جمعہ نامہ : دینے والے کی مشیت پہ ہے سب کچھ موقوف

ڈاکٹر سلیم خان
ارشادِ ربانی ہے:’’پیغمبر ہم آپ کے سامنے ایک بہترین قصہ بیان کررہے ہیں۰۰۰‘‘۔ قرآن حکیم میں بیان کردہ احسن القصص کے کئی پہلو ہیں اور ان میں سےایک اس مشیتِ ایزدی کا ظہور ہے جو دشمنانِ اسلام کی سازشوں کو انہیں پر الٹ دیتی ہے۔ اس سورہ کا شانِ نزول ہی دشمنانِ اسلام کے ایک سازش کی ناکامی ہے۔ یہودیوں کے اشارے پر بعض کفار نے نبی ﷺ کا امتحان لینے کی خاطر آپؐ سے بنی اسرائیل کے مصر جانے کی تفصیل دریافت کی ۔ آپ ؐ اور اہل عرب کی اس قصہ سے ناواقفیت کی گواہی آیت کے اگلے حصے میں دی گئی فرمایا:’’ یہ وحی قرآن کے ذریعہ آپ کی طرف کی گئی ہے اگرچہ پہلے آپ اس سے بے خبر لوگوں میں تھے‘‘۔ کفار قریش کو توقع تھی کہ آپ یا تو اس کا مفصل جواب نہ دے سکیں گے، یا کسی یہودی سےرابطہ کریں گے تو آپؐ کا بھرم کھل جائیگا، لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اُسی وقت یوسف ؑ کا پورا قصہ آپؐ کی زبان پر جاری فرما دیا تو دشمنانِ دین کو منہ کی کھانی پڑی اور محمدﷺ کی نبوت کا منہ مانگا ثبوت بھی مل گیا ۔
ارشادِ قرآنی ہے :’’اے محمدؐ، یہ قصہ غیب کی خبروں میں سے ہے جو ہم آپ پر وحی کر رہے ہیں ورنہ آپ اُس وقت موجود نہ تھے جب یوسفؑ کے بھائیوں نے آپس میں اتفاق کر کے سازش کی تھی‘‘۔ اس طرح یہ ثابت ہوگیا کہ آپؐ سنی سنائی باتیں بیان نہیں کرتے بلکہ فی الواقع آپؐ پر وحی نازل ہوتی ہے۔اس آیت میں برادران یوسفؑ کے جس رویہ کا ذکر کیا گیا ہے سردارانِ قریش کا معاملہ محمد ؐ کے ساتھ اس سے مختلف نہیں تھا ۔ اسی لیے فرمایا :’’ حقیقت یہ ہے کہ یوسفؑ اور اس کے بھائیوں کے قصہ میں اِن پوچھنے والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں‘‘۔ فی الحال بردرانِ وطن بھی حضرت یوسف ؑ کے بھائیوں کی مانندملت اسلامیہ کے تئیں بغض و حسد کا شکار ہوکر اہلِ قریش کی پیروی کررہے ہیں۔ ارشادِ قرآنی ہے:’’ یہ قصہ یوں شروع ہوتا ہے کہ اس کے بھائیوں نے آپس میں کہا "یہ یوسفؑ اور اس کا بھائی، دونوں ہمارے والد کو ہم سب سے زیادہ محبوب ہیں حالانکہ ہم ایک پورا جتھا ہیں ۔سچی بات یہ ہے کہ ہمارے ابا جان با لکل ہی بہک گئے ہیں ‘‘۔
اسلام کے زعفرانی مخالفین دیگر جماعتوں اور سرکاروں پر مسلمانوں کی نازبرداری کا الزام لگاتے ہیں اور اسی طرح کی چالیں چل کر عوام کو راغب کرنےکی کوشش کرتے ہیں جیسے برادرانِ یوسف نے چلی تھیں۔ انہوں نے ارادہ کیا کہ :’’چلو یوسفؑ کو قتل کر دو یا اسے کہیں پھینک دو تاکہ تمہارے والد کی توجہ صرف تمہاری ہی طرف ہو جائے۰۰۰‘‘۔ احسن القصص شاہد ہے کہ خدا کی مشیت سے لڑنے والے کامیاب نہیں ہوئے اور آخرکارانہیں اُسی بھائی کے قدموں میں آنا پڑا جس کو انہوں نے انتہائی بے رحمی کے ساتھ کنویں میں پھینکا تھا۔ اس سورہ کے ڈیڑھ دو سال بعد اہل قریش نے برادرانِ یوسف کی طرح محمد ؐ کو قتل کرنے کی سازش کی جس کے نتیجے میں ہجرت کرنی پڑی مگر پھر ویسا ہی عروج بھی ملا جیسا یوسف ؑ کا ہُوا تھا۔ فتح مکّہ کے موقع پر آپﷺ نے مشرکینِ مکہ سے پوچھا ”تمہارا کیا خیال ہے کہ میں تمہارے ساتھ کیا معاملہ کروں گا؟“ انہوں نے انتہائی عجز و درماندگی سے عرض کیا”آپ ایک عالی ظرف بھائی ہیں، اور ایک عالی ظرف بھائی کے بیٹے ہیں“تو ظلم کا بدلہ لینے پر قدر ت کے باوجود آنحضرتؐ فرمایا : ”میں تمہیں وہی جواب دیتا ہوں جو یوسف نے اپنے بھائیوں کو دیا تھا کہ آج تم پر کوئی گرفت نہیں، جاوٴ تمہیں معاف کیا“.
سورۂ یوسف جن حالات میں نازل ہوئی اس کی قرآنی منظر نگاری سورۂ انفال یوں ہے کہ :’’ وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے جبکہ منکرین حق آپ ؐ کے خلاف تدبیریں سوچ رہے تھے کہ آپ ؐ کو قید کر دیں یا قتل کر ڈالیں یا جلاوطن کر دیں۰۰۰‘‘۔ مسلمانانِ ہند کی بابت اسی طرح کی سازشیں رچی جاتی رہتی ہیں ۔ امت کے عمر خالد یا شرجیل امام جیسے نوجوانوں کو جن سے بڑی توقعات وابستہ ہیں مختلف بہانوں سے مستقل جیل میں رکھا جارہا ہے۔ ذرائع ابلاغ میں ایسی ویڈیوز کی کمی نہیں ہے کہ جن میں دھرم سنسد کا اہتمام کرکےمسلمانوں کے نسل کشی کی دھمکی دی جارہی ہو۔ ایسی خبریں بھی ذرائع ابلاغ کی زینت بنتی رہتی ہیں کہ جن میں دشمنانِ اسلام بڑی شدومد کے ساتھ مسلمانوں کو پاکستان یا کسی مسلم ملک میں روانہ کرنے کی خواہش کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسے میں اگر پہلگام جیسا ناخوشگوار واقعہ رونما ہوجائے تو نفرت کے ماحول میں شدت آجاتی ہے اور فتنہ پرور لوگوں کو اپنے ارمان نکالنے کا موقع مل جاتا ہے۔ بات دلآزاری سے آگے بڑھ کر حملوں تک پہنچ جاتی ہےمگر یہ لوگ بھول جاتے ہیں کہ ؎
دینے والے کی مشیت پہ ہے سب کچھ موقوف مانگنے والے کی حاجت نہیں دیکھی جاتی
پہلگام حملے کے بعد جب پاکستان کی آڑ میں مسلمانوں کو تختۂ مشق بنایا جارہا تھا سید عادل حسین کا نام ابھر کرسامنے آتا ہے۔ وہاں موجود دوہزار لوگوں کے درمیان وہی ایک جانباز تھا جس نے جان کی پروا کیے بغیر دہشت گردوں کی بندوق پکڑ لی حالانکہ اسے کوئی خطرہ لاحق نہیں تھا ۔اس طرح وہ واحد مزاحمت کی علامت بن کر پورے ذرائع ابلاغ پر چھاگیاکیونکہ اس نے یہ قرآنی شہادت دی کہ ایک انسان کی جان بچانا ساری انسانیت کو زندگی بخشنے کے مترادف ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب لوگ مدد کے لیے تڑپ رہے تھے تو نزاکت علی کا جذبۂ خدمت سرخرو ہو گیا ۔ حد تو یہ ہے کہ آپریشن سندور میں کرنل صوفیہ قریشی کو قائدکے طور پیش کرکے بی جے پی نے اپنے بھگتوں کے ارمانوں پر پانی پھیر دیا اور مودی جی کے پنکچر والے مکالمہ کو بھی پنکچر کردیا ۔ یہ حرکت کوئی اور حکومت کرتی تو اس پر مسلم نازبرداری اور ہندو دشمنی کا الزام لگتا مگر مشیت ایزدی نے یہ کام مسلمانوں کے کٹرّ دشمنوں سے لے لیا۔مذکورہ بالا آیت کا خاتمہ اسی بشارت پر ہوتا ہے کہ :’’ وہ سازش کر رہے تھے اور اللہ بھی تدبیر فرما رہا تھا ۔ اللہ بہترین تدبیر فرمانے والا ہے‘‘ ۔ ایسے میں شہر یار کایہ رجائیت پسند شعریاد آتا ہے؎
سیاہ رات نہیں لیتی نام ڈھلنے کا
یہی تو وقت ہے سورج ترے نکلنے کا
Comments are closed.