آپ کے شرعی مسائل

فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف الله رحمانی صاحب مدظلہ العالی

صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ

بانی و ناظم المعہدالعالی الاسلامی حیدرآباد

جنرل سیکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا

 

کیا کاشت کارپر زمین فروخت کرکے حج کرنا فرض ہے؟

سوال: زیدکا شت کارہے،اس کے پاس زینیں توہیں؛لیکن اسی کی پیداوار سے وہ اپنی ضروریات ہی پوری کرتا ہے؛لیکن وہ اگراپنی زمین فروخت کرے توکیا اس پر حج کرنا فرض ہوگا؟(محمد جاسر، حیات نگر)

جواب: اگرزراعت ہی کسی شخص کا ذریعۂ معاش ہواوراس کے پاس اتنی ساری زمینیں ہوں کہ وہ کچھ زمینیں فروخت کرکے حج کا سفرکرسکتا ہے، اس کے بعد بھی اس کے پاس اتنی زمینیں رہ جائیں گی ،جس سے اس کی ضروریات پوری ہوجائیں، تواس پرزمین فروخت کرکے حج کرنا فرض ہے؛لیکن اگرحج کے اخراجات کے بقدرزمین فروخت کرنے کے بعداتنی زمین نہیں بچ سکے گی، جواس کے معاش کے لئے کافی ہوسکے توپھر اس پر حج فرض نہیں:وان کان صاحب ضیاع ان کان لہ من الضیاع مالوباع مقدارمایکفی لزادہ وراحلتہ ذاھباَ وجائیاَ ونفقۃ عیالہ واولادہ،ویبقی لہ من الضیعۃ قدرما یعیش بغلۃ الباقی یفترض علیہ الحج والا فلا(فتاویٰ تاتارخانیہ:۳/۴۷۲،مسئلہ نمبر۴۸۷۷)

آخری وقت میں توبہ

سوال: ایک عالم صاحب نے اپنے بیان میں کہاکہ جب آدمی پرموت کاوقت آجائے اوروہ زندگی سے مایوس ہوجائے اگراس وقت وہ اپنے گناہوں سے توبہ کرے تواس کی توبہ قبول نہیں ہوگی،کیایہ بات صحیح ہے؛کیوں کہ بہت سے دفعہ بھولےبھٹکے انسانوں کو ایسے ہی وقت میں توبہ کی توفیق ہوتی ہے۔(عبدالمقتدر، جالون)

جواب: جب انسان پرموت سے پہلے والی تکلیف اورشدت شروع ہوجائےیعنی یا س،جسے نامیدی کی کیفیت کہتے ہیں،اس حالت کی توبہ قبول ہوگی یا نہیں؟اس سلسلے میں اس بات پرتواتفاق ہے کہ جو شخص ایمان نہیں رکھتا تھا،وہ اس حالت میں اگرکفرسے توبہ کرے اورایمان قبول کرے تواس کااعتبارنہیں ہوگا؛البتہ مسلمان ہواوروہ اپنے گناہوں سے توبہ کرے تواس کی توبہ قبول کرلی جائے گی؛کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایاکہ جب وہ ہمارے عذاب کو دیکھ لیں گے یعنی جان نکالنے کے وقت فرشتےکی طرف سے جوعذاب ہوگا اسے دیکھ لیں گے،تواس وقت اس کا ایمان لانا معتبرنہیں ہوگا:فلم یک ینفعھم ایمانھم لما رأوبأسنا(غافر:۸۵)اس آیت کا تعلق ایمان لانے سے ہے نہ کہ گناہوں کی توبہ سے،مسلمان کومرض موت کی تکلیف میں اس کواندازہ ہوگیا ہوکہ اس کی موت کاوقت قریب ہے،اوروہ توبہ کرے تب بھی ان شاء اللہ اس کی توبہ قبول کرلی جائے گی:واختلف فی قبولہ توبۃ الیأس والمختار قبول توبتہ لاایمانہ(درمختار:۳/۳)البتہ حدیث میں یہ بات آئی ہے کہ جب غرغرہ کی کیفیت طاری ہوجائے توپھر اس کی توبہ قبول نہیں ہوگی:ان اللہ یقبل توبۃ العبدمالم یغرغر(سنن الترمذی: باب فی فضل التوبۃ:حدیث نمبر:۳۵۳۷)غرغرہ سے مرادوہ وقت ہے جب روح حلق کوپہونچ جاتی ہے،اورپردۂ غیب ہٹ جاتا ہے(درمختار:۳/۷۹)

نفل نماز افضل ہے یا نفل طواف؟

سوال: مکہ مکرمہ پہونچنے کے بعدمسجد حرام میں نفل نماز پڑھنا افضل ہے یاطواف کرنا؟ (فیصل احمد، ملک پیٹ)

جواب: جولوگ خاص مکہ مکرمہ کے باشندہ ہوں یاجن کا ملازمت کی وجہ سے وہیں قیام ہوتوان کے لئے زمانۂ حج میں نماز پڑھنا افضل ہے،اورجو لوگ میقات کے باہر سے حج کے لئے آئیں ان کے لئے نفل طواف نفل نماز سے افضل ہے؛البتہ موسم حج کے علاوہ دوسرے دنوں میں اہل مکہ کے لئے بھی نفل طواف نفل نماز سے بڑھ کر ہے……وطاف بالبیت نفلاَ ماشیاَ بلا رمل وسعیِ،وھو افضل من الصلاۃ نافلۃ للآفاقی وقلبہ للمکی وفی البحر ینبغی تقییدہ بزمن الموسم والا فالطواف أفضل من الصلاۃ مطلقاَ(درمختارمع الرد:۳/۵۱۸)

طواف کا عمرہ سے افضل ہونے کا مطلب

سوال: ہم لوگوں کو حج کی تربیت میں یہ بات بتائی جاتی گئی ہے کہ عمرہ کرنےکے مقابلہ میں طواف کرنا افضل ہے؛حالانکہ طواف کرنے میں کم مشقت ہوتی ہے، عمرہ میں زیادہ، کیایہ کہنا صحیح ہے؟(کریم الدین، معین آباد)

جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ کاسفر جب بھی فرمایا توایک سفر میں ایک ہی عمرہ کیا؛البتہ طواف کئی کئے،اس سے معلوم ہواکہ بمقابلہ عمرہ کے طواف زیادہ کرنا چاہئے؛البتہ طواف کے افضل ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایک طواف ایک عمرہ سے افضل ہے؛بلکہ مطلب یہ ہے کہ جتنا وقت عمرہ میں لگتا ہے، اگر وہ اتنا ہی وقت طواف میں لگائے تویہ زیادہ بہتر ہے،حج کی تربیت دینے والے حضرات کواس کی وضاحت کردینی چاہئے:الأرجح تفصیل الطواف علی العمرۃ اذاشتغل بہ مقدار زمن العمرۃ (ردالمحتار:۳/۵۱۷)

حالت احرام میں داڑھی مونڈانا یا مونچھ بنانا

سوال: اگرایک شخص داڑھی نہیں رکھتا،داڑھی اورمونچھ کے بال بڑھنے سے اس کوبے چینی ہوتی ہے،اس نے سرکے بال تونہیں کٹائے ؛لیکن داڑھی کے بال مونڈ لئے یامونچھ کے بال تراش لئے توکیا اس کی وجہ سے اس پر کوئی صدقہ وغیرہ واجب ہوگا۔(جلال الدین، قاضی پیٹ)

جواب: داڑھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہم ترین سنتوں میں سے ہے،اوراس کا رکھنا واجب ہے،داڑھی توشروع سے ہی رکھنا چاہئے؛لیکن اگرکسی کو اس کی توفیق نہیں ہوسکی توکم سے کم حج سے ہی داڑھی رکھنے کا ارادہ کرلے،یہ کس قدرمحرومی کی بات ہے کہ اللہ کے گھراوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ سے ایسی صورت میں واپس آئے جواللہ اوراس کے رسول کوپسند نہیں۔

بہرحال مسئلہ یہ ہے کہ اگرکسی شخص نے داڑھی منڈالی،یا اس کا ایک چوتھائی حصہ منڈالیا تودم واجب ہوگا،یعنی ایک بکرے کی قربانی دینی ہوگی،واذاحلق من رأسہ ،أو لحیتہ ثلثاَ أوربعاَ ،فعلیہ د،قال فی الأصل :اذا أخذ ثلث لحیتہ أو رأسہ فعلیہ دم (محیط برھانی ۳/۴۳۴)اگرصرف مونچھ تراشی جائے توصدقہ واجب ہوگا اور صدقہ کی تعیین اس طرح ہوگی کہ اگر مونچھ کے بال داڑھی کی ایک چوتھائی کے بقدرہوںتو ایک بکرے کی چوتھائی قیمت صدقہ کرنی ہوگی،یعنی داڑھی کے لحاظ سے مونچھ کے تراشے گئےیامونڈے ہوئے بال کی جومقدارہو، بکرے کی قیمت کا اتنا ہی حصہ اس پرصدقہ کرنا واجب ہے:وان أخذ من شاربہ فعلیہ حکومۃ عدل ،الی اٰخر( محیط برھانی:۳/۳۲۵)

صحت مند ہونے کے باوجود دوسرے سے حج بدل کرانا

سوال: میرے دوست کے والد نے ایک شخص کواپنی طرف سے حج بدل کے لئے بھیج دیا؛حالانکہ ان کی صحت اس لائق ہےکہ وہ خود بھی جاکرآسکتے ہیں،کیا ان کی طرف سے یہ حج درست ہوگا؟ (سید ذوالفقار، سعید آباد)

جواب: اگرانہوں نے ابھی تک حج نہیں کیاہے،حج کرنے کی مالی استطاعت بھی ہے اورصحت بھی اس لائق ہے کہ وہ حج کرسکتے ہیں توان کے لئے اپنے حج فرض کے بدل میں دوسرے شخص کو بھیجنا درست نہیں ہے،اور ان کا حج فرض ادانہیں ہوا؛البتہ یہ ان کی طرف سے حج نفل ہوجائے گا،اوران شاء اللہ اس کا ثواب پہونچے گا،حج فرض ان کے ذمہ ابھی باقی ہے،حج بدل کرانا اسی وقت جائز ہے جب کہ خود جسمانی طورپر حج کرنے کی قدرت نہیں رکھتا ہو:وان احج رجلاَ وھو صحیح ،اجزأہ عن التطوع لأن فرض الحج یتأدیٰ بالاحجاج حالۃ العذر(محیط برھانی:۳/۴۷۴،مسئلہ نمبر:۳۴۱۱)

رمی کے وقت اللہ اکبرکہنا

سوال: حج کا ایک اہم عمل شیطان پرکنکری مارنا ہے،کیاکنکری مارنے کے وقت اللہ اکبرکہناضروری ہے،اگرکوئی شخص بھیڑ کی وجہ سے کنکری پھینکتے وقت تکبیرنہیں کہہ سکا تو اس کاکنکری پھیکنے کا عمل درست نہیں ہوگا؟ (مرغوب الرحمٰن، چارمینار)

جواب: کنکری پھینکتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر کہی ہے،رأیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یرمی الجمرۃ من بطن الوادی وھو راکب یکبر مع حصاۃ الخ (سنن ابی داؤد،حدیث نمبر:۱۹۶۶) فقہاءنے اس موقع کے لئے’’ بسم اللہ اللہ اکبر ‘‘کا لفظ لکھاہے کہ ہرکنکری پھینکتے وقت ان الفاظ کواداکرے(فتاویٰ تاتارخانیہ:۳/۵۳۰،مسئلہ نمبر:۴۹۶۶)البتہ اللہ تعالیٰ کا ذکر مقصود ہے،اگرکوئی اللہ اکبرکے بجائے’’سبحان اللہ‘‘کہہ دے تویہ بھی کافی ہے:ولوسبح مکان التکبیر اجزأہ(حوالۂ سابق)نیزیہ تکبیر یااللہ تعالیٰ کے نام کی تسبیح کہنا واجب نہیں مستحب ہے،اگرکسی شخص نے یہ الفاظ نہیں کہااوررمی کرلی، تب بھی رمی کا عمل پوراہوجائے گا۔واللہ اعلم

Comments are closed.