انجمن حمایت الاسلام {AHI} چنئی:تعلیم اورتعمیر ملت کی عظیم تحریک

 

مفتی احمد نادرالقاسمی۔دہلی

یہ بات ٢٠٢٣ کی ہے جب مجھے پہلی بار فقہ اکیڈمی کے ٣٢ویں سمینار” پلہ پٹی کرور تامل ناڈو“سے واپسی پر AHIکے وسیع عریض کیمپس میں جانے کا اتفاق ہوا۔جس کے محرک اورداعی میرے کرم فرما اورانجمن کے متحرک رکن اسلامک انفارمیشن ڈپارٹمنٹ کے ذمہ دارجناب فیاض عالم صاحب تھے۔جوبہت ملنساربھی ہیں اوراعلی علمی اورملی ذوق رکھتے ہیں۔بلکہ ملی کاموں میں اکثر پیش پیش رہتے ہیں۔ واقعہ یوں ہواکہ چنئی سے دہلی کے لئے رات کو فلائٹ لینی تھی۔چنانچہ میں رات کو ہی ڈنڈیگل اسٹیشن سے اپنے رفقاء کے ساتھ ٹرین پہ سوار ہوا اورصبح سویرے چنئی پہونچ گیا ۔چونکہ شام کی فلائٹ تھی اس لئے موقعہ غنیمت جان کر آٹورکشہ سے انجمن پہونچ گیا ۔پہونچتے ہی جناب فیاض عالم صاحب نے استقبال کیا اور علیک سلیک کے بعد اپنے دفتر میں لے گئے۔چائے ناشتے کے بعد پروگرام یہ طے پایاکہ چونکہ ابھی ظہر کی نماز میں خاصا وقت ہے، لہذا انجمن کے تحت چلنے والے مختلف اسکولوں کی تعلیمی سرگرمیوں کاجائزہ لیاجائے۔مختصریہ کہ ہم لوگوں نے مختلف کلاسوں کا وزٹ کیا۔ ہر کلاس میں طریقہ تعلیم، بچوں کے ڈسپلن، اساتذہ اور استانیوں کاسلیقہ اورساتھ میں دینیات کے نصابب کو قریب سے دیکھا۔ہر اسکول کی ذمہ دار پرنسپلس اوراساتذہ کے ساتھ گفت وشنید اوراسکولوں کی کارکردگی اورکامیابیوں پر نہ صرف یہ کہ تبادلہ خیالات ہوئے بلکہ تمام امورپرسیر حاصل گفتگو ہوئی۔ اس وسیع وعریض کیمپس میں لڑکوں اورلڑکیوں کےالگ الگ کئی اسکول چل رہے ہیں اورتمام اسکولوں میں عصری تقاضوں کے ساتھ مکمل اسلامی اقداروروایات کی پاسداری کی جاتی ہے۔ ہرقوم کے بچے وہاں تعلیم حاصل کررہے ہیں اورہرمذھب کے بچوں کو اپنے اپنے مذھب پر عمل کی پوری آزادی دی جاتی ہے۔بچے بھی وہاں کے تعلیمی نظام، معیار تعلیم اورذمہ داروں کے برتاؤ سے خوش اورگارجین کے بھی مکمل مطمئن ہونے کا احساس ہوا ۔اورایساکیوں نہ ہو۔ چونکہ اسلامی طرز کے ساتھ تامل ناڈو بورڈ۔اورcbsce کے نصاب کامکمل لحاظ رکھا جاتاہے۔ وہاں ہاسٹل کانظام بھی ہے اوربچوں کے آنے اورجانے والا نظام بھی ہے اورتعلیم دونوں کی مشترک ہوتی ہے۔ہاسٹل میں رہنے والے چھوٹے بچوں کے کھانے پینےباوردیگر ضروریات کا بہترین انتظام ہے اورایک ساتھ بیٹھ کر سارے بچے ناشتہ اور کھاناکھاتے ہیں۔صفائی کاخاص خیال رکھاجاتاہے۔کیمپس میں بچوں کے لئے لڑکے اورلڑکیوں کاالگ الگ شاندار کھیل کود کامیدان ہے۔ پنج وقتہ نماز کے لئے کیمپس ہی میں عالی شان تاریخی جامع مسجد ہے۔اس پورے نظام سے وابستہ اساتذہ اورذمہ داران میں قوم کےبچوں کوہونہاربنانے اورتعلیم وتربیت سے آراستہ کرنے کا بے لوث جذبہ کوٹ کوٹ کربھرانظرآیا۔ اللھم زدفزد۔ مسلم بچوں کی اسلامی اور اخلاقی تعلیم و تربیت کے لئے اچھے قران کی مشق کرانےوالے قراء اور علماء کو وہاں معلم کے طورپر بحال کیاگیا ہے۔ذمہ داران جو خود بھی دینی اوراخلاقی شعائر کے پابند ہیں۔اکثر مختلف میدانوں کے ریٹائرڈ آفیسرز ہیں۔ان کو اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہے کہ بچوں کوایک اچھاانسان بنانے کے لئے محض عصری مواد اورنصاب پڑھادینا کافی نہیں ہے۔اس کے لئے دین اوراخلاق کی تعلیم وتربیت بھی ضروری ہے۔اورہرایسی سوچ اورتعلیمی ذرائع سے محفوظ رکھنا لازم ہے جواسے خالق ومالک کے تصور سے آزاد کردے ورنہ پھروہ تعلیم نہیں فتنہ بن جائے گا۔اقبال نے یہی توکہاتھا: ”اللہ سے کرے دورتوتعلیم بھی فتنہ اولاد بھی۔املاک بھی۔جاگیربھی فتنہ ناحق کے لئے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ شمشیر ہی کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ وہاں کے نظام میں ایک خاص چیز یہ بھی ہے کہ وہاں اندرونی بچوں کے ہاسٹل کے ساتھ دوسرے کالجز اورتعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والی بچیوں کے لئے بھی عمدہ ہاسٹل اورپی جی کانظام ہے۔اوراس کے لئے معمولی رہائش اورکھانے کی فیس لی جاتی ہے۔ جو٢٠٢٣ ۔میں صرف 700روپئے ماہانہ تھی۔اندازہ لگائیے ایک متوسط بلکہ غریب گھرانے کی بچیاں بھی آسانی سے وہاں ہاسٹل میں رہ کر اعلی تعلیم حاصل کرسکتی ہیں۔ اپنے پرکھوں کی جائداد اوراوقافی وقومی میراث کو جس طرح ان لوگوں نے نہ صرف یہ کہ بچاکے رکھاہے بلکہ قوم کے لئےمفید سے مفید تربنایاہے۔ یقینا یہ قابل فخر کارنامہ ہے۔آنے والی نسلیں اس پر فخرکے ترانے گائیں گی۔ AHI کاتاریخی پس منظر:
(جاری)

Comments are closed.