اے ظلم کے ماتو لب کھولو چپ رہنے والو چپ کب تک

ڈاکٹر سلیم خان
اتر پردیش کے اندر بھارتیہ جنتا پارٹی کی سرکار کے تحت دلت سماج پر مسلسل مظالم میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال سماجوادی پارٹی کے راجیہ سبھا رکن رام جی لال سمن کے خلاف کرنی سینا کی پشت پناہی ہے۔ بی جے پی کی سر پرستی میں کام کرنے والی کرنی سینا نے رام جی لال سمن پر یکے بعد دیگرے تین حملے کیے۔ پہلے یہ لوگ رام جی لال سُمن کے گھر بلڈوزر لے کر پہنچے اور معمولی توڑ پھوڑ کرکے لوٹ گئے ۔ پولیس نے بھی پہلے تو انہیں رام جی لال سُمن کے گھر تک پہنچنے دیا اور پھر لاٹھی چارج کرکے بھگا دیا ۔ اس طرح نہ سانپ مرا اور نہ لاٹھی ٹوٹی لیکن دلت سماج کے اندر بی جے پی ساکھ ضرور کمزور ہوگئی۔ اس کے بعد کرنی سینا نے آگرہ میں ایک زبردست ریلی کی اور اس میں تلواریں لہرا کر معافی نہ مانگنے کی صورت میں ایک رکن پارلیمان پر حملے کی کھلے عام دھمکی دی لیکن کسی کا بال بیکانہیں ہوا کیونکہ جب سیاںّ بھئے کوتوال تو پھر ڈر کاہے کا؟
کرنی سینا نے جب یقین ہوگیا کہ یوگی بابا ان کی غنڈہ گردی سے خوش ہیں تو اس کے بعد اپنی دھمکی پر عمل در آمد کرتے ہوئے علی گڑھ میں رام جی لال سُمن کے قافلے پر حملہ کردیا ۔ عام طور پر ایسے میں تنظیموں کے ذمہ دار ایسی حرکتوں سے پلہّ جھاڑ لیتے ہیں لیکن کرنی سینا نےڈھٹائی سے اس کی ذمہ داری قبول کرکے کہا کہ آئندہ بھی ایسے حملے ہوتے رہیں گے یہاں تک کہ رام جی لال سُمن معافی نہیں مانگ لیتے ۔ اس کے باوجود تشدد پر صفر برداشت کا دعویٰ کرنے والا وزیر اعلیٰ اور اس کے انتظامیہ کے کان پر جوں نہیں رینگی ۔یوپی سرکار کی اس بے حسی نے سماجوادی پارٹی کے کارکنوں کو اترپردیش میں ریاست گیر احتجاج کرنے کا نادر موقع دے دیا ۔ انہوں نے سبھی ضلع مجسٹریٹ کےتوسط سے صدرجمہوریہ کے نام میمورنڈم سونپا۔ مظاہرین نے الزام لگایا کہ حملہ کرنے والوں کو بی جے پی کا تحفظ حاصل ہے۔ انہوں نے رام جی لال سمن کے قافلے پر حملہ کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے اعلان کیا کہ جلد ہی اس معاملے میں جیل بھرو تحریک شروع کی جائے گی۔
ریاست گیر احتجاج کے دوران سماجوادی پارٹی نے صدرجمہوریہ کے نام میمورنڈم میں کہا کہ وہ لوگ پی ڈی اے(پسماندہ، دلت، اقلیتی) طبقے کی حفاظت اور آئین کے وقار کو بچانے کیلئے سڑکوں پر اتری ہے۔ اس کے ساتھ یہ یاد دہانی کی گئی کہ آئینِ ہند میں تشدد کی کوئی جگہ نہیں، اختلاف رائے ہو سکتا ہے لیکن جمہوریت (بمعنیٰ آزادیٔ اظہار)کو دباؤ اور جبر سے نہیں کچلا جا سکتا۔ رام جی لال سمن پر مسلسل حملوں کے بہانے سماجوادی پارٹی کے رہنما پی ڈی اے برادری پر ہو نے والے مظالم کے خلاف ریاست میں ہر ضلع ہیڈکوارٹر پر مظاہرہ کیا جائے گا ۔ اس کے ذریعہ قصورواروں پر کارروائی کا مطالبہ کیا جائے گا۔ ان کے مطابق ملک بھر میں دلتوں اور کمزور طبقات پر مظالم میں اضافہ کو غیر اعلانیہ ایمرجنسی کے مترادف ہے۔ اپنے دعویٰ کی دلیل کے طور پر صحافی سنجے شرما کا چینل بند کرنے، نیہا سنگھ راٹھور کی ہراسانی اور اپوزیشن کی آواز دبانے کی مثال دی گئی۔ ریاست میں پھیلی انارکی پھیلی اور عدم تحفظ کے ماحول کا حوالہ دے کر کہا گیا کہ فی الحال کوئی حکومت سے سوال کرتا ہے تو اس کے خلاف مقدمہ درج کردیا جاتا ہے۔ کچھ علاقوں میں وزیر اعلیٰ کا پتلا جلاکرحکومت کیخلاف نعرے بازی کی گئی۔
اتر پردیش میں فی الحال جبرو ظلم کا جو بازار گرم ہے اس نے بی جے پی سے ہمدردی رکھنے والی بہوجن سماج پارٹی کی صدر مایاوتی کو بھی بے چین کردیا ۔ بی ایس پی سپریمو نے پچھلے دنوں فتح پور میں کسان خاندان کے تین افراد کے قتل کو امن و امان کی کمزوری قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کو چاہئے کہ وہ قصورواروں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کرکے متاثرہ خاندان کو انصاف فراہم کرے۔ مایاوتی نے ایکس میں لکھا کہ، "یوپی میں، ہر روز چھوٹے چھوٹے مسئلے پر لوگوں کا استحصال ہوتا ہے اورانہیں ہراساں کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فتح پور ضلع میں ایک ہی کسان خاندان کے 3 ٹھاکروں اور ایک دلت کا قتل کردیا گیا ۔ اس کے سبب سے وہاں عوام میں کافی خوف و ہراس ہے۔اس معاملے میں مقتول کسان رہنما چونکہ راجپوت ہے اس لیے اس پر میڈیا میں خوب لکھا گیا مگردلت کو پوری طرح نظر انداز کردیا گیا کیونکہ یوگی راج میں ٹھاکر کا خون خون ہے اور سانبھا کا پانی! اس لیے کالیا سمیت تین لوگوں کو تڑا تڑ گولیوں سے بھون کر جب گبرّ قہقہہ لگاتا ہے تو سارا گروہ اس کی آواز میں آواز ملاتا ہے۔
شعلے کا ہر کردار بے جوڑ تھا لیکن فی الحال سنگھ پریوار میں نہایت مقبول نام گبرّ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے دنوں دلتوں پر مظالم ڈھانے والے جو افراد مدھیہ پردیش اور راجستھان سے گرفتار ہوئے ان دونوں کا نام اتفاق سے گبر ہی تھا۔ خیر فتح پور میں حسین گنج تھانے کے تحت جس28 سالہ دلت کسان رام بابوکی لاش پیڑ سے لٹکی ملی وہ ٹریکٹر ٹرالی لے کر رات میں گیہوں کی کٹائی کے لیے گئے تھے۔ متوفی کے والد رگھوراج پال اسے خودکشی کی واردات نہیں مانتے بلکہ گاوں کے ہی راج کرن پر قتل کا الزام لگاتے ہیں۔ان کے مطابق راج کرن اور اس کی بیوی کے ساتھ ان کے بیٹے کا دو دن قبل تنازع ہوگیا تو اس نے رام بابو کو جان سے مارنے کی دھمکی دی تھی ۔یوگی راج میں ٹھاکروں کے خلاف ایک دلت کو تحفظ دینا پولیس کے لیے ناممکن ہے۔ یہ امتیازاب صرف اتر پردیش کے لیے محدود نہیں ہے بلکہ امسال امبیڈکر جینتی کے دن مدھیہ پردیش کے گوالیار میں سامنے آیا ۔
گوالیار کے اندر امیبڈکر جینتی کے جلوس میں شامل ڈی جے کے بہانے اعتراض کرنے والے گبرّ گوجر نے سیدھے گولی چلا کر دلت نوجوان کو ہلاک کردیا اور جس پولیس افسر نے گبرّ کو گرفتار کیا اسی کا تبادلہ کردیا گیا۔ اس ناانصافی نے ثابت کردیا کہ بی جے پی کے راج میں اگر موہن یادو وزیر اعلیٰ ہو تب بھی اسے یوگی ٹھاکر کی مانند دلتوں پر ظلم کرنا پڑتا ہے کیونکہ سنگھ پریوار اپنے لوگوں کا نہ صرف قلب وذہن بلکہ ڈی این اے بھی بدل دیتا ہے۔ اتر پردیش ں دلتوں پر ہونے والے مظالم کو کس طرح دبایا جاتا ہے اس کا سب سے بڑا ثبوت تو بے قصور معروف صحافی صدیق کپن ہیں ۔ ان کو ملک سے غداری کا بے بنیاد الزام لگا کر ڈھائی سال تک جیل میں رکھا گیا ۔ کپن کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ ہاتھرس میں دلت لڑکی پر ٹھاکروں کے حملے یعنی عصمت دری اور قتل کو بے نقاب کرنے کی خاطر جائے واردات پر جارہے تھے۔
اسی زمانے میں ضلع فتح پور کے اندر بھی دو دلت لڑکیوں کی موت کے بعد پولیس نے دو صحافیوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرلیا تھا ۔ پولیس کا الزام تھا کہ دونوں ہندوصحافیوں نے متوفی سے متعلق خبروں کو توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے۔ اس طرح یہ بات ثابت ہوگئی کہ دلتوں پر ہونے والے مظالم کی پردہ پوشی کرتے وقت مذہب کا پاس و لحاظ نہیں کرتی۔ اس وقت پرینکا گاندھی نے فیس بک پر یوگی سرکار کی تنقید میں لکھا تھا کہ’ فتح پور میں دو بہنوں کی موت کے بعد متاثرہ خاندان کے حق میں خبر دکھانے والے دو صحافیوں کے خلاف یوپی سرکار نے مقدمہ درج کیا ہے۔ اب تک سرکار سچائی دکھانے کے لئے ایک درجن سے زیادہ صحافیوں پر مقدمہ کر چکی ہے‘۔کانگریس کے سابق ریاستی صدر اجے کمار للو نے اس واقعہ کے بعد یوگی سرکار پر الزام لگایا تھا کہ "وہ ملک کو دوہرے نظریہ سے دیکھتے ہیں ‘۔ انہوں وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کو خبردار کیا تھا کہ’ آپ جمہوریت کا قتل کرنے پر آمادہ ہیں، آپ دستور کی بنیادی ڈھانچہ ختم کرنے پر آمادہ ہیں۔ اتر پردیش اور ملک کبھی آپ کو معاف نہیں کرے گا‘
دلت سماج کے تحفظ اور فلاح وبہبود کی خاطر مودی سرکار نے رام داس اٹھاولے کو وزیر بنارکھا ہے۔ انہوں نے ایک سال قبل دلتوں پر مظالم کے حوالے سے ایونِ پارلیمان میں چونکانے والے اعدادو شمار پیش کیے تھے۔ ان کے مطابق 2018سے 2020کے دوران دلتوں کے خلاف جرائم کے ایک لاکھ 38ہزار 825واقعات درج کئے گئے۔ ویسے یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وطن عزیز میں ایک دلت کے لیے اپنا مقدمہ درج کروانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے کیونکہ جب وہ پولیس تھانے میں جاتا ہے تو اسے ڈانٹ کر بھگا دیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود اتنی بڑی تعداد میں درج ہونے والی شکایات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کل تعداد کتنی ہوگی؟ 2021 میں نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کی جورپورٹ شائع ہوئی اس کے مطابق ملک میں دلتوں کے خلاف جرائم میں 9.3فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا ۔ 2020میں دلتوں کے خلاف جرائم کے سب سے زیادہ 12714واقعات اترپردیش کے یوگی راج میں درج کیے گئے ۔ عدالت میں انتظامیہان مقدمات کو اس قدر کمزور کردیتا ہے کہ سزا کی شرح صرف 15.7فیصد ہے۔اس تشویشناک مرض کا علاج فیض احمد فیض کے اس شعر میں پوشیدہ ہے؎
اے ظلم کے ماتو لب کھولو چپ رہنے والو چپ کب تک
کچھ حشر تو ان سے اٹھے گا کچھ دور تو نالے جائیں گے
Comments are closed.