میڈیا: سماج کا معمار یا مسمار؟

مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)
اسلام ایک ایسا دین ہے جو فطرت، عقل، اور عدل کی بنیاد پر انسان کی فکری و اخلاقی تربیت کرتا ہے۔ قرآنِ حکیم کی پہلی وحی ہی "اقْرَأْ” (پڑھ) سے شروع ہوتی ہے، جو ابلاغ، تعلیم اور معلومات کی ترسیل پر زور دیتی ہے۔ یہ وہی بنیاد ہے جس پر علم، شعور اور اصلاحِ معاشرہ کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ چنانچہ اسلامی تعلیمات میں "خبر”، "شہادت” اور "بلاغ” کو نہایت اہم اور نازک ذمہ داری قرار دیا گیا ہے۔
فرمانِ الٰہی ہے: "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا…” (سورۃ الحجرات: 6)۔ "اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو…”۔ یہ آیتِ مبارکہ صرف ایک صحافتی اصول نہیں بلکہ میڈیا کی دنیا کے لیے ایک ابدی ضابطۂ اخلاق ہے — کہ ہر خبر، ہر اطلاع، ہر پیغام تحقیق، احتیاط اور انصاف کے ترازو میں تولا جانا چاہیے۔ رسولِ اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: "كَفَى بِالْمَرْءِ كَذِبًا أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ”۔ (صحیح مسلم)۔ "آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو بیان کرنے لگے”۔ یہی وہ معیار ہے جس پر ایک ذمے دار میڈیا کا کردار قائم ہوتا ہے۔
میڈیا آج کے دور کا سب سے طاقتور ذریعۂ ابلاغ ہے — یہ نہ صرف معلومات پہنچاتا ہے بلکہ ذہنوں کو تشکیل دیتا ہے، رویّوں کو بدلتا ہے، اور تہذیبوں کے رخ متعین کرتا ہے۔ ایسے میں اسلام ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ابلاغ کا ہر ذریعہ "امانت” ہے، اور قیامت کے دن اس امانت کے بارے میں سوال ہو گا۔ "إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا”۔ (سورۃ الإسراء: 36)۔ "بے شک کان، آنکھ، اور دل — ان سب کے بارے میں باز پرس ہو گی”۔ پس میڈیا، اگر خیر کے پیغام کو پھیلانے، مظلوم کی آواز بننے، اور فتنوں کی آگ بجھانے کا ذریعہ بنے تو یہ صدقۂ جاریہ ہے۔ لیکن اگر یہی ذریعہ جھوٹ، فتنہ، فحاشی اور تعصب کو فروغ دے، تو یہ محض ایک گناہ نہیں بلکہ ایک اجتماعی فساد کا سبب بن جاتا ہے۔
اسلامی نقطۂ نظر سے میڈیا صرف "ٹیکنالوجی” نہیں، بلکہ "ذمّہ داری” ہے — ایک ایسا منبر، جس پر اگر سچائی، انصاف، اور خیر کی صدا بلند ہو، تو وہ دلوں کو ہدایت کی طرف موڑ سکتا ہے؛ اور اگر اسی منبر پر جھوٹ، تعصب اور حرص کا طوفان اٹھے، تو وہ نسلوں کو گمراہی کی طرف دھکیل سکتا ہے۔ اسی تناظر میں ہمیں آج کے میڈیا کے مثبت اور منفی اثرات کا جائزہ لینا ہو گا — تاکہ ہم یہ سمجھ سکیں کہ یہ طاقت، یہ آئینہ، یہ تلوار… ہمارے ہاتھ میں خیر کا ذریعہ بنے گی یا شر کا وسیلہ۔
دنیا اب ایک عالمی گاؤں بن چکی ہے، اور اس انقلابی تبدیلی کا سب سے مؤثر ذریعہ "میڈیا” ہے۔ میڈیا وہ آئینہ ہے جس میں زمانے کی حقیقتیں جھلکتی ہیں؛ مگر بسا اوقات یہی آئینہ ایسا چراغ بھی بن جاتا ہے جو اندھیروں کو چیرنے کے بجائے آنکھوں کو خیرہ کر دیتا ہے۔ دنیا کا نقشہ تیزی سے بدل رہا ہے، اور زمان و مکان کی وہ دیواریں جو کبھی قوموں، تہذیبوں اور افراد کے درمیان حائل تھیں، اب محض ایک دھندلی یاد بن چکی ہیں۔ ہم ایک ایسے عہد میں سانس لے رہے ہیں جہاں فاصلے مٹ چکے ہیں، آوازیں سرحدیں پار کر لیتی ہیں، اور ایک براعظم کے دوسرے کنارے پر بیٹھا انسان بھی یوں قریب محسوس ہوتا ہے جیسے وہ ہمارے سامنے بیٹھا ہو۔ یہ سب کچھ اگر کسی ایک طاقت کا مرہونِ منت ہے، تو وہ "میڈیا” ہے — وہ جادوئی آئینہ جو صرف چہروں کو نہیں، بلکہ زمانے کی سچائیاں، معاشرتی رنگ، فکری زاویے، اور تہذیبی پرتیں بھی آشکار کرتا ہے۔
میڈیا آج محض خبروں کا ذریعہ نہیں رہا، بلکہ یہ ایک ایسا ہمہ گیر وجود بن چکا ہے جو انسانی حواس پر محیط ہے۔ یہ سوچ کے دھاروں کو نئی راہیں دیتا ہے، رائے عامہ کو تشکیل دیتا ہے، اور بسا اوقات خاموش ذہنوں میں انقلابی لہریں بیدار کر دیتا ہے۔ یہ وہ چراغ ہے جس سے علم، شعور، آگہی اور بیداری کی روشنی پھوٹتی ہے — لیکن سچ یہ بھی ہے کہ یہ چراغ جب غیر ذمّہ دار ہاتھوں میں چلا جائے تو اندھیروں کو چیرنے کے بجائے، آنکھوں کو خیرہ کر دیتا ہے۔ ایسی روشنی جو بینائی کے بجائے بصیرت کو سلب کر لے، وہ روشنی نہیں رہتی، وہ فریب بن جاتی ہے۔
آج کے دور کو اگر "میڈیا کا دور” کہا جائے تو یہ مبالغہ نہیں، بلکہ حقیقت کا عکاس جملہ ہے۔ ایسا دور جہاں ہر گھر میں ایک اسکرین ہے، ہر ہاتھ میں ایک موبائل، اور ہر ذہن ایک سیلابِ معلومات کی زد میں ہے۔ یہ میڈیا ہے جو خوابوں کو تراشتا ہے، ذہنوں کو سانچوں میں ڈھالتا ہے، اور دلوں میں خواہشات کے دیپ جلاتا ہے۔ یہ محبت کی داستان بھی سناتا ہے، نفرت کی چنگاریاں بھی بھڑکاتا ہے۔ یہ علم کا دریا بھی بہاتا ہے، اور گمراہی کا طوفان بھی اٹھاتا ہے۔ یہ حقیقت کا عکس بھی دکھاتا ہے، اور فریب کا سراب بھی بناتا ہے۔
میڈیا کی یہ دو رُخی فطرت ایک تلوار کی مانند ہے — جو ایک طرف عدل و آگہی کی راہ ہموار کرتی ہے، اور دوسری طرف خواہشات، سرمایہ، اور طاقت کی بھینٹ چڑھ کر معاشروں کو گمراہی کی طرف دھکیل دیتی ہے۔ یہاں سے یہ سوال جنم لیتا ہے: کیا ہم میڈیا کے خادم ہیں یا اسے ایک شعوری ذریعہ بنا کر انسانیت کے مفاد میں استعمال کر رہے ہیں؟ میڈیا کی تاثیر کو نہ جھٹلایا جا سکتا ہے، نہ روکا جا سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس آئینے کو شفاف رکھا جائے — تاکہ وہ جھوٹے عکس نہ دکھائے، بلکہ سچائی کی وہ تصویر پیش کرے جو معاشرے کو خود شناسی، فکری بالیدگی اور تہذیبی ارتقاء کی جانب لے جائے۔
میڈیا: شعور کا چراغ
میڈیا، محض ذرائع ابلاغ کا نام نہیں، بلکہ یہ زمانۂ جدید کا وہ جادوئی پُل ہے جو علم، خبر، فہم، اور شعور کے سمندروں کو انسان کی دہلیز پر لا کر رکھ دیتا ہے۔ یہ پُل، زمان و مکان کی قید سے آزاد ہو کر انسان کو ہر لمحہ ایک نئے جہان سے جوڑ دیتا ہے۔ وہ کسان جو دن بھر دھوپ میں جلتا ہے، وہ طالب علم جو مٹی سے اٹی چھت کے نیچے شوقِ علم میں مصروف ہے، وہ شہری جو دفتر اور بازار کی مشغولیات میں گھرا ہوا ہے — ان سب کے درمیان جو ربط پیدا ہوا ہے، وہ میڈیا کی مرہونِ منت ہے۔ یہ وہ روشن دریچہ ہے جس سے دنیا کا ہر منظر جھانکا جا سکتا ہے — کہیں ہمالیہ کی برف پوش چوٹی، کہیں افریقہ کی دھوپ زدہ زمیں، کہیں یورپ کی جامعات میں ہونے والے تحقیقی انکشافات، اور کہیں کسی انجان گاؤں کی خاموش بغاوت — سب کچھ ایک انگلی کی جنبش سے ہمارے سامنے آ جاتا ہے۔
میڈیا، آج کا معلّم بھی ہے اور مبصّر بھی۔ تعلیمی چینلز علم کے باغ میں نئی کونپلیں اگاتے ہیں، دستاویزی فلمیں دنیا کے ان گوشوں کی سیر کراتی ہیں جن تک نہ نگاہ جا سکتی ہے نہ قدم، اور ادبی مکالمے ذہنوں میں فکر کی تازگی بھرتے ہیں۔ یہی میڈیا ہے جو ایک کتاب کے اوراق کو آواز، منظر اور احساس کی صورت میں پیش کرتا ہے۔ یہی وہ معجزہ ہے جو سوچنے والے ذہن کو تنقیدی نظر عطا کرتا ہے، اور بے جان سچائیوں کو زبان بخشتا ہے۔
میڈیا نے صرف علم کو عام نہیں کیا، بلکہ مظلوم کی آہ کو آواز دی ہے۔ وہ صدائیں، جو کبھی بند کمروں میں دب جاتی تھیں، اب دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑتی ہیں۔ ایک صحافی کا کیمرہ جب کسی لاچار ماں کی آنکھوں میں بسی بے بسی کو قید کرتا ہے، تو ایک پوری قوم کا ضمیر جاگ اٹھتا ہے۔ میڈیا نے ان ظلمتوں کو آشکار کیا ہے جنہیں مصلحتوں کی دبیز چادر میں چھپا دیا گیا تھا۔ یہ کرپشن، نااہلی، ظلم اور جبر کو بے نقاب کرتا ہے، اور معاشرے کو اس کی خاموشی کا آئینہ دکھاتا ہے — کہ اب وقت ہے جاگنے کا، سوچنے کا، بولنے کا۔
میڈیا محض خبر رسانی کا آلہ نہیں، بلکہ یہ تہذیبوں کا ترجمان بن چکا ہے۔ فنونِ لطیفہ کے ذریعے اس نے قوموں کو قریب لایا ہے، رنگ، نسل، زبان اور جغرافیے کی دیواروں کو گرا کر ایک ایسی زبان تخلیق کی ہے جو دل سے دل کی بات کرتی ہے۔ ڈرامے، فلمیں، اور ادبی پروگرام صرف تفریح کا سامان نہیں، بلکہ یہ قوموں کے مزاج، ترجیحات، خواب اور روایات کا عکس بن چکے ہیں۔ میڈیا نے انسانی حقوق کو فقط کاغذی تحریر سے نکال کر عملی شعور میں ڈھالا ہے، اور یہ باور کرایا ہے کہ ہر انسان کی عزّت، آزادی، اور انصاف تک رسائی اس کا پیدائشی حق ہے۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ میڈیا، اگر بصیرت سے استعمال ہو، تو وہ چراغ ہے جو نہ صرف روشنی دیتا ہے بلکہ راستہ بھی دکھاتا ہے۔ یہ وہ طاقت ہے جو دلوں میں سوالات، ذہنوں میں جوش، اور معاشروں میں بیداری پیدا کرتی ہے۔ یہ علم کا وہ دریا ہے جو اگر شعور کی زمین سے بہایا جائے، تو وہ گلشن اگاتا ہے جس میں ترقی، امن، اور فلاح کے پھول کھلتے ہیں۔
میڈیا: گمراہی کی آندھی؟
مگر یہی میڈیا، جو کبھی علم و آگہی کا چراغ تھا، جب مقصدیت کی شاہراہ سے اتر کر محض سنسنی، تجارت، اور شہرت کی دلدل میں اتر جائے، تو وہی چراغ اندھیروں کا استعارہ بن جاتا ہے۔ جو ذریعہ بصیرت بننا تھا، وہ اب بے سمتی کا آئینہ بن چکا ہے۔ جب "سچ” کے مقدس منصب کو "سب سے پہلے” کی دوڑ میں پامال کر دیا جاتا ہے، تو صحافت مقدس پیشہ نہیں، محض ایک کاروبار بن کر رہ جاتی ہے۔ تہذیبوں کی پاسداری، اخلاقی اقدار کی حفاظت، اور انسانی جذبات کی حرمت — یہ سب کچھ ریٹنگز اور وائرل ہونے کی ہوس کے نیچے دبنے لگتے ہیں۔
میڈیا، جب ضمیر کی آواز بننے کے بجائے سرمائے کی گونج بن جائے، تو پھر خبروں میں سچائی کا عکس نہیں، بلکہ سازشوں کے سائے دکھائی دیتے ہیں۔ جھوٹے تجزیے، من گھڑت خبریں، کردار کشی کی مہمات، اور ذاتیات پر مبنی حملے، میڈیا کو ایک ایسا ہتھیار بنا دیتے ہیں جو سماج کے دل میں زخم کرتا ہے، مرہم نہیں رکھتا۔
تفریح کے نام پر فحاشی کی آندھی، بے حیائی کی جھلکیاں، اور مادہ پرستی کے نغمے، نئی نسل کو الجھن، بے راہ روی اور احساسِ کمتری کا شکار بنا رہے ہیں۔ جو نوجوان اپنی شناخت، مقصد، اور خوابوں کی تلاش میں میڈیا کا دامن تھامتے ہیں، وہ بسا اوقات ایسے خیالی دنیاؤں میں گم ہو جاتے ہیں جو ان کے شعور، جذبے اور حوصلے کو مفلوج کر دیتی ہیں۔ انہیں خواب نہیں ملتے، صرف اشتہارات میں لپٹے فریب ملتے ہیں، جو دل کو چکنا چور اور ذہن کو متضاد کر دیتے ہیں۔
میڈیا اب صرف خبر نہیں سناتا، وہ "خبر بیچتا” ہے۔ سچائی کو اب تحقیق سے نہیں، اداکاری سے پیش کیا جاتا ہے۔ خبر کا معیار اس کی صداقت سے نہیں، بلکہ اس کی سنسنی خیزی اور "کلک بیٹ” صلاحیت سے ناپا جاتا ہے۔ دلوں کو جوڑنے کے بجائے، میڈیا اکثر نفرت، فرقہ واریت، اور خوف کی زبان بولنے لگا ہے۔ ایسے میں معاشرہ ایک ایسے آئینے کے سامنے کھڑا ہے جس میں چہرے نہیں، صرف نقاب نظر آتے ہیں۔
معاشرتی اقدار، جو کبھی نسلوں کا سرمایہ ہوا کرتی تھیں، اب اشتہارات کے تلے دم توڑ رہی ہیں۔ محبت، ہمدردی، خلوص، دیانت — یہ سب الفاظ اب صرف کہانیوں میں بچے ہیں۔ ٹی وی اسکرین پر جذبات کی قیمت لگائی جاتی ہے، اور ہر لمحہ ایک نیا ڈراما بکنے کے لیے تیار کھڑا ہوتا ہے۔
اس میڈیا نے جہاں ایک عالمی گاؤں کا تصور دیا، وہیں اس نے تنہائی، اضطراب، اور ذہنی دباؤ کی فصل بھی اگائی ہے۔ انسان اب خبر سنتے ہوئے بھی شک میں مبتلا رہتا ہے — "کیا یہ سچ ہے؟”۔ ذہن، الجھاؤ کا شکار ہے، دل، بے یقینی میں ڈوبا ہوا ہے، اور آنکھیں، ہر روشنی کو ایک دھوکہ سمجھنے لگی ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میڈیا اب آئینہ نہیں رہا، بلکہ ایک ایسا پردہ بن چکا ہے جو سچ کو چھپا کر جھوٹ کو دکھاتا ہے۔ ایسا نقاب، جو بظاہر روشنی کا دعویٰ کرتا ہے مگر حقیقت میں شعور کو دھندلا دیتا ہے۔
میڈیا ایک تلوار ہے — ایسی تلوار جو اگر شعور کی نیام میں ہو، فکر کی دھار سے تراشی گئی ہو، اور حق کی نگہبانی میں ہو، تو اندھیروں کو چیر کر روشنی کے راستے کھولتی ہے۔ مگر یہی تلوار جب اہلِ ضمیر کے ہاتھوں سے پھسل کر اہلِ زر کے پنجوں میں چلی جائے، تو پھر وہ انصاف کا ہتھیار نہیں رہتی، بلکہ جذبات، سچائی اور انسانیت کی گردن کاٹنے والا ایک بے رحم آلہ بن جاتی ہے۔
یہی میڈیا، جو کبھی قوموں کی آنکھوں کو بینائی عطا کرتا تھا، اب بہت بار خود اندھا ہو چکا ہے — یا شاید جان بوجھ کر آنکھیں بند کر لی ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے خبر کی حرمت اب نیلام ہو چکی ہے، تجزیہ، محض تماشہ بن گیا ہے، اور سچ، سازشوں کے سائے میں دم توڑ رہا ہے۔
جی ہاں، "اک ساز ہے یہ بھی، مگر سازشوں میں ہے…” کیسا دلخراش شعر ہے یہ، جو میڈیا کی موجودہ حالت پر نوحہ بھی ہے اور آئندہ کے لیے تنبیہ بھی۔ یہ ایک ساز ہے، جس کی دھن اگر دانش کی انگلیوں سے چھیڑی جائے، تو شعور کی ایک نئی دنیا آباد ہو سکتی ہے، لیکن جب یہی ساز حرص، لالچ اور تعصب کے زیرِ اثر بجتا ہے، تو اس کی ہر صدا انسان کو اپنی اصلیت سے بیگانہ کر دیتی ہے۔ روشنی کی بات کرتے ہوئے وہ دھوکہ دے جاتا ہے، بیداری کی نوید سناتے ہوئے مزید سلا دیتا ہے۔
معاشرے کی فکری بیداری کا سب سے بڑا ذریعہ — وہ میڈیا ہی ہوتا ہے، جو ہر دل میں سوال جگاتا ہے، ہر ذہن کو متحرک کرتا ہے، اور ہر ضمیر کو جھنجھوڑنے کا ہنر رکھتا ہے۔ لیکن جب یہی ذریعہ خود خوابِ غفلت کا شکار ہو جائے، جب وہ خود لاشعوری کا پیامبر بن جائے، تو پھر بیداری کے چراغ کہاں روشن ہوں گے؟ پھر تو ذہن تاریکیوں کے عادی ہو جاتے ہیں، اور دل، سچائی سے گریزاں۔
میڈیا وہ آئینہ تھا، جس میں معاشرے نے اپنی تصویر دیکھنی تھی — صاف، شفاف، بے داغ۔ لیکن جب آئینہ ہی دھندلا ہو جائے، یا جان بوجھ کر اس پر دھول مل دی جائے، تو عکس مسخ ہو جاتا ہے، اور معاشرہ اپنی شناخت کھو دیتا ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ ہم اس تلوار کو پھر سے قلم بنا دیں، اس ساز کو پھر سے شعور کا نغمہ بنائیں، اور اس آئینے کو دھو کر اسے پھر سے سچائی کا عکس بنائیں۔ ورنہ ہم ایک ایسے زمانے میں زندہ ہوں گے، جہاں سب کچھ دکھائی دیتا ہے — سوائے حقیقت کے۔
نغمۂ صداقت یا سازِ فتنہ؟
میڈیا نہ سراسر خیر ہے، نہ مکمل شر — یہ نہ فرشتہ ہے نہ شیطان، بلکہ ایک آئینہ ہے جو اسے تھامنے والے کے چہرے کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ وہ طاقت ہے جو قلم سے بھی زیادہ مؤثر، اور تلوار سے بھی زیادہ کاری وار کرنے والی ہے۔ یہ طاقت، اگر شعور کی رہنمائی میں ہو، تو چراغ بن جاتی ہے جو اندھیروں کو شکست دیتا ہے؛ اور اگر نفس کی غلامی میں آ جائے، تو شعلہ بن جاتی ہے جو سب کچھ جلا کر راکھ کر دیتا ہے۔
میڈیا بذاتِ خود ایک ذریعہ ہے — ایک ایسا پل جس کے ایک سرے پر عوام کا شعور ہے، اور دوسرے سرے پر وہ پیغام جو ان کے دل و دماغ تک پہنچنا ہے۔ اب یہ اختیار ہمارے پاس ہے کہ ہم اس پل پر سچائی کا کارواں روانہ کرتے ہیں، یا جھوٹ، سنسنی، اور فتنہ انگیزی کا۔ اگر اس طاقت کو ہم نیک نیتی، بلند مقاصد، اور فکری شعور کے ساتھ استعمال کریں، تو یہ نسلوں کے ذہنوں میں انقلاب لا سکتی ہے، دلوں میں روشنی بھر سکتی ہے، اور معاشرے کے زخموں پر مرہم رکھ سکتی ہے۔
یہی میڈیا اگر مظلوم کی آواز بنے، حق کا پرچم اٹھائے، اور صداقت کی بنیاد پر بات کرے، تو نہ صرف یہ کہ وہ اصلاحِ احوال کا ذریعہ بنتا ہے بلکہ آنے والی نسلوں کی فکری تربیت کا ضامن بھی۔ اس کے ذریعے قوموں کی تقدیریں لکھی جا سکتی ہیں، ذہنوں کو خوابوں کی تعبیر دی جا سکتی ہے، اور روحوں کو بلندیوں کی طرف پرواز عطا کی جا سکتی ہے۔
مگر… اگر یہی طاقت بے لگام ہو جائے، خود غرضیوں کی بھینٹ چڑھ جائے، ریٹنگز کی دوڑ، شہرت کی ہوس، اور مفادات کی بند گلیوں میں بھٹکنے لگے، تو پھر یہی میڈیا ظلمت کا دیوتا بن جاتا ہے۔ وہ سوچ کو قید کر دیتا ہے، شعور کو جمود میں بدل دیتا ہے، اور تہذیب کو یوں مسخ کرتا ہے کہ نہ اصل باقی رہتی ہے، نہ صورت۔ پھر وہ آئینہ نہیں رہتا جو حقیقت دکھاتا ہے، بلکہ ایسا پردہ بن جاتا ہے جو سچائی کو چھپا لیتا ہے۔
یاد رکھیے — میڈیا ایک قلم بھی ہے، جو اگر ایمانداری سے لکھے تو تاریخ رقم کرتا ہے؛ ایک آواز بھی ہے، جو اگر حق پر اٹھے تو انقلاب برپا کرتی ہے؛ اور ایک تصویر بھی ہے، جو اگر سچ دکھائے تو ضمیر جگاتی ہے۔ مگر اگر یہ سب کچھ جھوٹ کے سائے میں ہو تو یہ نہ صرف انسان کی آنکھوں بلکہ اس کی روح کو بھی اندھا کر سکتا ہے۔ لہٰذا، میڈیا کی طاقت کو صرف ٹیکنالوجی کا کرشمہ نہ سمجھیں، یہ ایک فکری امانت ہے۔ ایسی امانت، جو اگر سچائی، تہذیب، اور خیر کے سپرد ہو جائے، تو زمانے کو بدل سکتی ہے۔ اور اگر جھوٹ، تعصب، اور مفاد پرستی کے حوالے ہو جائے، تو نسلوں کی بنیادیں ہلا سکتی ہے۔
اسلام ایک ایسا ضابطۂ حیات ہے جو زندگی کے ہر پہلو کے لیے ہدایت فراہم کرتا ہے، اور اظہارِ خیال و اطلاعات کی ترسیل جیسے طاقتور ذرائع کو بھی کسی اصول و ضابطے سے آزاد نہیں چھوڑتا۔ قرآنِ کریم میں جہاں قولِ سدید (سچی اور درست بات کہنے) کی تلقین کی گئی ہے، وہیں فاسق کی خبر کو بغیر تحقیق کے قبول کرنے سے روکا گیا ہے: "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا…” (الحجرات: 6)۔ یعنی میڈیا کی دنیا میں تحقیق، عدل اور سچائی وہ بنیادی ستون ہیں جن پر ایک صالح معاشرہ تعمیر ہو سکتا ہے۔
نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کفی بالمرء کذباً أن یحدث بکل ما سمع” — "آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات کو آگے بیان کر دے”۔ یہ حدیث میڈیا کے کارکنان، صحافیوں، اور سوشل میڈیا صارفین کے لیے ایک زریں اصول فراہم کرتی ہے: خبر کی ذمّہ داری اٹھاؤ، سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ سمجھ کر پیش کرو۔ اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ زبان اور قلم کا استعمال عدل، خیر اور اصلاح کے لیے ہو۔ قرآن کہتا ہے: "وَقُلْ لِعِبَادِي يَقُولُوا الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ…” — یعنی مسلمانوں سے کہا گیا کہ ہمیشہ وہ بات کریں جو بہترین ہو، جو اصلاح کرے، نہ کہ فساد یا فتنے کا باعث بنے۔
میڈیا جب "امر بالمعروف” اور "نہی عن المنکر” کے عظیم اسلامی فریضے کا ذریعہ بن جائے تو وہ دعوت، اصلاح، اور تزکیۂ نفس کا مؤثر ہتھیار بن سکتا ہے۔ مگر جب وہ افواہوں، تعصب، شہوت، اور دنیا پرستی کا آلہ بن جائے، تو وہ اسلامی معاشرے کی روح کو مجروح کر دیتا ہے۔ لہٰذا، اسلامی معاشرے کی ذمّہ داری ہے کہ وہ میڈیا کو صرف معلومات کا ذریعہ نہ سمجھے، بلکہ اسے امانت، عدل، اور تقویٰ کے دائرے میں رہتے ہوئے استعمال کرے۔ میڈیا کو قلمِ حق بنایا جائے، زبانِ صداقت بنایا جائے، اور منبرِ خیر بنایا جائے — تاکہ وہ معاشرے میں بصیرت، فہم، اتحاد اور عدل کے چراغ روشن کرے۔
ہمیں بطور اُمت یہ عہد کرنا ہوگا کہ ہم میڈیا کی طاقت کو صرف "استعمال” نہیں کریں گے، بلکہ "اصلاح” کے لیے برتنا سیکھیں گے — تاکہ ہم اس کو نہ صرف دورِ فتن کی تاریکیوں میں روشنی کا مینار بنا سکیں، بلکہ اسے امتِ وسط کے پیغام کا ذریعہ بھی بنا سکیں، جو دنیا کے ہر کونے میں سچ، عدل، اور امن کا پیغام لے کر پہنچے۔
Comments are closed.