تلاشِ وجود: جو خود سے بچھڑ گیا

آمنہ یٰسین ملک
(بدریون پلوامہ، کشمیر)
انسان کی سب سے قیمتی چیز اس کی شناخت نہیں، بلکہ اس کا نفس ہے۔ وہی نفس جو کسی کو فرشتوں سے افضل بناتا ہے، اور کسی کو حیوانوں سے بھی بدتر۔ مگر المیہ یہ ہے کہ آج کا انسان ترقی کے نام پر، آزادی کے خواب میں، اور لذتوں کی دوڑ میں اپنا سب سے قیمتی سرمایہ (اپنا نفس) گم کر چکا ہے۔
یہ گمشدگی بازاروں میں نہیں ہوئی، یہ کسی جنگل یا ویرانے میں نہیں چھوٹی، بلکہ یہ گمشدگی انسان کے اندر ہوئی ہے۔ وہ خود میں خود کو کھو بیٹھا ہے۔
وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنسَاهُمْ أَنفُسَهُمْ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ۔ (سورۃ الحشر: 19)
’’اور اُن لوگوں جیسے نہ ہو جاؤ جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے انہیں اُن کے اپنے نفس بھلا دیے۔ یہی لوگ فاسق ہیں۔‘‘
یہی اصل تباہی ہے: اپنے رب کو بھلا دینا، جس کے بعد انسان خود کو بھی بھول جاتا ہے۔ آج کا نوجوان، جو طاقت کا سمندر، امیدوں کا چراغ اور قوم کا مستقبل ہوتا ہے، وہ خواہشات کی دلدل میں گم ہو گیا ہے۔ اپنے اندر کی آواز کو وہ ہنسی مذاق، سوشل میڈیا، اور دکھاوے میں دبا چکا ہے۔
ہر دوسرا نوجوان آج یہی سوال کرتا ہے:
’’میں کیوں اداس ہوں؟‘‘
’’مجھے سکون کیوں نہیں؟‘‘،
’’مجھے خود سے نفرت کیوں ہے؟‘‘
اس کے دل کا جواب وہ خود نہیں سنتا، مگر قرآن صدیوں پہلے جواب دے چکا:
أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَـٰهَهُ هَوَاهُ۔ (الجاثیہ: 23)
کیا تم نے اُس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہشات کو اپنا معبود بنا لیا؟
یہی وہ مقام ہے جہاں انسان نفس کا غلام بن جاتا ہے، اور وہ نفس آہستہ آہستہ اُس کا قاتل بن جاتا ہے- اُس کے سکون کا، اُس کی روحانیت کا، اُس کے ایمان کا۔
جب انسان کا نفس زنگ آلود ہو جائے تو اسے برائی میں لذت اور نیکی میں بوجھ محسوس ہوتا ہے۔ ایسے میں وہ دنیا کے شور میں ڈوبا ہوتا ہے، مگر اندر سے ٹوٹا ہوتا ہے۔ چہرے پر مسکراہٹ، لیکن دل میں ویرانی۔
كَلَّا بَلْ رَانَ عَلَىٰ قُلُوبِهِم مَّا كَانُوا يَكْسِبُونَ۔ (المطففین: 14)
نہیں، بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کا زنگ چڑھ گیا ہے۔
یہی وہ زنگ ہے جو دل کو قرآن سے، نماز سے، والدین کی دعاؤں سے، اور رب کی رحمت سے محروم کر دیتا ہے۔
اس گمشدہ نفس کی علامات کیا ہیں؟
گناہ میں سکون کا گمان ،تنہائی میں بےچینی، سچ بولنے سے ڈر، دکھاوا اور شہرت کی چاہ اور سب سے بڑھ کر… رب سے دوری آج کا انسان ’’آزاد‘‘ نظر آتا ہے، مگر وہ خواہشات کا قیدی ہے۔ وہ ’’خود کو جاننے’‘‘ کی بات کرتا ہے، مگر اصل میں خود سے بھاگ رہا ہوتا ہے۔
مگر یہاں سوال اُٹھتا ہے:
کیا گمشدہ نفس واپس آ سکتا ہے؟
کیا جو بھٹک چکا، وہ سنور سکتا ہے؟
قرآن دل کو امید دیتا ہے:
قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا۔ (الزمر: 53)
کہہ دو: اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی، اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہو۔ بے شک اللہ سب گناہ معاف کر دیتا ہے۔
یہی وہ راستہ ہے جہاں گمشدہ نفس پھر راہ پا لیتا ہے، جب انسان توبہ کرتا ہے، اللہ کی طرف پلٹتا ہے، اور دل سے پکار اٹھتا ہے:
اے رب! میں تھک گیا ہوں، مجھے واپس بلا لے۔
گمشدہ نفس کی تلاش کا پہلا قدم ہے: خود کا محاسبہ۔
اپنے دل سے سوال کرو:
کیا میں اپنی حقیقت کو جانتا ہوں؟
کیا میرا اللہ سے رابطہ زندہ ہے؟
کیا میری آنکھیں کبھی رب کے خوف سے نم ہوئیں؟
کیا میری راتیں صرف نیند کے لیے ہیں، یا میں کبھی سجدے میں بھی گرا ہوں؟
کیا میں قرآن سے بات کرتا ہوں یا صرف دنیا سے؟
جواب اگر "نہیں” ہے تو وقت ہے، لوٹنے کا۔
نفس کو قابو میں لانے کا۔
قرآن سے رشتہ جوڑنے کا۔
اللہ سے رابطے کو زندہ کرنے کا۔
حقیقی خوشی کی تلاش کا۔
یہی وہ لمحہ ہے جب انسان کو رک جانا چاہیے، جھک جانا چاہیے، اور سوچنا چاہیے۔ جو گم ہو چکا ہے، وہ صرف اسی وقت ملے گا جب ہم اُس کو تلاش کریں جس نے ہمیں پیدا کیا۔ گمشدہ نفس صرف وہی پاتا ہے جو رب کی طرف مڑتا ہے۔
وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا۔ (الطلاق: 2)
جو اللہ سے ڈرتا ہے، اللہ اس کے لیے نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے۔
اے دل، اگر تُو واقعی گمشدہ ہے… تو لوٹ آ؛ کیونکہ رب کی رحمت آج بھی تجھے آواز دے رہی ہے۔
Comments are closed.