ہند پاک کشیدگی میں سعودی عرب سےوابستہ توقعات

ذکی نور عظیم ندوی- لکھنؤ
اپنی تہذیبی، ثقافتی اور تاریخی عظمت کیلئے ممتاز جنوبی ایشیا بدقسمتی سےاس وقت شدید سیاسی اور جنگی کشیدگی سے دوچارہے ۔پہلگام میں ہونے والےانتہائی تکلیف دہ حادثہ کے بعد سرحدی جھڑپوں، ڈرون اور میزائل حملوںنےخطہ کو عدم تحفظ میں مبتلا کر دیا ہے۔بھارت اور پاکستان کے درمیان جاری تنازعات نہ صرف دو نوںپڑوسیوں ،بلکہ عالمی امن و استحکام کے لئے بھی نہایت نقصان دہ ہیں ۔ گزشتہ سات دہائیوں میں دونوںکے درمیان جنگوں میں ہزاروں افراد شہید، اربوں ڈالر کا مالی نقصان، اور لاکھوں افراد بے گھر ہوچکے ہیں۔ اب دونوں ایٹمی صلاحیت کے حامل ملکوں کے درمیان ممکنہ جنگ کے نتائج ناقابل تصور حد تک تباہ کن ہو سکتے ہیںاور یہ جنگ نہ صرف ان ملکوں کی تباہی و بربادی بلکہ پورے جنوبی ایشیا کو دہائیوں پیچھے دھکیل سکتی ہے۔
پاکستان پہلے ہی قرضوں، مہنگائی اور سیاسی عدم استحکام جیسےبڑے سنگین مسائل سے دوچار ہے، جنگ طویل ہونے کی صورت میںوہ معاشی طور پر مفلوج ہو سکتا ہے۔ تو بھارت جو ابھرتی ہوئی نمایاں معیشتوں میں ہےاس کی ترقی کی رفتار متأثر ہوسکتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ دونوں ملکوں کے عوام کو نفسیاتی، سماجی اور انسانی سطح پر ناقابل تلافی نقصانات کا سامنا ہو گا۔ لاکھوں خاندان بے گھر ہو سکتے ہیں، بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو سکتا ہے، اور تعلیمی اور دیگر اہم ترین نظام مفلوج ہو سکتے ہیں۔
دونوں ملکوں کے درمیان جنگ صرف ان تک ہی محدود نہیں رہے گی،بلکہ اس سے پوری دنیا متأثر ہوگی۔دنیا کے بیشتر بڑے ملکوں امریکا، چین، روس، عرب ملکوں، ترکی اور یورپی یونین کے، دونوں ملکوں سے گہرے سیاسی اور معاشی تعلقات ہیںجو سفارتی بحران، معاشی عدم استحکام، اور علاقائی فوجی مداخلت جیسے چیلنجز سے دوچار ہو سکتے ہیں۔ اسی لیے دونوںملکوں کو جلد از جلداپنے تنازعات کو کسی غیر جانبدار ثالثی اورپرامن مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر توجہ دینی چاہئے۔ جس کے ذریعہ سرحدی کشیدگی کم اورجنگ بندی یا امن معاہدوں کے امکانات روشن ہو ں۔اور اس طرح پاکستان کے معاشی مشکلات کم اور اس کی معیشت کو سہارا ملےتو بھارت کی معاشی ترقی کومزید رفتار ۔اورخطہ میں استحکام کے امکانات بڑھیں۔ دونوں کو یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ برصغیر جیسے حساس خطہ میں جنگ کبھی بھی کسی مسئلے کا حل نہیں، دشمنی، جنگی جنون اور بداعتمادی سے صرف تباہی جنم لے گی۔
اس وقت دنیا بہت تیزی سے ترقی اور تعاون کی طرف بڑھ رہی ہے، بھارت اور پاکستان کو اپنے عوام کے بہتر مستقبل کے لیے حالات کو معمول پر لانے کیلئے فوری طور پر،پرامن مذاکرات کو ترجیح دینی چاہیے۔ دونوں ملکوںکے درمیان بڑھتی کشیدگی میںاس وقت اقوام متحدہ سے کوئی توقع رکھنا اسرائیل فلسطین قضیہ اور روس یوکرین تنازعہ میں اس کے اثرات کو دیکھتے ہوئے فضول ہے ، امریکا ، روس اور چین جیسے بڑے ملکوںسےاس لئے توقع نہیں کی جاسکتی کہ امریکہ چین کی علاقائی بالادستی کو چیلنج کرنے کیلئے بھارت کے حقیقی مصالح اور مفاد کو ترجیح دینے کے بجائے اس کوصرف شہ دینے کی پالیسی پر گامزن ہے ، روس خود یوکرین اور یورپی یونین سے برسر پیکار ہے، جبکہ چین کے خود بھارت سے مختلف تنازعات اور پاکستان سےمختلف قسم کی شراکت داریوں کو دیکھتے ہوئے اس پر دوطرفہ اعتماد ناممکن ہے۔
بھارت پاکستان کشیدگی میں جس چیز کو کسی قدر امید کی کرن کہا جا سکتا ہے وہ اس کشیدگی کے بالکل آغاز میں سعودی نائب وزیر خارجہ عادل جبیر کی ہندوستان اور پاکستان آکر دونوں ملکوں کے ذمہ دارروں سے ملاقات اور کشیدگی کم کرنے کے امکانات کا جائزہ لینا ہے ۔ان کا حالیہ سفراس پس منظر میں نہ صرف خطہ کے لیے، بلکہ عالمی امن کے لیے بھی ایک سنگ میل ثابت ہو سکتاہے، سعودی عرب عالمی سیاست میں ہمیشہ سے مفاہمت اور اعتدال کا علمبردار رہا ہے اور سفارت کاری میں اپنی معتدل اور متوازن پالیسیوں کے لیے جانا جاتا ہے ،جو مصالحت کاروں کو نا صرف ہر طرح کی سہولت فراہم کرتا ہے،بلکہ اس کے لئے ہرممکنہ تعاون دینے کے ساتھ کسی طرح کی بےبنیاد اور بیجا بیان بازی سے مکمل پرہیز بھی کرتا ہے۔اور اسی وجہ سے گذشتہ دنوں روس، امریکہ اور یوکرین کے درمیان بھی اس کی ثالثی کو ہر طرف سے داد تحسین حاصل ہوئی۔
خود سعودی عرب نے پچھلےچند سالوں میں وژن 2030 کو عملی جامہ پہنانے کے مقصد سےولی عہد کی جرأتمندانہ اور مؤثر حکمت عملی کے نفاذ کے ذریعہ جس طرح اپنے ہر طرح کےآپسی اختلافات کو ختم کرتے ہوئے امن بحالی کو ترجیح دی وہ قابل تحسین بھی ہے اور قابل تقلید بھی ۔چاہے یمن کی خانہ جنگی ہویاقطر کے ساتھ خلیجی بحران یا ایران کے ساتھ طویل تاریخی کشیدگی، سعودی قیادت نے ہمیشہ تناؤ کم کرنے اور قیام امن کی کوشش کی ۔اور باعزم سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی جرأت مندانہ قیادت اور حکمت عملی سےسعودی عرب نے وژن 2030 کے تحت نہ صرف اپنی اندرونی ترقی پر توجہ دی بلکہ عالمی سفارت کاری میں بھی ایک فعال کردار ادا کیا۔
سعودی عرب کے بھارت اور پاکستان دونوں کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں۔ پاکستان کے لاکھوں محنت کش وہاںکام کر رہے ہیں، جبکہ بھارت توانائی اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں اس کا اہم شراکت دار ہے۔ محمد بن سلمان نے 2019 میں دونوں ممالک کا دورہ کیا اور اپنی تقریروں میں خطے میں امن، ترقی اور باہمی مفاہمت کی اہمیت پر زور دیا۔وہ اسلامی تعاون تنظیم (OIC) میں بھی بھارت کو بطور مبصرمدعو کرچکا ہے۔اگر سعودی عرب بھارت اور پاکستان کے درمیان باقاعدہ ثالثی کا کردار ادا کرنے پر تیار ہوجائے تو دونوں ملک باہمی مذاکرہ سے اپنے اختلافات کم اور موجودہ کشیدگی ختم کر سکتے ہیں۔ لیکن اس کیلئے سب سے پہلے دونوں ممالک کے درمیان سفارتی رابطوں کی بحالی، اس کے بعد مرحلہ وار سرحدی کشیدگی میں کمی، جنگ بندی اور امن معاہدوں کا امکان اورآگے چل کر باہمی تعاون کا ماحول بنانے میں مدد مل سکے گی ،جس سے دونوں ملکوں میں امن و امان، ان کی خوشحالی اورمعاشی مضبوطی کے امکانات بھی بڑھیںگے اوران ملکوں کو عالمی برادری کا اعتماد بھی حاصل ہوگا اورپاکستان کی معاشی حالت میں بہتری ہوگی تو بھارت کی ترقی کی رفتار اور عالمی حیثیت مزید مضبوط ہوگی۔
سعودی عرب کی قیادت، خصوصاً ولی عہد محمد بن سلمان کی امن دوست پالیسیوں اور ثالثی کی کامیاب مثالوں کو دیکھتے ہوئے بھارت اور پاکستان کو اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ محمد بن سلمان کی بصیرت، متوازن حکمت عملی، اور عالمی ساکھ سے ایسا پلیٹ فارم مل سکتا ہے جو برصغیر کو جنگ سے نکال کر ترقی، خوشحالی اور تعاون کی راہ پر گامزن کرے،ایک ایسی راہ دکھائے جو برصغیر کو جنگ کے اندھیروں سے نکال کر ترقی، خوشحالی اور تعاون کی روشنی کی طرف لے جا سکے اور بین الاقوامی برادری کیلئے بھی قابل قبول ہو۔سعودی عرب کی بصیرت افروز قیادت اور عالمی سطح پر اس کی ساکھ اسے اس کردار کے لیے موزوں بناتی ہے۔دونوں کو یہ سمجھنا چاہئے کہ امن ہی وہ واحد راستہ ہے جو ترقی، استحکام اور خوشحالی کی ضمانت دیتا ہے۔اس لئے برصغیر کے ان دونوں پڑوسیوںکو اپنی تاریخی دشمنی کو پس پشت ڈال کر ایک نئے دور کا آغاز کرنا چاہئے، یقینا سعودی عرب اس سفر میں ان کا قابل اعتماد رہنما ثابت ہو سکتا ہے۔
Comments are closed.