اسلامی معاشرے کے دو بنیادی اصول: مساوات ، احترام انسانیت

(مفتی) انعام اللہ خان
دنیا کے مہذب معاشروں اور تمام آسمانی مذاہب کی سماجی تعلیمات کا خلاصہ ، اگر ایک لفظ میں بیان کیا جائے تو وہ ہے ، انسانیت۔
اور انسانیت کی بنیاد ، دو عظیم اصولوں پر استوار ہوتی ہے :
▪️مساوات
▪️احترام انسانیت۔
یہ وہ سنہرے اصول ہیں جو معاشرے کو امن و سکون ، عدل و انصاف اور خوشی و مسرت کا گہوارہ بنا سکتے ہیں۔
اگر انسانوں کے درمیان سے تفریق ، تعصب ، نسلی و طبقاتی بھید بھاؤ، اور استحصال کا خاتمہ مقصود ہے تو ان کے لئے مساوات و احترام انسانیت بنیادی عناصر ہیں ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انسانی سماج میں اسلامی نقوش ثبت کرنے کا آغاز فرمایا ، اس وقت دنیا ظلم ، جہالت ، طبقاتی تقسیم ، اور نسلی تفاخر میں ڈوبی ہوئی تھی۔
اس پر آشوب دور میں انسانوں کا ایک طبقہ خود کو سپیریئر اور نسلی طور پر فائق اور باقی انسانوں کو رذیل و کمتر تصور کرتا تھا۔
اور اس کے ، نسلی برتری کے اس تصور کی وجہ سے انسانیت پر ظلم و ناانصافی کا ایک مہیب و لا متناہی سلسلہ جاری تھا ۔
اسی وقت عرب کے ریگزاروں میں اسلام کی یہ آواز گونجی:
*”يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا، إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ”*
*(الحجرات: 13)*
"اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تم میں قوم اور قبیلہ اس لیے بنائے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔
بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔”
یہ اعلان در اصل ایک ربانی اعلامیہ تھا کہ انسانوں کے خالق کی نگاہ میں رنگ، نسل، زبان، وطن، مال و دولت کی بنیاد پر کوئی برتری نہیں، فضیلت کا معیار تقویٰ اور نیکی ہے۔
رعایا ہو یا حکمراں ، کالا ہو یا گورا، عجمی ہو یا عربی مالک حقیقی کی نظر میں سب برابر ہیں۔
نبی کریم ﷺ نے اس کا اعلان،
حجة الوداع کے موقع پر ، ان الفاظ میں کیا:
*يا أيُّها الناسُ إنَّ ربَّكمْ واحِدٌ ألا لا فضلَ لِعربِيٍّ على عجَمِيٍّ ولا لِعجَمِيٍّ على عربيٍّ ولا لأحمرَ على أسْودَ ولا لأسودَ على أحمرَ إلَّا بالتَّقوَى إنَّ أكرَمكمْ عند اللهِ أتْقاكُمْ*
(شعب الایمان للبیھقی)
” ائے لوگو! تم سب کا رب ایک ہے ۔ کسی عربی کو عجمی پر، یا کسی عجمی کو عربی پر اور کسی گورے کو کالے پر اور کالے کو گورے پر کوئی فضیلت نہیں ، برتری کا معیار صرف تقویٰ ہے ۔ تم میں سب سے زیادہ معزز ہے وہ ہے جس میں سب سے زیادہ تقوی ہو ۔
*▪️مساوات واحترام : لازم ،ملزوم▪️*
مساوات اس وقت تک اپنی اصل حالت میں جلوہ گر نہیں ہو سکتی جب تک انسانیت کی عزت ، سماج کا لازمی حصہ نہ بن جائے ۔
انسان چاہے کسی بھی مذہب، نسل یا نظریہ سے تعلق رکھتا ہو، بحیثیتِ انسان ، اس کا احترام فرض ہے۔
قرآن کریم نے ایک عام انسان کی جان کی حرمت کو پوری انسانیت کی جان کے برابر قرار دیا:
ارشاد فرمایا:
*مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ، فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا، وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا ( المائدة 32 )*
جس نے کسی کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ناحق قتل کیا گویا اس نے انسانیت کا خون کیا ۔ اور جس نے کسی کی زندگی بچائی ، گویا اُس نے پوری انسانیت کو بچایا ۔
▪️اسلام نے بنا تفریق مذہب و ملت بیمار، کمزور، یتیم، فقیر، بچے ، بوڑھے سبھی کے حقوق بیان فرمائے ۔
ایک موقع پر ،
*مَرَّ جَنَازَةٌ، فَقَامَ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقِيلَ: إِنَّهَا يَهُودِيَّةٌ، فَقَالَ: أَلَيْسَتْ نَفْسًا؟*
( بخاری )
نبی کریم ﷺ نے ایک جنازے کو گزرتے دیکھا، آپ ﷺ کھڑے ہو گئے۔ صحابہؓ نے عرض کیا: "یا رسول اللہ! یہ تو یہودی کا جنازہ تھا۔”
آپ ﷺ نے فرمایا:
"کیا وہ انسان نہ تھا؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس سوال سے واضح ہوتا ہے کہ انسانیت کی عزت کسی مذہب یا شناخت کی محتاج نہیں، وہ فطری طور پر قابلِ احترام ہے۔
*♦️موجودہ معاشرہ اور ہم♦️*
آج کا انسان، بظاہر ترقی یافتہ سوسائٹی میں جی رہا ہے، لیکن نسلی امتیاز، مذہبی تعصب، معاشی ناانصافی اور سماجی استحصال اس میں بدستور قائم ہے۔
کہیں کالوں کو کم تر سمجھا جا رہا ہے، کہیں اقلیتوں کو دبایا جا رہا ہے، کہیں عورتوں کو عزت و سکون کےحق سے محروم کیا جا رہا ہے۔
اور کہیں ذات برادري کی بنیاد پر انسانوں کو حقیر و کمتر سمجھا جا رہا ہے ۔
بلكہ حیرت اس پر ہے کہ دنیا کے بعض حصوں میں اس ناانصافی کو نیکی کا درجہ حاصل ہے ۔
ایسے حالات میں اسلام کا مساوات پر مبنی نظامِ حیات ہی دنیا کو اصل امن و عدل دے سکتا ہے ۔
جہاں انسان کو صرف "انسان” ہونے کی بنا پر عزت حاصل ہوتی ہے۔
اسلام میں مساوات و احترامِ انسانیت کے نعرے صرف نظریاتی نہیں بلکہ عملی ہیں۔
کوئی بھی معاشرہ جب تک ان اصولوں کو عملاً اختیار نہیں کرے گا، امن، عدل اور بھائی چارے کا خواب ادھورا رہے گا۔
ہمیں چاہیے کہ ہم دینِ اسلام کے ان روشن اصولوں کو اپنائیں ، معاشرے میں ہر انسان کو عزت دیں، اور انصاف کو عام کریں۔
یہی کامیابی کا راستہ ہے، یہی انسانیت کی معراج ہے۔
*کاروبار اور پیشے ، حیثیت کا پیمانہ نہیں❗*
رہا معاملہ پیشوں کا ، اسلام میں پیشے کبھی بھی عزت و ذلت کا معیار نہیں رہے ہیں ۔
اور نہ ہی پیشوں کی بنیاد پر کبھی ذات برادری کا تعین یا تقسیم ہوئی ہے ۔
کوئی بھی پیشہ ، اگر وہ جائز و حلال اور سچائی ودیانتداری پر مبنی ہے تو معزز ہے، خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا ۔
اللہ سبحانہ وتعالی نے قرآن کریم میں دستکاری کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے۔
چنانچہ ارشاد ہے:
*وَعَلَّمْنَاهُ صَنْعَةَ لَبُوسٍ لَّكُمْ لِتُحْصِنَكُم مِّن بَأْسِكُمْ ۖ فَهَلْ أَنتُمْ شَاكِرُونَ*
( الانبیاء 80)
اور ہم نے داؤد کو زرہ بنانے کی صنعت سکھایا تھا تاکہ تم جنگوں میں اپنی حفاظت کر سکو ،کیا تم شکر گزار ہو۔
صحیح بخاری میں ہے۔
*”عن المقدام رضی اللہ عنہ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: ما أکل أحد طعاما قط خیرا من أن یأکل من عمل یدہ وإن نبی اللہ داؤد علیہ السلام کان یأکل من عمل یدہ”*
“نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی کے لیے بھی اس کے ہاتھ کی کمائی کے کھانے سے بہتر کوئی کھانا نہیں ہے۔
اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کے نبی داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ کی کمائی کھاتے تھے۔”
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
*کان زکریا نجارا*
زکریا علیہ السلام بڑھئی تھے ۔
(مسلم ،مسند احمد ،ابن ماجہ)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضور ﷺ نے فرمایا:
*مَا بَعَثَ اللَّهُ نَبِيًّا إِلَّا رَعَى الْغَنَمَ، فَقَالَ أَصْحَابُهُ: وَأَنْتَ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، كُنْتُ أَرْعَاهَا عَلَىٰ قَرَارِيطَ لِأَهْلِ مَكَّةَ ( بخاری )*
ہر نبی نے قبل از بعثت بکریاں چرائی ہیں۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ، آپ نے بھی؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ، چند قیراط کے معاوضے پر میں ، مکے والوں کی بکریاں چرایا کرتا تھا.
▪️حضرت آدم علیہ السلام کھیتی باڑی،
▪️حضرت ادریس علیہ السلام درزی کا کام اورحضرت موسیٰ علیہ السلام بکریاں چرانے کاکام کرتے تھے۔
▪️حضرت صالح علیہ السلام اور حضرت ہود علیہ السلام تجارت کر کے گزارا کرتے تھے۔
▪️ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ نے بھی تجارت کا پیشہ اختیار فرمایا تھا۔
پیشہ کوئی بھی ہو اگر حلال و جائز ہے تو معزز ہے ۔
پیشہ کی بنیاد پر کوئی عزیز یا رذیل نہیں ہوتا ،
رہا معاملہ ذات و برادری کا، تو اسلام میں اس کا کبھی کوئی تصور نہیں رہا ہے نہ خاندان کی بنیاد پر اور نہ ہی پیشے کی بنیاد پر ۔
عربوں میں قبیلہ و خاندان کا نظام رائج تھا جیسے بنوہاشم ، بنو امیہ ، بنو اسرائیل وغیرہ ۔
ایک ہی خاندان میں مختلف پیشے ہوا کرتے تھے۔
بسا اوقات والد کا پیشہ کچھ اور اولاد کا پیشہ کچھ ہوا کرتا تھا ۔
اور پیشوں کی طرف نسبت میں کسی طرح کا کوئی عار نہیں سمجھا جاتا تھا۔
تاریخ شاہد ہے کہ بہت سے اکابر علماء ، کسی نہ کسی پیشے سے اپنی وابستگی ظاہر کرتے نظر آتے ہیں۔
امام غزالی رحمة الله عليه اپنے نام کے ساتھ غزالی (جولاہا) لگاتے تھے ،
ان کا آبائی پیشہ سوت کاتنا تھا ۔
صاحب جرح و تعدیل علامہ شمس الدین ذھبی رحمة الله عليه سونار تھے ،
ذھبی کا مطلب سونار ہوتا ہے۔
امام مسلم کپڑے کی تجارت کرتے تھے فراء لکھتے ہیں:
*و کان رحمه الله بزازا*
مشہور حنفی فقیہ ابوبکر بن علی حداد یمنی خود كو آبائی پیشے سے منسوب کرتے ہوئے حداد( لوہار ) لکھتے تھے۔
جب کہ آپ کا سلسلہ نسب حضرت علی و فاطمہ رضی الله تعالیٰ عنہما سے ملتا ہے۔
اسی طرح امام ابوبکر جصاص رازی رحمه الله کا آبائی پیشہ ديوار پر چونے کی رنگائی کرنا تھی ،
اسی وجہ سے انہیں جصاص کہا جاتا ہے ۔
*الجصاص: نسبة إلى العمل بالجص وتبييض الجدران، وهو النورة البيضاء. وهذا قد يدل على اشتغاله به. وقد يكون عمله هذا للارتزاق به وكسب معيشته من عمل يده،*
( ياقوت الحموي، معجم البلدان )
سنہ 80 میں پیدا ہونے والے قرآن کریم کے بڑے عالم و قاری جن کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کا زمانہ بھی حاصل ہوا ہے ، حمزہ بن حبیب زیات رحمة الله عليه ، تیل کا کاروبار کرتے تھے ۔
اسی وجہ سے ان کے نام کے ساتھ زیات ( تیلی ) جڑا ہوا ہے۔
*كان يجلب الزيت من العراق إلى حُلْوان، ويجلب من حلوان الجوز والجبن إلى الكوفة.*
(معرفة القراء)
اور بہت سے اکابر علماء، خود کے یا آبائی پیشے کو ، اپنے نام کے ساتھ لگانے میں کوئی عار نہیں محسوس کرتے تھے ۔
بعض اپنے نام کے ساتھ قدوری ( کمہار ) اور بعض دباغ ( موچی ) وغیرہ لگاتے تھے اور اس نسبت میں انہیں کسی طرح کی کوئی جھجھک نہیں ہوتی تھی کیونکہ مسلمانوں کے یہاں ، کسی پیشے یا خاندان کی بنیاد پر کبھی کسی کو حقیر نہیں سمجھا گیا ۔
ایمان کی دعوت کے بعد ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے زیادہ توجہ ، دبی کچلی انسانیت کا وقار بحال کرنے اور ان کی عزت نفس کی باز یافت کے لئے تھی ۔
مگر !
اعداء اسلام نے جس طرح اسلامی نظام عدل و امن کو بدنام کرنے کے لئے خود ساختہ دہشت گردی کو اسلام سے جوڑا، اسی طرح اسلام کے تصور مساوات واحترام انسانیت کو متزلزل کرنے اور اسلام کی امیج خراب کرنے کی سازشیں کرتے رہے ہیں ۔
یہ الگ بات ہے کہ ان کی ان سازشوں میں ہمارے کچھ لوگوں کا بھی تعاون شامل ہیں۔
▪️بھلا کسی فیملی میں پیدا ہونے سے کوئی رذیل ہو سکتا ہے ؟
▪️آخر اس میں پیدا ہونے والے کا کیا قصور ہے ؟
▪️کسی کو پیدائشی طور پر حقیر سمجھنے کا حق کہاں سے ملتا ہے ؟
اللہ تعالی نے اپنے ہر بندے کو انسان ہونے کی حیثیت سے قابل احترام بنایا ہے ۔
*ولَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِىٓ ءَادَمَ*
(الإسراء – 70)
اور ہم نے اولاد آدم کو قابل احترام بنایا ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ معاشره ميں فضیلت کا معیار ، اچھا اخلاق ، انسانیت کی خدمت اور حسن سلوک ہے۔
جو جس قدر خدمت خلق کرتا ہے اسے اسی قدر عزت ملتی ہے ۔
اور اپنے اس عمل میں کون کتنا مخلص ہے یعنی کس میں کتنا تقوی و پرہیزگاری ہے ؟
اس کا فیصلہ ، دنیا میں ہونا مشکل ہے۔
ٹیکنالوجی کے اس جدید دور میں بھی ابھی تک اس کا کوئی تھرما میٹر ایجاد نہیں ہو سکا ہے ، جس سے تقوی کی کمی بیشی کا اندازہ لگایا جا سکے ۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں۔
*هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنْشَأَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ وَإِذْ أَنْتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ ۖ فَلَا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ ۖ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَىٰ۔*
(النجم 32 )
اللہ تعالیٰ تم سے ( تمھارے وجود سے پہلے سے ہی ) اچھی طرح واقف ہیں ، جس وقت انہوں نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں تھے اس لئے اپنی پارسائی مت ظاہر کرو،
اللہ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ تم میں کون متقی ہے ۔
علامہ زمخشری اور علامہ قرطبی رحمهما الله لکھتے ہیں کہ کچھ مسلمان اپنی نماز روزہ اور حج کا تذکرہ کر رہے تھے ، اسی موقع پر یہ آیت نازل ہوئی کہ یہ عبادتیں متقی ہونے کی دلیل نہیں ہیں.
تقوی کا تعلق دل كي کیفیت سے ہے اور اس کا علم اللہ رب العزت کو زیادہ ہے ۔
جب عبادتیں، انسان کی بہتری و کمتری کا پیمانہ نہیں ہیں تو محض کسی خاندان میں پیدا ہو جانا کسی کی بہتری یا کمتری کا پیمانہ کیسے ہو سکتا ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
*بِحَسْبِ امْرِئٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ يَحْقِرَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ، كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ، دَمُهُ، وَمَالُهُ، وَعِرْضُهُ*
[مسلم]
"کسی آدمی کے برے ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے ، ہر مسلمان پر مسلمان کا خون ،مال، عزت حرام ہے ۔
اس لئے خدا را مسلمانوں میں ذات برادری کو اونچ نیچ اور شرافت و رذالت کی بنیاد مت بنایئے ، اسے تعارف تک ہی محدود رہنے دیجئے ۔
*اور خبردار ! ملک کے موجودہ حالات میں ، برادریت کی بنیاد پر ایسا کوئی قدم ہرگز مت اٹھایئے جس سے آپ کی اسلامی شناخت متاثر ہو ۔*
(مفتی) انعام اللہ خان
الحراء فاؤنڈیشن ممبئی
9324081144
Comments are closed.