سنگھ پریوار کی نظریاتی کشمکش اور ذات پر مبنی مردم شماری

 

ڈاکٹر سلیم خان

سنگھ پریوار کے لیے ریزرویشن کا مسئلہ ’سانپ کے منہ میں چھچھوندر‘ جیسا ہے ۔سانپ چوہا توکھاتا ہے مگر چھچھوندر نہیں کھاتالیکن اگر دھوکےسے وہ چوہے کے بجائے چھچھوندر کا شکار کر لے تو عجیب کشمکش میں مبتلا ہوجاتا ہے یعنی اگر نگل لے تو اندھا اور اگل دے تو کوڑھی ہو جائے۔ ذات پات پر مبنی مردم شماری نے آر ایس ایس کو کسی طرح کی کشمکش میں مبتلا کررکھا ہے ۔ سنگھ کے لیے یہ ایک ایسا کام ہے جسے کرنا مشکل اورچھوڑنا دشوار ہے یعنی’ کہا بھی نہ جائے اور سہا بھی نہ جائے‘ ۔ سر سنگھ چالک موہن بھاگوت 2015میں بہارکے صوبائی الیکشن سے قبل ریزویشن پر نظر ثانی کا ذکر کرکے بی جے پی کی لٹیا ڈوبا چکے ہیں ۔یہ معاملہ وہاں اس قدر نازک ہے کہ بہار میں جب ذات کی بنیاد پر مردم شماری کی تجویز آئی تو ریاستی بی جے پی بھی اس کی مخالفت نہیں کرسکی کیونکہ اقتدار سے چپکے رہنے کے لیے یہ ضروری تھا۔ بی جے پی کااولین ہدف چونکہ ملک میں اقتدار پر قابض رہنا ہے ۔اس لیےڈیڑھ سال قبل خود مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے بہار حکومت کے فیصلے کی حمایت میں برملا کہہ دیا تھاکہ کہہ دیا تھا کہ بی جے پی ذات پر مبنی مردم شماری کی مخالفت نہیں کرتی ۔

امیت شاہ کے بیان سے ثاہر ہوتا ہے کہ بی جے پی میں اقتدار کو نظریہ پر ترجیح دی جاتی ہے مگر آر ایس ایس کا معاملہ پہلے مختلف تھا مگر وقت کے ساتھ وہ بھی بدلنے لگاہے۔یہی وجہ ہے کہ دسمبر 2023میں آر ایس ایس کے سینئر پرچارک اور ودربھ کے سربراہ شری دھر گھاڈگے نے مہاراشٹر کے ارکان اسمبلی کو اپنے صدر دفتر میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ، ’ہمیں اس(ذات پر مبنی مردم شماری) میں کوئی فائدہ نہیں بلکہ نقصان نظر آتا ہے۔ یہ عدم مساوات کی جڑ ہے اور اسے فروغ دینا درست نہیں ہے۔امیت شاہ کے بیان کا حوالہ دے کر گھاڈگے نے کہا تھا کہ سیاسی پارٹیاں کسی بھی معاملے پر اپنا موقف رکھ سکتی ہیں، لیکن آر ایس ایس یہ واضح کرنا چاہتی ہے کہ وہ ذات پر مبنی مردم شماری کی حمایت نہیں کرتی ہے۔انہوں نے کہاتھا، ’آر ایس ایس سماجی مساوات کو فروغ دے رہی ہے۔ ہمارے ملک میں ذات پات کے نام پر پھوٹ اور دراڑپڑتی ہے۔ اگر ذات پات سماج میں عدم مساوات کی جڑ ہے تو آر ایس ایس کا ماننا ہے کہ ذات پر مبنی مردم شماری جیسے اقدامات سے اس میں مزید اضافہ نہیں کیا جانا چاہیے‘۔

اس بات کو محض ایک فرد کی رائے کہہ کر مسترد کرنا مشکل ہے کیونکہ آر ایس ایس کے معروف دانشور اور قومی انتظامیہ کے رکن نیز بی جے پی کے سابق عہدیدار رام مادھو نے بھی بہار جیسی ریاستوں میں اپوزیشن حکومتوں کو خبردار کیا تھا کہ ذات پر مبنی مردم شماری سے ملک میں سماجی بد امنی پھیل سکتی ہے۔ سنگھ کا مزاج اقتدار کے آگے سرِ تسلیم خم کرنے کا رہا ہے۔ اس لیے انگریزوں اور کانگریس کے سامنے دُم ہلانے والے سنگھ پریوار کو خود اپنے ہی لوگوں کی ناز برداری میں کیا دقت ہوسکتی ہے؟ ایک زمانے میں جب جن سنگھ یا بی جے پی آر ایس ایس کی مرہونِ منت تو وہ اس کے چشمِ ابرو پر سہم جاتی تھی مگر اب وقت بدل گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ڈیمیج کنٹرول کی خاطرتنظیم کی نشرو اشاعت کے سربراہ سنیل امبیکر کو آگے کیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس کسی بھی قسم کے امتیازی سلوک اور عدم مساوات سے پاک ہندو معاشرے کی تشکیل کے اپنے مقصد کے لیے مسلسل کام کر رہی ہے ۔

آر ایس ایس کے اکھل بھارتیہ پرچار پرمکھ سنیل آمبیکر نے کیرالہ کے پالکڑ میں اس حقیقت کو تسلیم کیا تھاکہ ، ’مختلف تاریخی وجوہات سے سماج کے بہت سے طبقے معاشی، سماجی اور تعلیمی نقطہ نظر سے محروم رہ گئے ہیں۔ ان کی ترقی کے لیے حکومتیں وقتاً فوقتاً مختلف اسکیمیں بناتی ہیں اور آر ایس ایس نے ہمیشہ اس کی حمایت کی ہے۔‘ اس تمہید کے بعد وہ بولے کہ ’’آر ایس ایس کی رائے ہے کہ ذات پر مبنی مردم شماری کو سماج کی ترقی کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے اور تمام جماعتوں کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ اس سے سماجی ہم آہنگی اور اتحاد کو نقصان نہ پہنچے‘‘۔انہوں نے کہا تھا کہ سنگھ کو ذات پر مبنی مردم شماری پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن اس ڈیٹا کو عوام کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیا جائے۔ اس کو سیاسی ہتھیار کے طور پر انتخابی فوائد کا آلۂ کار نہ بنایا جائے۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی اس نصیحت نے کانگریس کر مشتعل کردیاکہ ذات پرمبنی مردم شماری کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال نہیں کیا جائے ۔

کانگریس کے جنرل سکریٹری جئے رام رمیش نے سنگھ رہنما امبیکر کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے جو پانچ سوال کیے تھے وہ آج پھر پوچھے جانے چاہییں۔ مثلاً کیا آر ایس ایس کے پاس ذات پر مبنی مردم شماری پر ویٹو کا اختیار ہے؟ آر ایس ایس کون ہے جو ذات پات کی مردم شماری کی اجازت دے؟ آر ایس ایس جب کہتی ہے کہ انتخابی مہم کے لیے ذات پر مبنی مردم شماری کا غلط استعمال نہیں ہونا چاہیےتو اس سے کیا مراد ہے؟ کیا یہ جج یا ایمپائر بننا نہیں ہے؟ آر ایس ایس نے دلتوں، آدیواسیوں اور او بی سی کے ریزرویشن پر 50 فیصد کی حد کو ہٹانے کے لیے آئینی ترمیم کے مطالبے پر پراسرار خاموشی کیوں اختیار کر رکھی ہے؟ انہوں نے سوال کیا تھا کہ، ” اب جب کہ آر ایس ایس نے ہری جھنڈی دکھا دی ہے، تو کیا غیر حیاتیاتی وزیر اعظم کانگریس کی ایک اور ضمانت کو ہائی جیک کرکے اور ذات پر مبنی مردم شماری کریں گے؟ اس آخری سوال کا جواب اس وقت تو نہیں مگر اب مل گیا ۔ مرتا کیا نہ کرتا کی مصداق کل تک اسے مہا پاپ کہنے والے آخر اس گناہ کا ارتکاب کرہی دیا ۔

کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے نے بھی نہایت سخت الفاظ میں آر ایس ایس کو گھیرتے ہوئے سوال کیا تھا کہ اسے ملک کو واضح طور پر بتانا چاہئے کہ وہ ذات پر مبنی مردم شماری کے حق میں ہے یا اس کے خلاف ہے۔ کھڑگے نے نہایت لطیف طنز کستے ہوئے پوچھا تھاکہ، ’’قومی آئین کے بجائے منو اسمرتی کے حق میں رہنے والا سنگھ پریوار دلتوں، قبائلیوں، پسماندہ طبقات، غریبوں اور محروم طبقہ کی شمولیت کو لے کر فکر مند ہے یا نہیں؟‘‘ کانگریس کے ایک دلت صدر کا یہ الزام حق بجانب تھا کہ ،’بی جے پی کو چلانے والی آر ایس ایس ہمیشہ ذات پر مبنی مردم شماری کے خلاف رہی ہے۔ اس پر آر ایس ایس اور بی جے پی کا واضح موقف ہےکہ دلتوں اور پسماندہ لوگوں کو ان کے حقوق کسی بھی قیمت پر نہیں ملنے چاہئیں ۔ اس نفرت انگیز سوچ کی وجہ سے پچھلے 100 سالوں میں آر ایس ایس کا ایک بھی صدر دلت یا پسماندہ طبقے سے نہیں بن سکا ہے۔‘ کھرگے نے بتایا تھا کہ تلنگانہ میں کانگریس نے مذکورہ مردم شماری کا فیصلہ کرکےاپنی سنجیدگی کا ثبوت دیا ہے۔

ذات پر مبنی شماری کے معاملے میں بی جے پی ڈُھل مل رہی ہے۔ ونجارہ سماج کے سابق بی جے پی رکن پارلیمان گوپی ناتھ منڈے نے 2010 میں ذات پر مبنی مردم شماری کی وکالت کی تھی۔انھوں نے بڑی شد ومد کے ساتھ اوبی سی کو سماجی انصاف دلانے کے لیے مذکورہ مردم شماری کی خاطر آواز اٹھائی تھی ۔ 2018 میں سابق وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے یہ عندیہ دیا تھا کہ 2021 کی مردم شماری میں او بی سی کی تفصیلات جمع کی جائیں گی لیکن مرکزی حکومت نےوہ وعدہ وفا کرنے کے بجائے اپوزیشن کے مطالبات کو سرد بستے میں ڈال دیا۔ مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ نیتانند رائے نے 20 جولائی 2021 کو ایوانِ پارلیمان میں اعتراف کیا تھا کہ مرکزی حکومت نے درج فہرست ذاتوں اور قبائل کے علاوہ دیگر ذاتوں کی گنتی کا کوئی حکم نہیں دیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خود بی جے پی اس گاجر کو انتخابی فائدے کی خاطر لٹکائے تورکھتی ہے مگر کھانے نہیں دیتی۔

آر ایس ایس کے لیے ذات پرمبنی مردم شماری ایک بڑا نظریاتی مسئلہ ہو سکتی ہے مگر نریندر مودی کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ وہ اپنے آپ کو سنگھ پریوار کو نہیں بلکہ متحدہ قومی محاذ (این ڈی اے) کا وزیر اعظم کہتے ہیں۔ اس محاذ کا کوئی نظریہ نہیں ہے۔ اس کی غرض و غایت اقتدار پر فائز رہ کر عیش کرنے کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔ مودی جی کے اندر بھی اب وہی قومی محاذ کی روح سرائیت کرچکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلگام سانحہ کے بعد جب پورا ملک جنگ جنگ کررہا تھا تو وزیر اعظم اچانک بیروزگار میلے میں پہنچ گئے ۔ ان کو محسوس ہوا ہوگا کہ اس سے بات نہیں بنے گی تو ذات پر مبنی مردم شماری کا اعلان کرکے یہ بتا دیا کہ ان کے نزدیک پہلگام سے زیادہ اہمیت کا حامل بہار کا انتخاب ہے اور اس کی خاطر آریس ایس کے نظریات کو بلی کا بکرا بنایا جاسکتا ہے ۔ مردم شماری کے اعلان کا کریڈٹ میڈیا نے راہل گاندھی کو دینا شروع کیا تو تو بلا اعلان جنگ کے میدان میں کود پڑے اور اسے روکنے کی ذمہ داری امریکہ کو سونپ کر عالمی استعمار کی غلامی کا طوق گلے میں ڈال لیا۔ اس طرح100 سال بعد سنگھ پریوار نے برطانیہ کے بجائے امریکہ کو اپنا آقا بنالیا ۔

Comments are closed.