خود شناسی-اہمیت اور تقاضے

 

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ

 

اسلام نے خدا شناسی کے ساتھ خود شناسی کو بھی کافی اہمیت دی ہے، بلکہ یہاں تک منقول ہے کہ جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا تو اس کی رسائی خدا تک ہوجاتی ہے، حضرت یحیٰ بن معاذ رازیؒ کے قول کے طورپر اسے نقل کیا گیا ہے کہ ”مَنْ عرفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عرفَ رَبَّہ“ یقیناً یہ حدیث نہیں ہے اور جو لوگ اسے حدیث کے طورپر نقل کرتے ہیں، وہ غلطی پر ہیں، لیکن اس میں ”عرفان رب“ کے لیے ”عرفان ذات“ پر توجہ مرکوز کرنے کی بات کہی گئی ہے، قرآن کریم میں بھی اللہ رب العزت کا ارشاد ہے: ”وَ فِیْٓ اَنْفُسِکُمْ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ“ عرفان ذات کی منزل سے گذرکر بندہ اس پوزیشن میں آجاتا ہے کہ وہ اعلان کرسکے کہ ”من آنم کہ من دانم“ یعنی میں جو ہوں اپنے کو خوب جانتا ہوں، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے سامنے ان کے ایک مرید نے یہ جملہ کہا تو حضرت نے فرمایا: بڑا دعویٰ کر رہے ہو، کیا تم نے اپنی ذات کو پہچان لیا ہے؟ اگر پہچان لیا ہے تو معرفت رب بھی اس کے نتیجے میں آجائے گا۔

قلب صاف ہو تو خیالات بھی صاف ہوتے ہیں اور دل کے فیصلے کا رخ احکام وہدایات ربانی کی طرف آسانی سے ہوجاتا ہے اور دل غلط فیصلے کر ہی نہیں سکتا، اسی لئے ”اِسْتَفْتَ قَلْبَکَ“ کا حکم دیا گیا کہ فتویٰ اپنے دل سے لو، کیوں کہ وہ غلط نہیں بتائے گا، ایک اور حدیث میں فرمایا گیا کہ ”لِنَفْسِکَ عَلَیْکَ حَق“ تمہارے اوپر تمہارا اپنا بھی حق ہے۔

معاملہ اپنی معرفت کا ہو یاحقوق کا، اس کے لیے خود سے جڑنا پڑتا ہے، دل کی آواز کو سننا پڑتا ہے، اگر نہ سنیں تو مزاج میں چڑچڑاپن پیدا ہوتا ہے، اس کے برعکس خود سے جڑنے سے اپنے وجود کا احساس ہوتا ہے، ہماری پسند اور چاہت کیا ہے اس کا ادراک ہوتا ہے، پھر اس چاہت کے اہم ہونے کی حقیقت سامنے آتی ہے، ان امور کی ان دیکھی سے خارجی حالات سے آدمی پریشان ہوجاتا ہے، باہری شور کا غلبہ ہوتا ہے، لوگوں کے غیرضروری مشورے اور جھوٹی خبریں انسان کے دل ودماغ کو اس قدر متاثر کرتی ہیں کہ کان پڑی آواز نہیں سنائی دیتی ہے، اس تاثر کا وقتی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنے کو کمزور محسوس کرنے لگتے ہیں، قوت ارادی ہمارا ساتھ چھوڑنے لگتی ہے، ان حالات سے نبرد آزما اور مقابل ہونے کا صرف ایک طریقہ ہے کہ آپ اپنی ذات سے جڑییے، اقبال کے تصور خودی کا مرکز ومحور یہی ہے۔

آدمی جب خود شناسی کی منزل سے گذرتا ہے تو خوف کی دنیا سے وہ باہر آجاتا ہے اور صحیح سمت میں آگے بڑھتے رہنے کا راستہ کھلتا ہے، اس کے اوپر باہری شور وغل کا اثر نہیں ہوتا، بلکہ اطمینان قلب کی دولت اسے ملتی ہے، خود کو سمجھنے کی صلاحیت میں غیرمعمولی اضافہ ہوتا ہے، اس کی وجہ سے ہمارے لیے ممکن ہوتا ہے کہ ہم اپنی خوش حال اور خوشگوار زندگی کا آغاز کرسکیں، اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ساری تگ ودو، معاشی مشاغل، الجھنوں اور پریشانیوں سے دور رہ کر تھوڑا وقت خود کو دیجیے، صوفیاء کرام کے یہاں مراقبہ کا جو تصور ہے، اس کی بنیاد یہی ہے کہ انسان تھوڑی دیر جلوت سے نکل کر خلوت اختیار کرے، تاکہ وہ اپنے بارے میں سوچے، اپنی آخرت کے بارے میں سوچے، مراقبہ مابعد الموت اس باب میں بہت مفید ہے، اس احساس کے ساتھ کہ ہمیں اس دنیا کے بعد ایک دوسری دنیا میں جانا ہے، جس میں سارا حساب وکتاب ہوگا اور میں وہاں تنہا ہوں گا، اس دن بھائی بھائی سے، شوہر بیوی اور بیوی شوہر سے، والدین اپنے بچوں سے بھاگتے نظر آئیں گے، حساب وکتاب کا یہ تصور اور فکر آخرت آدمی کو اپنی ذات سے جڑنے کے لیے انتہائی مفید ہے زندگی کی بھاگ دوڑ سے تھوڑا وقت اپنے لیے نکالنا بہت مشکل کام نہیں ہے، آپ اس وقت کا استعمال کائنات کی خاموش آواز سننے میں بھی کر سکتے ہیں، آپ چاہیں تو ہوا اور سناٹوں تک کی سرگوشیاں سن سکتے ہیں، کیوں کہ وہ بھی بولتے ہیں، شجر وحجر کی گفتگو بھی آپ کو سنائی دے گی کہ وہ کس طرح خالق کائنات کی حمد وثنا میں مشغول ہیں، آپ اس کا بھی ادراک کر سکیں گے کہ کائنات کی ہر چیز عبادت کے مختلف طریقوں کو اپنائے ہوئے ہے، کوئی قیام میں ہے، کوئی قعود میں، کوئی رکوع اور کوئی سجود میں، معرفت کے اس مقام پر پہونچ کر آپ خدا کو بھی پہچاننے لگیں گے اور خدا کی مخلوقات سے بھی آپ کا رشتہ مضبوط ومستحکم ہوگا، پھر آپ کو معلوم ہوگا کہ شکریہ کے الفاظ کس قدر طاقت ور ہیں، یہ اللہ کی شکرگذاری تک ہمیں لے جاتے ہیں اور ہمیں ذہنی تناؤ سے نجات حاصل ہوتا ہے، شکریہ صرف ایک رسم نہیں ہے، یہ آپ کے دل کی آواز ہوتی ہے جو جذبات تشکر سے لبریز ہوکر نکلتی ہے اور آپ کو دل کی آواز سننے کے لائق بناتی ہے، اس وقت آپ اپنے دل سے اس کی خواہش پوچھ سکتے ہیں، اپنے جسم کی آواز سن سکتے ہیں، عمل اور رد عمل کی یہ آواز آپ کی خواہش کو شریعت کے مطابق صحیح سمت دینے میں بہت کارگر ہوتی ہے اور اگر اس آواز پر آپ چلنے لگیں تو آپ کی دنیا وآخرت دونوں سنور جاتی ہے۔

اگر آپ اپنے ضمیر کی آواز سننے کو تیار ہوں تو کم از کم ایک ماہ مراقبہ کے ذریعہ اس کی مشق کریں، اپنے اندر واقع ہونے والی تبدیلیوں پر دھیان مرکوز کریں، آپ محسوس کریں گے کہ زندگی کے ایک نئے تجربہ سے آپ گذر رہے ہیں اور یہ تجربہ آپ کو دلی سکون اور اطمینان قلب سے سرشار کر رہا ہے۔

اس مقام کو پانے میں جو رکاوٹ عام طور سے کھڑی ہوتی ہے، وہ ہربات کو اپنے اوپر لے لینا ہے، ہم سب کی کوئی نہ کوئی دکھتی رگ ہوتی ہے، جو دانستہ یانادانستہ طورپر دب جاتی ہے، بات ہماری نہ بھی ہو اور ہدف ہمیں نہ بنایا گیا ہو، تب بھی ہم اسے اپنے اوپر لے لیتے ہیں، ہمارے سامنے کوئی کانا پھسکی کررہا ہے تو ہمیں لگتا ہے کہ وہ ہمارے بارے میں ہی کچھ کہہ رہا ہے، اگر کوئی ہنس رہا ہے تو ہمیں لگتا ہے کہ وہ ہم پر ہنس رہا ہے، اس سے دل ودماغ میں انفعالی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور انسان ذہنی انتشار کا شکار ہوجاتا ہے، ہوسکتا ہے کہ آپ کا خیال صحیح ہو اور جان بوجھ کر لوگ آپ ہی کے بارے میں بات کر رہے ہوں، ایسے موقع سے خود پر قابو رکھنا ایک بڑا کام ہے، قابو بھی رکھیے اور اپنی بات سلیقہ سے موقع محل کی رعایت کرتے ہوئے کہہ بھی جایئے، اس کا مطلب یہ ہے کہ زیادہ کہا سنی میں اپنا وقت ضائع نہ کریں، سوچ سمجھ کر اپنی بات رکھیں، بَک بَک اور محض گفتگو برائے گفتگو سے پرہیز کریں، بعض لوگ اپنی حاضری درج کرانے کی نفسیات اور نمایاں ہونے کی غرض سے بولنا شروع کرتے ہیں تو بولتے چلے جاتے ہیں، مشورہ کے آداب کے خلاف ایک دوسرے کی باتوں کو کاٹنے لگتے ہیں، جس سے تناؤ کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے، اس حالت میں بھی خود پر قابو رکھیے، اس لیے کہ بُرائی کا جواب بُرائی سے دینا شریفوں کا کام نہیں ہے، کتے نے کاٹ لیا تو آپ بھی اس کو کاٹ لیں، یہ عقل وشعور سے دور کی بات ہے، یہی وہ مرحلہ ہے جہاں برداشت کی ضرورت پڑتی ہے۔

بہت موقعوں سے آپ کے خیالات کو منتشر کرنے آپ کو نفسیاتی طورپر کمزور کرنے کے لیے خلط مبحث کیا جاتا ہے، بحث کے دوران کبھی غیرشریفانہ الفاظ کا استعمال سامنے والا کرتا ہے، نوبت گالی گلوج تک پہونچ جاتی ہے، لیکن آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ قرآنی حکم ”اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَن“ کو نہ چھوڑیں، بہتر طورپر دفاعی پوزیشن اختیار کیجئے ایک موقع سے راحت اندوری کے کسی شعر پر کسی نے ہوٹنگ کی تو راحت نے اس کے جواب میں صرف اس قدر کہا کہ میں جس مقام پر آج ہوں، یہاں پہونچنے میں مجھے تیس سال لگے، تو کیا میں اپنی تیس سالہ محنت کو ایک غیرشریفانہ عمل کا جواب دینے کی وجہ سے ضائع کردوں، ظاہر ہے کہ ایسا میں نہیں کرسکتا، خود بھی حدوں کو پار نہ کیجیے اور دوسروں کو بھی حد میں رکھنے کی کوشش کیجیے، سامنے والے کی منشا کو سمجھئے، بہت سا کام دوسرے ناسمجھی اور بے شعوری کی وجہ سے کرتے ہیں، ایسا ہے تو عفو ودرگذر سے کام لیجیے، ہرچھوٹی بات پر اپنے رد عمل کا اظہار آپ کی فکر کو منفی رخ دیتا ہے، جس سے آپ کا ہی نقصان ہے، ہر بات کو اپنے اوپر لینے کی ہماری عادت ہے، جسم وجان ہی متأثر نہیں ہوتا؛ بلکہ ہمارے مستقبل پر بھی یہ بڑا اثر ڈالتا ہے، آپ اپنے اوپر کی جانے والی تنقید سے بچ نہیں سکتے، دیکھنا یہ ہے کہ کیا ہمارے اندر اس کا کچھ عنصر پایا جاتا ہے، اگر پایا جارہا ہے تو اسے دور کرنا چاہیے، اگر نہیں ہے تو اسے پاگل کی بَڑ سمجھ کر نظرانداز کردینا چاہیے، اگر اس کا جواب دینا غور وفکر کے بعد ضروری معلوم ہو تو بھی اس کا انداز منطقی اور سنجیدہ ہونا چاہیے، اگر یہ صفت ہمارے اندر پیدا ہوجائے تو یقینی طورپر ہم بہت سارے دکھ اور شرمندگی سے نجات پاسکتے ہیں، اس سے ہماری خود شناسی کو تقویت ملے گی اور ہم معرفت رب تک پہونچیں گے، جو ہماری زندگی کا مطلوب ومقصود ہے۔

 

Comments are closed.