ہالی ووڈ نابغہ ال پچینو کی سرگزشتِ حیات

نایاب حسن
بڑے لوگوں کے زندگی ناموں میں دلچسپی،سبق آموزی،عبرت پذیری اور اخد و استفادے کے ہزار پہلو ہوتے ہیں۔ان کی ابتدائی زندگی،ان کے بڑے بننے کا پروسیس ،ان کی ابتدائی جدوجہد،کامیابی اور سربلندی کے حصول کے بعد کے چیلنجز اور مسائل، بلندی پر پہنچنے کے بعد وہاں ٹھہرے رہنے کا چیلنج، زندگی میں پیش آنے والے سانحات،مختلف مراحلِ حیات میں جن لوگوں سے واسطہ پڑا،اس سلسلے کے تجربات اور متعلقہ شعبۂ عمل میں برپا ہونے والے انقلابات کے تئیں ان کے طرزِ فکر سے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔اَعاظمِ رجال کی خودنوشتوں میں اسی وجہ سے افسانوی عناصر کے ساتھ حقیقتوں کی آمیزش خاص دلکشی رکھتی ہے اور سنجیدہ قارئین کے دامنِ دل کو کھینچتی ہے۔
ہالی ووڈ کے اطالوی النسل ،نابغہ ایکٹر الفریڈ جیمس پچینو (جسے مختصراً ال پچینو کے نام سے بھی جانا جاتا ہے) کی خود نوشتSonny Boyایک ایسی ہی خودنوشت ہے،جسے پینگون نے شائع کیا ہے۔اس کے مطالعے سے نہ صرف ال پچینو کی زندگی اورہالی ووڈ/امریکی سنیما اور ڈرامے میں اس کی ناقابلِ فراموش حصے داری کے دسیوں پہلو سامنے آتے ہیں؛بلکہ اس کے ساتھ ہی بحیثیت انسان اس کی زندگی کا پورا نقشہ روشن ہوجاتا ہے،جس میں اس کا بچپن بھی ہے، نوجوانی اور جوانی بھی ہے،ادھیڑعمر کے تفکرات اور حصولیابیاں بھی ہیں اورضعیف العمری کی سرگزشت اور اس سے متعلق اس کے مختلف النوع فکرانگیز ومعنی خیز خیالات بھی ۔
ال پچینو کی ابتدائی زندگی نہایت معمولی تھی،جب وہ دوسال کا تھا تبھی اس کے والدین کی علیحدگی ہوگئی، نیویارک کے علاقے ساؤتھ برونز میں اپنی والدہ اور نانا -نانی کے ساتھ اس کی زندگی شروع ہوئی۔جیسا کہ عموماً معمولی سماجی پس منظر رکھنے والے بچوں کے ساتھ ہوتا ہے،بچپن میں اس کی صحبت اچھی نہ رہی،اس کے بیشتر دوست بہت کم عمری میں ناو نوش کی راہ پر لگ گئے،چھوٹی موٹی چوری،چھینا جھپٹی اور مارپیٹ ان کا معمول تھا،اس سب میں ال پچینو بھی کسی قدر حصہ لیتا رہا۔البتہ بارہ پندرہ سال کی عمر میں پرفارمنگ آرٹس کے ایک اسکول میں داخلے کے بعد ایسے دوستوں کی صحبت سے وہ بچ گیا اور بہت سی بری عادتیں چھوٹ گئیں،نیز اس کی ماں خصوصی نگرانی اور تربیت نے بھی اسے بہت سی شناعتوں سے بچالیا۔کھیلوں میں اسے بیس بال بہت پسند تھا اور وہ نوعمری میں بیس بال کا کھلاڑی ہی بننا چاہتا تھا،اسی طرح ادب کے مطالعے سے بھی اسے خاص دلچسپی تھی،خصوصاً چیخوف زندگی کے سرد و گرم تجربات کے دنوں میں اس کا ہم نشیں رہا اور ایک زمانے میں اس پر ادیب اور فکشن نگار بننے کا نشہ بھی چھایا رہا۔
ہوش سنبھالتے ہی اسے حصولِ معاش کی راہ پربھی لگنا پڑا ؛چنانچہ ہوٹل میں صفائی سے لے کر پھل بیچنے،تھیٹر میں دربانی وغیرہ جیسے بہت معمولی کام کرکے گزراوقات کا سامان کرتا رہا اور دوستوں کے اپارٹمنٹ اور فٹ پاتھوں پر سوتا رہا۔کچھ دنوں’کمینٹری‘ نامی ایک میگزین میں بھی کام کیا اور ایک تعمیراتی فرم سے بھی وابستہ رہا۔اس سب کے ساتھ ساتھ تھیٹرسے اس کی عملی وابستگی رہی،جو دن بہ دن مضبوط ہوتی گئی اور اس نے شروعاتی دنوں میں ہی کئی اچھے ڈراموں میں اہم کردار ادا کیے۔
ابھی وہ مراہقت کی منزلوں میں تھا کہ غلط صحبتوں پر ماں کی تنبیہوں کی وجہ سے اس نے اپنی ماں کا گھر چھوڑ کر علیحدہ رہنے کا فیصلہ کرلیا۔البتہ ماں سے اس کی محبت اور اس کے تئیں جذبۂ تعظیم میں کبھی کوئی کمی نہ آئی۔چوں کہ اس نے ہوش سنبھالتے ہی اپنی ماں کی بوسیدہ حالی اور حرماں نصیبی کا مشاہدہ کیا تھا؛اس لیے اس کا خواب تھا کہ جوں ہی وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہوگا،اپنی ماں کے دلدر دور کرنے کی کوشش کرے گا اور اب اس کی جیب میں پیسے آنے لگے تھے کہ ایک دن اچانک اسے خبر ملی کہ ماں کا انتقال ہوگیا ہے۔یہ خبر سن کر وہ جس کربناک احساس سے گزرا،اسے اس نے بڑے پر اثر انداز میں بیان کیا ہے۔کتاب کے آخری جملوں میں اس نےجو لکھا ہے،وہ ماں سے اس کی اتھاہ محبت اور گہرے قلبی لگاؤ کو درشاتا ہے،وہ لکھتا ہے: اگر خوش نصیبی میرے ہم رکاب رہی اور بعد از مرگ جنت میں داخل کیا گیا اور ممکن ہے جنت میں میری ملاقات اپنی ماں سے ہو،تو صرف اتنی خواہش ہے کہ اس کے پاس جاؤں،اس کی آنکھوں میں دیکھوں اور بس اتنا کہوں ’ماں! دیکھ تیرے بعد مجھ پر کیا بیتی!‘۔ اس نے یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ میں نے زندگی میں جوکچھ حاصل کیا،اس میں ماں کی تربیت، نگرانی اور نگہداشت کا خاصا حصہ تھا،ورنہ میں بھی اپنے دوسرے دوستوں کے مانند مختلف غلط کاریوں کا شکار ہوکر کہیں گمنامی کے غار میں کھوجاتا۔
ال پچینو کا باپ لاابالی انسان تھا اور لاس اینجلس میں رہتا تھا،ال پچینو کی ماں کے علاوہ بھی ایک خاتون سے اس نے شادی کی،مگر وہ بھی نہ چل سکی۔ عیاش اور معاشرتی شعور سے عاری انسان تھا،البتہ بچپن میں کبھی کبھی وہ اپنے بیوی بچے سے ملنے آیا کرتا تھا ۔ال پچینو جب انیس سال کا تھا تو ایک دن اچانک اسے باپ کا فون آیا اور اس نے بیٹے کوایک عجیب و غریب پیش کش کی۔اسے کسی ذریعے سے معلوم ہوا ہوگا کہ بیٹا پریشان ہے،تو اس نے اس سے کہا کہ کن الجھنوں میں پڑے ہو،آؤ،میرے پاس بہت سی لڑکیاں ہیں،ان میں سے کچھ اپنے ساتھ لے جاؤ اور عیش کاٹو۔مغربی معاشرہ جس اوباش پنے اور انسانی رشتوں کی بے قدری کا نمونہ ہے،اس میں اس قسم کی باتیں کوئی بعید نہیں،مگر باپ کی اس بات پر ال پچینو کا ردِ عمل بڑا فطری قسم کا تھا۔اس نے لکھا ہے کہ میں اس کی بات سن کر سناٹے میں آگیا کہ ایک باپ جسے یہ لگ رہا ہے کہ اس کا بیٹا پریشان ہے،وہ اسے کس چیز کی پیش کش کر رہا ہے!بلکہ اس نے لکھا ہے کہ زندگی بھر غور کرنے کے بعد بھی میں یہ سمجھ نہ سکا کہ میرے باپ نے ایسی بات کیوں کی تھی،گویا وہ مجھ سے قطعی نا واقف تھا!
اس کتاب میں ال پچینو نے اپنی تمام فلموں کے پس منظر،ان کی فلمنگ،ان کے کیرکٹرز،ڈائرکٹرز اور فلم سازی کے دوران پیش آنے والے واقعات پر جستہ جستہ روشنی ڈالی ہے اور اس دوران اسے جو تجربے ہوئے، انھیں دل کھول کے شیئر کیا ہے۔ال پچینو کم عمری سے ہی تھیٹر کرنے لگا تھا اور ایک دو فلمیں بھی کرچکا تھا،مگر اس کی شہرت کا ستارہ آسمانِ ہالی ووڈ پر تب طلوع ہوا،جب اس نے مشہور فکشن نگار ماریو پوزو کے ناول’گاڈفادر‘(ہمارے یہاں یعقوب یاور نے اس کا اردو ترجمہ کیا ہے) پر مبنی فلم میں کام کیا۔اس کے بعد مختلف زمانی وقفوں سے اس سلسلے کی دو اور فلمیں بھی اس نے کیں۔ان کے علاوہ بھی درجنوں ایسی فلمیں اس نے کیں،جنھوں نے اچھا بزنس بھی کیا اور آٹھ نو مرتبہ وہ آسکر ایوارڈ کے لیے نامزد ہوا اور بالآخرScent of a Woman کے لیے اسے بیسٹ ایکٹر کا ایوارڈ ملا۔اس کے علاوہ بھی اسے فلمی دنیا کے درجنوں اعزازات حاصل ہوئے۔
اس کی زندگی میں بیچ بیچ میں کئی طویل اور مختصر وقفے ایسے آتے رہے کہ جب اس نے کسی وجہ سےایکٹنگ سے کنارہ کشی اختیار کرلی،مگر ہرپھر کر اسے واپس اسی طرف آنا پڑا۔اس نے لکھا ہے کہ چوں کہ اس کا خاندانی پس منظر معاشی اعتبار سے بہت معمولی تھا؛اس لیے جب اس نے ہالی ووڈ میں ناموری حاصل کرلی اور لاکھوں کروڑوں ڈالر اسے حاصل ہونے لگے،تب بھی وہ اپنے بینک اکاؤنٹ اور اس کی تفصیلات سے بے نیاز رہا اور یہ سب اس نے اپنےاکاؤنٹنٹ کے حوالے کر دیا،اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے اکاؤنٹنٹ نے اسے پچاس ملین ڈالر کی چپت لگادی اور اسے پیسے کمانے کے لیے تقریباً بڑھاپے میں پھر سے نہایت سنجیدگی کے ساتھ فلموں میں کام کرنا پڑا۔اتنا بڑا اداکارمالی معاملات میں کتنا بھولا ہوسکتا ہے،اس کا اندازہ یوں لگائیے کہ جب اس کا اکاؤنٹ خالی ہوگیا اور مختلف بینک والے اس کے پاس وصولی کے لیے آنے لگے تو معلوم ہوا کہ اس کے پاس تو صرف دو کاریں ہیں،مگر اس کے اکاؤنٹ سے 16کاروں کی قسطیں جا رہی ہیں،اسے23موبائل فون کی قیمتیں ادا کرنی ہیں اور ایک ایسے بنگلے کی تزئین وآرایش کے عوض سالانہ چار لاکھ ڈالر جا رہا ہے،جس میں وہ کبھی رہا ہی نہیں۔
ال پچینو کی مشاہداتی قوت بڑی زبردست ہے اور وہ غیر معمولی طورپر ذہین ہے؛چنانچہ وہ خود پر بیتنے والے سانحات،دوستوں کے ساتھ پیش آنے والے حوادث اور گرد و پیش کے اچھے برے مناظر سے نتائج بڑے سبق آموز اور عبرت انگیز نکالتا ہے،جو ہمیں گہری بصیرت عطا کرتے ہیں ۔
خاندان،گھر اور بچوں کے تعلق سے بھی اس کے تصورات بالکل ایک آئیڈیل گھریلو انسان جیسے ہیں،اس نے لکھا ہے کہ انسان کا گھر،خاندان اور بچوں والا ہونا زندگی کا ایک پرلطف تجربہ ہے اور خاندان کو شکست و ریخت سے بچانے کی بروقت اور ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ وہ جس شعبے سے وابستہ رہا،اس کے بے محابا کھلے پن اور مغربی معاشرت کی نہاد کی وجہ سے اس کے تعلقات متعدد خواتین سے رہے ،بچے بھی کئیوں سے ہوئے،ان سب کا ذکر اس کتاب میں اپنے اپنے مقام پر ہےاور یہ ذکر کہیں بھی بھدا،کریہہ ،پھوہڑ یا ہوس انگیز نہیں ہے،انسانی احترام و تکریم کے جذبات کا عکاس ہے۔اس نے اپنی مختلف کو-اسٹارز کی نہ صرف فنی صلاحیتوں کا اعتراف کیا ہے؛ بلکہ اگر کسی اداکارہ نے اس کی نجی یا پروفیشنل زندگی کے نازک لمحات میں اس کی اخلاقی معاونت کی اور اسے بحران سے نکلنے کی راہ سجھائی،تو اس کا بھی کھلے دل سے اعتراف کیا ہے۔
اپنے بچوں سے ال پچینو کو بڑی والہانہ محبت ہے،جس کا اظہار اس نے متعدد مقامات پر کیا ہے اور ان کے ساتھ وقت گزارتے ہوئے جو دلچسپ واقعات پیش آئے ہیں،ان کی سبق آموزی کے پہلو کو نمایاں کرتے ہوئے انھیں جگہ جگہ بیان کیا ہے؛چنانچہ ایک مقام پر وہ اپنی بیٹیLivvyکے حوالے سے لکھتا ہے کہ جب اس کی عمر آٹھ سال تھی اور وہ ایک دن اسے اور اس کے بھائیAntonکو اسکول سے گھر لے جارہا تھا،تو اچانک اس نے ال پچینو سے دریافت کیاDad,are you Al Pacino?،تو ا ل پچینو نے جواب دیا:’میں ڈیڈ بھی ہوں اور ال پچینو بھی ہوں،آپ کو میرے دو سر(ہیٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) نظر آ رہے ہیں نا؟ مگران دونوں پر آپ کی ملکیت ہے،یہ دونوں ہی آپ کے ہیں‘۔
ایک واقعہ اور اس نے اپنی دوسری بیٹی جولی کے حوالے سے لکھا ہے ،جس سے اس نے یہ درشایا ہے کہ انسان کے اندر بچپن سے ہی نوٹس کیے جانے اور توجہ دیے جانے کی خواہش ہوتی ہے۔لکھتا ہے کہ جب وہ چھوٹی تھی ،تو وہ اسے اسکول سے لاتے ہوئے روزانہ پاس کے ایک اطالوی ریسٹورینٹ لے جاتا اور اس کی پسند کا کھانا کھلایا کرتا تھا۔ایک دن وہ حسبِ معمول بیٹی کے ساتھ ریسٹورینٹ میں مصروف تھا کہ آس پاس سے گزرنے والے لوگوں نے اسے پہچان لیا اور ہاے ہیلو کرنے لگے،اس دوران اس نے نوٹس کیا کہ اس کی بیٹی ٹیبل کے نیچے چھپ گئی ہے، ریسٹورینٹ سے نکل کر گاڑی میں بیٹھنے کے بعد اس نے بیٹی سے پوچھا کہ وہ ٹیبل کے نیچے کیوں چھپ گئی تھی؟تو اس نے جواب دیا کہ وہ لوگ صرف آپ سے باتیں کر رہے تھے،میری طرف ان کی کوئی توجہ نہیں تھی؛اس لیے میں ٹیبل کے نیچے چھپ گئی۔
کتاب کے آخری حصے میں اس نے کورونا سے متاثر ہونے کے دوران کے اپنے تجربات بیان کیے ہیں اور لکھا ہے کہ کیسے اس نے گویا موت کو شکست دے کر زندگی کی طرف واپسی کی۔ زندگی کے بارے میں ، اس کی ناپائیداری کے بارے میں،موت کے بارے میں اور مابعدالموت دنیا میں یاد رکھے جانے کی تقریباً ہر انسان کی خواہش پر وہ بڑی فلسفیانہ نکتہ آفرینی کرتا ہے۔اس طرح یہ کتاب محض ایک عالمی سطح کے فلم اداکار کی خود نوشت ہونے کی وجہ سے نہیں؛بلکہ اس سے زیادہ ایک ایسے شخص کی سرگزشتِ حیات ہونے کی حیثیت سے یقیناً قابلِ مطالعہ ہے،جواپنی کم و بیش نوے سالہ زندگی میں بے شمار حصولیابیوں کے ساتھ ان گنت سانحات و انقلابات سے بھی گزرا ہے اور ان سے حاصل ہونے والے اسباق و نتائج کو بہت واضح، دیانت دارانہ،خوش آہنگ اور ایک متواضع انسانی اسلوب میں پیش کیا ہے۔ جگہ جگہ بکھرے ہوئے چمکتے جملے، خرد افروز فقرے،زندگی آموز اقتباسات اور خیال انگیز الفاظ قاری کو باندھے رکھتے ہیں اور 370 صفحات کی یہ کتاب کسی تھکان و اضمحلال سے دوچار کیے بغیر اپنے آپ کو پڑھواتی چلی جاتی ہے۔
Comments are closed.