جنگ وجدال اور اسلام

 

تحریر: ارشد بستوی

 

دو دن قبل استاذ محترم حضرت مولانا معظم صاحب مد ظلہ العالی نے ٹویٹر کی ایک ویڈیو کا لنک بھیج کر حکم فرمایا تھا کہ میں اس کا جواب تحریر کروں، لیکن تعلیمی مصروفیات کے سبب فوری طور پر جواب دینے سے میں قاصر تھا۔ آج تھوڑی فرصت ہاتھ آئی ہے تو چند باتیں سپرد قرطاس کرتا ہوں۔

 

ویڈیو میں ایک مسلمان نما شخص ٹوپی پہن کر سورۂ توبہ کی آیت نمبر پانچ کا حوالہ دے کر کہتا نظر آرہا ہے کہ ”حالیہ پہلگام حملہ ہمارے نظریے سے تو غلط لیکن اسلام کی روٗ سے صحیح ہے، اور جو مسلمان اس کی مذمت یا مخالفت کرتے ہیں وہ در اصل قرآنی حکم کی مخالفت کرتے ہیں۔ مزید کہتا ہے کہ قرآنی حکم کے مطابق ایسا کام ثواب کا کام ہے کہ جہاں کفار ومشرکین کو پاؤ، وہاں انہیں مارو، وغیرہ وغیرہ‌۔“ اس کے انداز بیان سے صاف ظاہر ہے کہ اس کے دل میں اسلام کی نفرت اور کم از کم نفاق ہے۔

 

اب یہاں عرض ہے کہ یہ ایک عام رواج چل پڑا ہے اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے انہی کی کتابوں اور نصوص کو آدھا ادھورا اور سیاق وسباق سے ہٹاکر پیش کرنے کا۔ ایسے لوگوں سے مخلصانہ درخواست ہے کہ کم از کم ایک بار قرآن کی تفسیر ضرور پڑھیں۔ لیکن ظاہر سی بات ہے کہ اگر ان کی نیت میں ہی کھوٹ ہے، اور نفرت کی آگ میں ان کا دل جھلسے جا رہا ہے تو یہ سچائی جان کر بھی غلط بیانیوں سے باز نہیں آنے والے۔

 

لیکن سیدھے سادے اور نیوٹرل سامعین وناظرین سے دست بستہ گزارش ہے کہ آپ ایسی باتوں پر یقین کرنے سے قبل تحقیق کی عادت ڈالیے۔ قرآن صرف مسلمانوں کی کتاب نہیں۔ جب قرآن نازل ہوا، اس وقت ایک بھی شخص مسلمان نہیں تھا۔ پہلے لوگوں نے قرآن سنا ہے پھر وہ مسلمان ہوے ہیں۔ تو قرآن کو مسلمانوں کی کتاب سمجھنا بند کرکے ایک بار پڑھنا شروع کیجیے اور قرآنی پیغام کو سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ ہماری ہی بات مانیے، آپ سمجھ دار اور آزاد ہیں، پڑھیے اور خود فیصلہ کیجیے۔ ایسے کتنے لوگ ہیں جنہوں نے قرآن اور اسلام میں خامیاں تلاش کرنے کی خاطر قرآن کا مطالعہ شروع کیا، اور وہ بالآخر خود اسلام وقرآن کے گرویدۂ ومداح اور پر زور حامی وداعی ہوگئے۔ اس لیے نو مسلم بھائیوں اور بہنوں کی رودادیں بھی پڑھیے اور سنیے۔ ”Towards Eternity“ ایک یوٹیوب چینل ہے، جہاں ایسی سیکڑوں رودادیں مل جائیں گی۔ اسی طرح ایک کتاب ہے:

“WHY DID THEY BECOME MUSLIMS? BY: M. SIDDIK GÜMÜS”,

اس کتاب کو ضرور پڑھیے۔ انٹرنیٹ پر یہ کتاب دستیاب ہے۔

 

اب بات کرتے ہیں آیاتِ قتال کے بارے میں۔ جہاں تک بات سورۂ توبہ کی آیت نمبر پانچ کی ہے، تو عرض یہ ہے کہ کفار کی مسلسل عہد شکنی اور وعدہ خلافی کے بعد یہ آیت نازل کی گئی ہے، اور پھر انہیں مہلت بھی دی گئی ہے، لیکن ساتھوں ساتھ یہ بھی عرض کیا گیا ہے کہ جب جنگ چھڑ جائے تو وہاں کم زوری یا نرمی نہیں برتنی، بلکہ دشمن کی قوت بازو کو سلب اور اس کی کمر توڑ دینی ہے۔ یعنی یہاں جس آیت کا آپ تذکرہ کر رہے ہیں اس کا ایک سیاق وسباق ہے، اور وہ مخصوص حالت کے ساتھ خاص ہے۔ یہاں مکمل تفصیل کی گنجائش نہیں، نہ اتنا وقت ہے، لیکن اشارہ ضرور کر دیا گیا ہے۔ یہاں صرف اتنا عرض ہے کہ آپ نے آیت نمبر پانچ پیش کی، اس سے پہلے بھی تو چار آیتیں ہیں۔ اور پھر قرآن کی آیتوں کے نزول کا کوئی پس منظر اور سبب ہوتا ہے جس کے مطابق آیتیں اور احکام نازل ہوا کرتے تھے، جسے شان نزول کہا جاتا ہے۔ قرآن کی کسی بھی آیت کا صحیح مفہوم سمجھنے کے لیے اس آیت کا شان نزول سمجھنا بہت ضروری ہے۔ تو آپ سے یہاں صرف اتنی گزارش ہے، کہ آپ آیات قتال کا شان نزول پڑھیں۔ مفتی شفیع عثمانی رحمہ اللہ کی معارف القرآن، ہندی اور انگریزی میں بھی دستیاب ہے، اس میں مکمل تفصیل موجود ہے، اسے پڑھ کر صحیح مفہوم واضح ہوجائے گا اور بات سمجھ میں آجائے گی۔ ہماری کوشش ہوگی کہ اس اور اس جیسی آیات کی تفسیر کا اسکرین شاٹ لے کر ایک پی ڈی ایف تیار کرکے اس تحریر کے ساتھ منسلک کر دیا جائے۔ اس سے پیشتر بھی چند آیات کا پی ڈی ایف ہم نے تیار کیا تھا، وہ بھی منسلک کر دیں گے، ان شاء اللہ۔

 

اب ایک ضروری بات یہ عرض کرنی ہے کہ قرآن کا مطلق حکم کیا ہے تمام انسانوں کے بارے میں؟ یہ جاننے کے لیے سورۂ مائدہ کی آیت نمبر 32 کا مطالعہ ضروری ہے، جس میں صاف صاف یہ لکھا گیا ہے کہ اگر کسی نے ناحق کسی ایک شخص کا بھی قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کا قتل کیا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص کسی ایک کی زندگی کی بقا کا سبب بنا تو گویا اس نے ساری انسانیت کو زندہ کیا۔ اس آیت میں مسلمانوں کی تخصیص نہیں، بلکہ دین ومذہب سے قطع نظر محض انسان ہونے کی بنا پر یہ حکم ہے۔ اور یہ جرم جو بھی کرے چاہے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم، وہ پوری انسانیت کا قاتل ہوگا۔

 

جنگ وجدال کی اجازت کب دی گئی ہے؟ یہ سمجھنے کے لیے سورۂ حج کی آیت نمبر 39 اور 40 کا تفصیلی مطالعہ ضروری ہے، جس میں فرمایا گیا ہے کہ ان لوگوں کو جنگ کی اجازت دی گئی جن کو قتل کیا جاتا، مارا پیٹا اور ستایا جاتا ہے۔ اسی طرح ان کو ان کے گھروں سے صرف ان کے کلمہ گو ہونے کی بنیاد پر نکال دیا گیا ہے۔ ان دونوں آیتوں کا پہلے یہاں ترجمہ پیش کیا جاتا ہے:

 

”حکم ہوا ان لوگوں کو جن سے کافر لڑتے ہیں اس واسطے کہ ان پر ظلم ہوا اور اللہ ان کی مدد کرنے پر قادر ہے۔“ (٣٩)

”وہ لوگ جن کو نکالا ان کے گھروں سے اور دعویٰ کچھ نہیں سوائے اس کے کہ وہ کہتے ہیں ہمارا رب اللہ ہے اور اگر نہ ہٹایا کرتا اللہ لوگوں کو ایک کو دوسرے سے تو ڈھائے جاتے تکیئے اور مدرسے اور عبادت خانے اور مسجدیں جن میں نام پڑھا جاتا ہے اللہ کا بہت اور اللہ مقرر مدد کرے گا اس کی جو مدد کرے گا اس کی بیشک اللہ زبردست ہے زور والا۔“ (٤٠)

(معارف القرآن از: مفتی شفیع عثمانی رحمہ اللہ)

 

یہاں نکتے کی بات یہ ہے کہ اس آیت میں صرف مساجد کے انہدام کو ممنوع اور برا نہیں سمجھا گیا ہے، بلکہ دیگر تمام مذہبی عبادت گاہوں کی حفاظت مقصود ہونے کا اشارہ بھی اس میں موجود ہے۔ اسی لیے تو ہم کہتے ہیں کہ قرآن کی آیتوں کو جس طرح سیاق وسباق سے ہٹاکر پیش کیا جاتا ہے، اگر لوگوں کے اندر ایک بار قرآن کے مطالعے کا شوق اور جذبہ پیدا ہوجائے تو مکاروں اور سازشی ٹولے کی سازشیں دھری کی دھری رہ جائیں گی بلکہ پڑھنے والے دائرۂ اسلام میں داخل ہوتے چلے جائیں گے۔ اور ان شاء اللہ وہ دن دور نہیں کہ دنیا اپنی آنکھوں سے یہ منظر بھی دیکھی گی۔

 

ویسے بھی نو مسلم بھائی اور بہنیں کہا کرتے ہیں کہ ہم نے اسلام تو قرآن کو پڑھ اور سمجھ کر اپنایا ہے، نہ کہ مسلمانوں کو دیکھ کر۔ تو ہم اس موقع پر اپنے غیر مسلم بھائیوں اور بہنوں سے گزارش کریں گے، کہ ہم خاندانی مسلمانوں سے بد ظن نہ ہوکر آپ ایک بار اسلام کا مطالعہ ضرور کیجیے۔ تاکہ آپ کو یہ شکایت نہ ہو کہ یہ بات آپ تک کسی نے نہیں پہنچائی۔

 

اب آخر میں سورۂ ممتحنہ کی آیت نمبر 8 اور 9 پر بھی تھوڑی گفتگو کی جاتی ہے، تاکہ بات مکمل طور پر واضح ہوجائے۔ دونوں آیتوں کا ترجمہ پیش ہے:

 

”اللہ تم کو منع نہیں کرتا ان لوگوں سے جو لڑے نہیں تم سے دین پر اور نکالا نہیں تم کو تمہارے گھروں سے کہ ان سے کرو بھلائی اور انصاف کا سلوک بیشک اللہ چاہتا ہے انصاف والوں کو۔“ (٨)

”اللہ تو منع کرتا ہے تم کو ان سے جو لڑے تم سے دین پر اور نکالا تم کو تمہارے گھروں سے اور شریک ہوئے تمہارے نکالنے میں کہ ان سے کرو دوستی اور جو کوئی ان سے دوستی کرے سو وہ لوگ وہی ہیں گنہگار۔“ (٩)

(معارف القرآن، مفتی شفیع)

 

کیا مطلب ہے؟ مطلب یہ ہے کہ جو لوگ تمہارے دین کی بنیاد پر تم سے لڑتے جھگڑتے نہیں، اسی طرح تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالتے، ان کے ساتھ حسن سلوک، بھلائی کا برتاؤ اور انصاف کرنے سے تمہیں نہیں روکا جاتا ہے، بلکہ اللہ تو انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا اور محبوب جانتا ہے (کیوں کہ وہ خود انصاف والا ہے، ورنہ دنیا میں اس کی اتنی نافرمانیاں ہوتی ہیں، اگر وہ گنہگاروں کو ہلاک کر دے تب بھی یہ عین انصاف ہوگا مگر اس کے باوجود وہ سب کو روزی روٹی مہیا کر رہا ہے، ہزار ناشکری کے باوجود وہ اپنی رحمتوں سے کسی کو محروم نہیں کرتا۔) اللہ تو ان لوگوں سے تعلقات رکھنے سے منع کرتا ہے جو تمہارے دین کی بنیاد پر تم سے قتال کرتے اور تم کو جبراً تمہارے گھروں سے نکال دیتے ہیں، ایسے لوگوں سے ہاتھ ملانا تو نا انصافی کو قبول کرنا اور غداری ہے، اور اسلام نا انصافی کو پسند نہیں کرتا، اس لیے اگر ظالموں سے کوئی ہاتھ ملائے اور دوستی رکھے تو وہ خود ظالم ٹھہرے گا۔

 

اب ان باتوں کی عملی مثال دیکھنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ اور صحابہ کرام کے حالات زندگی پڑھنے چاہییں۔ ایک کتاب کا نام یہاں درج کیا جاتا ہے: الفاروق، علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ کی کتاب ہے۔ انگریزی ورژن بھی دستیاب ہے۔ ہندی کے بارے میں نہیں معلوم۔ اس کتاب کو ایک بار ضرور پڑھنا چاہیے نفرت کے پجاریوں اور اسی طرح ملک کے ہر انصاف پسند شہری کو۔ اسے پڑھ کر معلوم یہ ہوگا کہ ایک حقیقی مسلمان جب دنیا پر حکومت کرتا ہے تو اس کا اندازِ حکومت کیا ہوتا ہے۔ اس کے احکام کیسے ہوتے ہیں۔ کیا کوئی اس جیسا منصف اور رعایا پرور ہوسکتا ہے؟؟ اس وقت تو مسلمانوں کے ہاتھ میں سارا نظام تھا، اگر یہی مقصد ہوتا کہ ہر غیر مسلم کو مارا جائے تو وہاں سب سے پہلے اس پر عمل ہوتا، جب کہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ کہ مسلمان اگر چند دن کسی علاقے میں رہ کر کسی وجہ سے وہاں سے رخصت ہوں یا کوچ کریں تو غیر مسلم رو پڑیں اور فریادیں کرنے لگیں کہ ہمیں چھوڑ کر کہاں جاتے ہو؟ بھلا یہ اوصاف حمیدہ نہیں تو اور کیا ہیں؟ اور یہ اسلامی حکم کی وجہ سے نہیں تو اور کس وجہ سے ہے؟ ورنہ اسلام قبول کرنے سے قبل تو معمولی معمولی باتوں پر خون کی ندیاں بہہ پڑتی تھیں۔ پتہ چلا اسلام کی تعلیمات ہی یہی ہیں۔ اسی لیے مظلوم اور دبے کچلے لوگ ظلم سے نجات کے لیے مسلمانوں کو یاد کیا کرتے تھے۔ اور یہی وہ وجہ تھی کہ محمد بن قاسم مظلوموں کا ہیرو بن کر ہندوستان کی سرزمین پر قدم رنجہ ہوا تھا اور مظلوموں کو ظلم سے نجات دلایا تھا۔ یہ ہے اسلامی حکم اور یہ ہے اسلامی تاریخ۔ پڑھیے ایک بار اس تاریخ کو۔ الفاروق تو ضرور پڑھیے۔ موقع ملے تو نسیم حجازی کے ناول ”محمد بن قاسم“ کا بھی مطالعہ کیجیے۔ بات نہ چاہتے ہوے بھی بہت طویل ہوگئی۔ اس لیے اس جملے پر بات ختم کی جاتی ہے کہ پہلگام حملے کی مذمت صرف ہم مسلمان ہی نہیں بلکہ اسلام اور قرآن بھی کرتا ہے۔

 

Comments are closed.