مسجدوں سے پہلےیہودی اورعیسائیوں کے گرجوں کاذکر فرمایا ہے۔ (سورۃ الحج:۴۰)اس سے ظاہر ہے کہ عبادت گاہوں خواہ کسی بھی مذہب کی ہوں ان کاحترام ملحوظ رکھناضروری ہے۔
اسلام نے مسلمانوں پر لاز م قراردیاہے کہ وہ غیرمسلموں کے عبادت خانوں کو بھی مسمارنہ کریں، اورنہ ان کےساتھ چھیڑچھاڑ کریں۔نبی کریم ﷺ نے بنونجران کے عیسائیوں سے جو معاہدہ فرمایاتھااس میں اس بات کی صراحت ہے کہ ان کی عبادت گاہیں منہدم نہیں کی جائیں گی اورنہ ہی ان کے مذہبی امورمیں مداخلت کی جائے گی۔(سنن ابی داؤد، حدیث نمبر:۳۰۴۱)فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ اگرکسی نےغیرمسلم کے بنے بنائے عبادت خانہ کو منہدم کردیاتو اس کی تعمیرکرادیناضروری ہے۔(ہدایہ علی فتح القدیر:۶/۵۸)
مسجدوں میں غیرمسلموں کاداخلہ:
مسجدیں محض اللہ کی عبادت کے لئے قائم کی جاتی ہیں، ہوناتو یہ چاہئے تھاکہ مسجد میں صرف ان ہی لوگوں کاداخلہ جائز ہوتا، جو اللہ کی وحدانیت کے قائل ہیں،اوراسی کی عبادت کرتے ہیں، جو لوگ اللہ کو نہیں مانتے یااس کے ساتھ دوسرے کوبھی شریک ٹھہراتے ہیں، ان کاداخلہ مساجدمیں ممنوع ہوتا؛لیکن شریعت اسلامی کے مطابق مساجد میں ہر انسان کاداخل ہونا جائز ہے،خواہ وہ کسی بھی مذہب کاماننے والاہو،بلکہ اگر وہ خود اللہ ہی کامنکر ہے پھربھی اس کاداخل ہوناجائز ہے۔چنانچہ السیرالکبیر میں ہے کہ سفیان بن حرب جو کہ کفار مکہ کے سردار تھے وہ بھی مسجد میں داخل ہوتے تھے۔(السیر الکبیر،۱/۱۳۴،باب دخول المشرکین المسجد)،اسی طرح یہ بھی منقول ہے کہ قبیلہ ثقیف کاوفد جب آپ ﷺ کی خدمت میں آیاتو آپ ﷺ نے حکم فرمایاکہ ان کے لیے مسجدمیں گنبد نماخیمہ بنایاجائے تاکہ وہ وہیں پر قیام کرسکیں۔ (شرح السیرالکبیر :۱/۱۳۴باب دخول المشرکین المسجد)
آپﷺ نےفتح مکہ کے موقعہ پر فرمایا: مَنْ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَهُوَ آمِنٌ۔ جو مسجدحرام میں داخل ہوگیااس کو امن مل گیا۔گویا کہ آپ نے دخولِ مسجد کوجائے پناہ بتایااورغیرمسلموں کےلئے اس میں داخل ہونےپررضامندی کااظہارفرمایا۔اس لیے غیر مسلم مسجد میں داخل ہوسکتے ہیں۔
اس لیے ہندوبھائیوں کے لیے سیلاب وناگہانی حادثات اور اس طرح کے دیگر مواقع میں مسجد کے دروازے کھلے رکھے جاسکتے ہیں۔بلکہ ہندوستان کے ماحول میں مسجد کے احاطہ میں ایک گوشہ غیرمسلموں کے لئے ہوناچاہئے؛ تاکہ اگر وہ بحالت سفر آرام کرناچاہیں، تو کرسکیں، اسی طرح ان کے لئے کھانے پینے ، نہانے دھونے پیشاب پاخانہ وغیرہ کاانتظام ہوناچاہئے۔ پانی پینے کے لئے ایک نل تو باہر راستے پر لگواناچاہئے جو رفاہِ عام کے لئے ہوہر قسم کاراہ گیر اس سے پانی پی سکے۔اس کی وضاحت بورڈ لگاکردیاجائےتو ان شاء اللہ اس سے غیرمسلموں کے ذہنوں میں مسلمانوں کے خلاف جوغلط فہمیاں ہیں وہ دور ہوں گی ۔فقط
Comments are closed.