خواہشات کا قافلہ، حقیقت کی مسافت

مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)
"اَلۡهٰكُمُ التَّكَاثُرُ، حَتّٰى زُرۡتُمُ الۡمَقَابِرَ”۔ (التکاثر: 1-2)
تمہیں مال و دولت کی حرص نے غفلت میں ڈال دیا، یہاں تک کہ تم قبروں تک جا پہنچے۔
اللّٰہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا، اور اسے عقل، ارادہ اور اختیار عطا کیا تاکہ وہ خیر و شر میں تمیز کر کے اپنی راہ کا انتخاب کرے۔ قرآنِ مجید میں اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے: "وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ” (الذاریات: 56) — یعنی انسان کی تخلیق کا بنیادی مقصد صرف عبادت ہے، نہ کہ دنیاوی لذتوں کا لا متناہی پیچھا۔ مگر انسان جب اپنی اصل کو فراموش کر کے خواہشات کی غلامی میں مبتلا ہو جاتا ہے، تو وہ اس مقام سے گر جاتا ہے جو اسے اللّٰہ نے عطا کیا تھا۔
حدیث مبارکہ ہے: "اگر ابنِ آدم کے پاس سونے کی ایک وادی ہو تو وہ دوسری کا خواہشمند ہوگا، اور اس کے منہ کو صرف مٹی ہی بھرے گی۔” (صحیح بخاری)۔ یہ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ خواہشات کا تعاقب ایک نہ ختم ہونے والا سفر ہے، جو انسان کو اس کے اصل مقصدِ حیات سے دور کر دیتا ہے۔ اسلامی تعلیمات ہمیں زندگی کی حقیقت کا ادراک کراتی ہیں۔ قرآن ہمیں بار بار خبردار کرتا ہے کہ دنیا کی زیب و زینت ایک دھوکہ ہے: "وَمَا ٱلۡحَيَوٰةُ ٱلدُّنۡيَآ إِلَّا مَتَٰعُ ٱلۡغُرُورِ”۔ (الحدید: 20)۔ "اور دنیا کی زندگی تو ایک دھوکہ دینے والا سامان ہے”۔
ان آیات کی روشنی میں جب ہم انسانی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ خواہشات کی اندھی دوڑ انسان کو اس کے مقصدِ تخلیق سے دور کر دیتی ہے۔ انسان، جسے اللّٰہ تعالیٰ نے "اشرف المخلوقات” کا درجہ عطا فرمایا، اگر صرف دنیا کی ظاہری چمک میں کھو جائے، تو وہ اپنے ربّ کی طرف لوٹنے کا راستہ بھول جاتا ہے۔ یہ تحریر اسی بھولی ہوئی حقیقت کی یاددہانی ہے— کہ انسان کی اصل کامیابی اس کے مال، عہدے یا شہرت میں نہیں، بلکہ اس کے شعور، قناعت، شکر گزاری اور اپنے خالق سے تعلق میں پنہاں ہے۔
انسان، مٹی سے بنا ایک ایسا پُتلا ہے، جو خوابوں کی سر زمین میں پلتا ہے، تمناؤں کی چادر اوڑھ کر جیتا ہے، اور امیدوں کے سہارے اپنی زندگی کے سفر پر گامزن ہوتا ہے۔ اس کی آنکھ کھلتی ہے تو دنیا کی چمک دمک اسے اپنی طرف کھینچتی ہے، اور وہ بغیر سوچے سمجھے اس دوڑ میں شامل ہو جاتا ہے جس کی کوئی منزل نہیں۔ وہ ایک ایسی راہ پر چل نکلتا ہے جہاں ہر موڑ پر ایک نئی خواہش، ایک نیا لالچ، ایک نیا فریب اس کا منتظر ہوتا ہے۔
خواہشات کی یہ زنجیریں رفتہ رفتہ اس کے دل و دماغ کو جکڑ لیتی ہیں۔ کوئی خوش نصیب ہے جسے سب کچھ بغیر مانگے مل جاتا ہے، اور کوئی ایسا بھی ہے جو ساری زندگی آنکھوں پر خواہشات کی سیاہ پٹی باندھے، ان کو پانے کی لگن میں اپنا سکون، اپنی عزّت، حتیٰ کہ اپنی انسانیت تک قربان کر دیتا ہے۔ وہ زندگی کی بھیڑ میں کچلا جاتا ہے، مگر رکتا نہیں، سنبھلتا نہیں، بس دوڑتا رہتا ہے، اس آس میں کہ شاید اگلا قدم اسے منزل تک لے جائے گا۔ جب کچھ حاصل کر لیتا ہے، تو کچھ اور کی طلب جنم لیتی ہے۔ اور جب کچھ نہ پا سکے، تو پچھتاوے اور حسرتیں دل میں پلنے لگتی ہیں۔ انسان خواہشات کے اس سمندر میں اتنا ڈوب جاتا ہے کہ اسے یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ وہ آیا کیوں تھا، اور جانا کہاں ہے۔
پھر ایک دن، جب یہ سب شور تھم جاتا ہے، جب دنیا کی محفل سے بلاوا آتا ہے، تو وہ اچانک چونک اٹھتا ہے۔ آنکھ کھلتی ہے اور ایک انجانی حیرت میں ڈوبا ہوا خود سے سوال کرتا ہے: "اوہ! یہ میں کہاں آ گیا؟ یہ تو کبھی سوچا ہی نہیں تھا…”۔ وہ دنیا جہاں اس نے دولت، شہرت، رتبہ اور عیش کے انبار لگائے تھے، اب اس سے کوسوں دور دکھائی دیتی ہے۔ وہ سب کمایا ہوا، سب محنت، سب تگ و دو، پل بھر میں ایک سراب معلوم ہوتی ہے۔
اس لمحے، اس کا ذہن مفلوج ہو جاتا ہے۔ احساسات کی گرد میں لپٹا ہوا وہ شخص سمجھنے لگتا ہے کہ وہ تو محض ایک مٹی کا پتلا تھا — ایک فانی وجود، جس نے ناپائیدار خواہشات کی چمک میں اپنے اصل کو فراموش کر دیا۔ جیسے ہی انسان اس دنیا میں قدم رکھتا ہے، زندگی کے سفر کا آغاز ہو جاتا ہے۔ یہ سفر ایک امانت ہے، نہ کہ ایک کھیل۔ لیکن افسوس کہ وہ اکثر اس امانت کو خواہشات کے بوجھ تلے دفن کر دیتا ہے۔ اور تب جا کر وہ جان پاتا ہے کہ اصل کامیابی کسی چیز کے حاصل ہونے میں نہیں، بلکہ اس کے چھوڑ دینے میں ہے — کہ اصل زندگی، دنیا کی دوڑ سے نکل کر اندر کی سکونت میں ہے۔
جب ایک ننھا سا وجود اس دنیا میں آنکھ کھولتا ہے، تو وہ معصومیت کی چادر میں لپٹا ہوتا ہے۔ اس کی آنکھوں میں کوئی لالچ، کوئی تمنا نہیں ہوتی، بس ایک خاموش حیرت اور نرمی ہوتی ہے۔ مگر جیسے جیسے وہ وقت کے ساتھ ساتھ ہوش کی سیڑھیاں چڑھتا ہے، دنیا کی رنگینیاں اسے اپنی جانب مائل کرنے لگتی ہیں۔ روشنیوں کی چکاچوند، آسائشوں کی کشش، دوسروں کی کامیابیاں— سب مل کر اس کے اندر نئی نئی خواہشات کو جنم دیتی ہیں۔ یہ خواہشات، جو ابتداء میں محض معصوم آرزوئیں ہوتی ہیں، وقت کے ساتھ خواب بن جاتی ہیں، اور خوابوں کی تعبیر کے لیے وہ دوڑ میں شامل ہو جاتا ہے۔ وہ محنت کرتا ہے، سیکھتا ہے، گرتا ہے، سنبھلتا ہے، مگر رکنے کا نام نہیں لیتا۔ زندگی اسے مختلف راستوں، کٹھن موڑوں اور آزمائشوں سے گزارتی ہے۔ بعض اوقات ایسا لگتا ہے جیسے منزل بہت دور ہے، یا شاید کہیں کھو گئی ہے۔ وہ تھک جاتا ہے، دل شکستہ ہو جاتا ہے، حتیٰ کہ کبھی کبھی زندگی سے ہی نالاں ہو جاتا ہے۔
مگر یہ وہ مقام ہوتا ہے جہاں انسان کے اندر کا اصل امتحان شروع ہوتا ہے۔ کیا وہ ہار مان لے گا؟ یا وہ صبر، حوصلہ اور یقین کا دامن تھام کر آگے بڑھے گا؟ اگر وہ خدا پر بھروسا کرے، تو کڑی سے کڑی گھڑی بھی راحت میں بدل سکتی ہے۔ مشکلات تو آتی ہیں، مگر ان کے پیچھے چھپی حکمتیں صرف وہی دیکھ سکتا ہے جو صبر کی نگاہ رکھتا ہو۔ انسان کے پاس اگر غور کرے تو ہر طرح کی نعمتیں موجود ہیں— صحت، عقل، وقت، رشتے، سکون، اور بہت کچھ۔ مگر زندگی کی سب سے بڑی ستم ظریفی یہی ہے کہ انسان ان نعمتوں کو دیکھنے سے قاصر رہتا ہے۔ وہ ہمیشہ اس چیز کی خواہش کرتا ہے جو اس کے پاس نہیں، اور جو ہے، اس کی قدر کھو بیٹھتا ہے۔ اس کی نظریں ہمیشہ بلند چھتوں اور چمکتے محلوں پر لگی رہتی ہیں، مگر اس چھت کی اہمیت بھول جاتا ہے جو اسے بارش سے بچا رہی ہے۔
اگر انسان کبھی رک کر، ایک لمحے کے لیے نیچے دیکھے— اُن چہروں کی طرف جو دو وقت کی روٹی کو ترستے ہیں، جو سایہ تلاش کرتے ہیں، جن کی زندگی میں امید کی کوئی کرن نہیں— تو اُسے اپنے حال پر نہ صرف شکر آ جائے گا، بلکہ وہ اپنی شکایتوں پر شرمندہ بھی ہو گا۔ یقیناً محنت کا پھل ضرور ملتا ہے۔ کامیابی انھی لوگوں کا مقدر بنتی ہے جو راتوں کی نیند قربان کرتے ہیں، جو تھکن کے باوجود ہار نہیں مانتے۔ مگر اس محنت کی راہ میں شکر گزاری کا چراغ جلانا نہایت ضروری ہے۔ کیوں کہ اگر ہم ہر قدم پر شکر نہ کریں، تو حاصل ہونے والی کامیابی بھی ہمیں ادھوری لگے گی۔ زندگی کا اصل حسن توازن میں ہے— خواہش اور قناعت کے درمیان، جدوجہد اور سکون کے درمیان، اور امید اور شکر کے درمیان۔ جو یہ توازن سیکھ گیا، وہی درحقیقت کامیاب ہوا۔
جدید ٹیکنالوجی کی چمکتی دنیا نے انسان کے دل میں چھپی خواہشات کی آگ کو گویا اور بھڑکا دیا ہے۔ اب نہ صرف روٹی، کپڑا اور مکان بنیادی ضروریات رہے، بلکہ ہر ہاتھ میں چمکتا اسمارٹ فون، ہر کمرے میں چمکتی سکرین، اور ہر لمحہ نئے خوابوں کی کھڑکی بن چکا ہے۔ انسان اب صرف جینا نہیں چاہتا، بلکہ وہ زندگی کو اپنے بنائے ہوئے سانچے میں ڈھالنا چاہتا ہے — ایک ایسا سانچہ جو آسائشوں، سہولتوں، اور ظاہری کامیابیوں سے بھرا ہوا ہو۔ ہر شخص اپنی زندگی میں خواہشات کا ایک قافلہ لیے پھرتا ہے۔ ان خواہشات کو پورا کرنے کی دوڑ میں وہ نہ صرف اپنی نیندیں قربان کرتا ہے، بلکہ اپنے "حال” کو بھی نظر انداز کر دیتا ہے۔ وہ لمحہ جو جینے کے قابل ہوتا ہے، وہ اسی لمحے کو کل کے خوابوں کی بھینٹ چڑھا دیتا ہے۔
عجیب بات یہ ہے کہ ہم سب جانتے ہیں کہ زندگی کتنی غیر یقینی ہے۔ ہم میں سے کسی کو یہ تک نہیں معلوم کہ اگلا لمحہ ہمارا ہم سفر بنے گا یا نہیں، لیکن اس کے باوجود ہم آنے والے برسوں کی آرائش کے خوابوں میں گم رہتے ہیں۔ ہم وہ محل بناتے رہتے ہیں جو ریت کی دیواروں پر کھڑے کیے جاتے ہیں، اور جب وقت کی لہر آ کر انہیں گرا دیتی ہے تو ہم شکوہ کناں ہو جاتے ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ خواب دیکھنا جرم نہیں، بلکہ انسانی فطرت ہے — لیکن خوابوں کو حقیقت کی زمین پر اگانے کے لیے صبر، شعور، اور قناعت کے بیج بونا پڑتے ہیں۔ ہمیں اپنی حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا، کیونکہ جو انسان اپنی حقیقت سے منہ موڑتا ہے، وہ ہمیشہ بے سکونی کی دلدل میں پھنسا رہتا ہے۔
زندگی کا حسن صرف کامیابی کے جھنڈے گاڑنے میں نہیں، بلکہ راستے کے سنگ ریزوں کو چوم کر گزرنے میں ہے۔ اگر ہم سکون چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی سوچ بدلنی ہوگی، کیونکہ زندگی سوچ سے بدلتی ہے، صرف باتوں سے نہیں۔ تبدیلی کا آغاز دوسروں سے نہیں، بلکہ خود سے ہوتا ہے۔ ہمیں سیکھنا ہوگا کہ اپنی موجودہ حالت پر شکر ادا کرتے ہوئے بھی بلند خواب دیکھے جا سکتے ہیں۔ خواب وہی کامیاب ہوتے ہیں جو حقیقت کے آئینے میں سنوارے جائیں، اور سوچ وہی نتیجہ خیز ہوتی ہے جو عمل کا لبادہ اوڑھ لے۔ پس، زندگی کے اس شور میں اگر کچھ پانے کی تمنا ہو، تو سب سے پہلے خود کو پا لینا سیکھو۔ کیوں کہ جو انسان خود کو پہچان لے، وہ دنیا کی ہر کامیابی کا رخ موڑ سکتا ہے۔
اسلام انسان کی فطرت کو تسلیم کرتا ہے اور اس کی خواہشات کو ناجائز نہیں قرار دیتا، بلکہ انہیں ایک حد، ایک مقصد، اور ایک اخلاقی دائرے میں رکھنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اسلام ہمیں یاد دلاتا ہے کہ یہ دنیا مسافر خانہ ہے، نہ کہ مستقل قیام گاہ۔ یہاں کی آسائشیں، کامیابیاں، اور خواہشات وقتی ہیں، اور ان کے پیچھے اندھا دھند بھاگنے والا انسان نہ صرف اپنی آخرت کو کھو دیتا ہے، بلکہ دنیا کا سکون بھی گنوا بیٹھتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَسْلَمَ، وَرُزِقَ كَفَافًا، وَقَنَّعَهُ اللَّهُ بِمَا آتَاهُ”۔ (کامیاب وہ ہے جو اسلام لایا، اسے ضروریاتِ زندگی میسر آئیں، اور اللّٰہ نے اسے جو دیا اس پر قناعت عطا فرمائی) — [صحیح مسلم]
اسلام ہمیں خواہشات کو قابو میں رکھتے ہوئے محنت، قناعت اور شکر گزاری کے ساتھ جینے کی تلقین کرتا ہے۔ زندگی کی اصل کامیابی دنیا میں کمائی ہوئی مال و دولت میں نہیں، بلکہ رضائے الٰہی کے حصول میں ہے۔ ہر وہ خواہش جو انسان کو اللّٰہ سے دور کرے، وہ دراصل آزمائش ہے، اور ہر وہ خواہش جو اسے اللّٰہ کے قریب لے آئے، وہ عبادت بن جاتی ہے۔ لہٰذا اگر ہم اپنی خواہشات کو دین کے آئینے میں پرکھیں، اور اپنی زندگی کو قرآن و سنّت کی روشنی میں ڈھالیں، تو نہ صرف ہمیں دنیا کا سکون نصیب ہوگا بلکہ آخرت کی کامیابی بھی ہمارے قدم چومے گی۔ اصل دولت وہی ہے جو دل کو قناعت عطا کرے، اور اصل کامیابی وہی ہے جو ربّ کی رضا کا سبب بنے۔
Comments are closed.