مدارس سے باصلاحیت افراد کیسے مل سکتے ہیں ؟

 

مولانا محمد قمر الزماں ندوی

مدرسہ نور الاسلام موئی کلاں کنڈہ پرتاپگڑھ

موبائل نمبر 9506600725

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج کل مدارس اسلامیہ کے بارے میں عام احساس یہی ہے کہ مدارس دینیہ میں تعلیم پانے والی بڑی تعداد،علوم اسلامیہ اور مقررہ نصابی کتابوں میں مہارت و لیاقت پیدا نہیں کر پاتی۔ اعلیٰ صلاحیت ولیاقت اور استعداد و قابلیت تو دور کی بات ہے، ادنی مناسبت بھی ان علوم و فنون سے نہیں ہو پاتی، اور کہنے والے تو یہاں تک کہنے لگے ہیں کہ مدارس دینیہ کی کوکھیں اب بانجھ پن کا شکار ہو گئی ہیں۔ اس جملہ کو ہم مبالغہ پر محمول کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ آج مدارس دینیہ جو دین کے قلعے ہیں وہاں انتظامیہ اور ارباب اہتمام مدارس سے وابستہ ہونے والوں کی دماغی کیفیت اور فطری لیاقت کا جائزہ لیے بغیر، سب کے ساتھ یکساں سلوک کر رہے ہیں، جس کا ناخوشگوار نتیجہ ہم کھلی انکھوں سے دیکھ رہے ہیں، کہ ان کے وسائل قربانیوں اور مجاہدات کا ایک بڑا حصہ ضائع اور بیکار ہو رہا ہے،اس سلسلے میں غور و فکر کرکے ایک مضبوط، مستحکم اور مفید و موثر نصاب اور نظام تعلیم مرتب کرنا اور اس کا خاکہ مرتب کرکے اس کو نافذ کرنا آج وقت کی بڑی ضرورت ہے۔

اس سلسلے میں راقم السطور کے پاس اساطین علماء کرام اور دانشوران ملت کی کچھ مفید آراء ، قیمتی تحریریں، اہم خاکے اور منصوبے ہیں ، جو ہم آپ کی خدمت میں وقفے وقفے سے پیش کریں گے، اس امید کے ساتھ کہ آپ حضرات بھی ان تحریروں کو غور و فکر کے ساتھ پڑھیں گے، اور اس کے نفاذ کی کوشش اپنے اپنے اداروں میں حتی الوسیع کریں گے ۔

آج آپ کی خدمت میں حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی رح کی اس موضوع پر ایک انتہائی مفید اور جامع تحریر پیش کر رہے ہیں۔

حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی جو کہ بلا شبہ مدرسہ کے حوالہ سے ٫٫ *صاحب البیت ادریٰ بما فیہ،،* کے مصداق ہیں۔

مولانا کی یہ تحریر اس موضوع پر ہم حرف آخر تو نہیں کہہ سکتے، لیکن اتنا ضرور ہے کہ اب تک اس سلسلے میں میری نظر سے جو تحریریں گزری ہیں، ان میں سب سے زیادہ مفید اور جامع تحریر اور قیمتی رائے ہے ،نیز تسلی بخش حل ہے۔ ضرورت ہے کہ مدارس کے ذمہ داران اس تسلی بخش حل پر غور کریں اور اس تجویز اور نظام تعلیم پر عمل کرکے مدارس کی افادیت کو دو بالا کریں، اگر اس پر عمل ہو جائے تو مدارس دینیہ سے معاشرے کو باصلاحیت افراد آسانی سے مل سکتے ہیں اور امت مسلمہ کو ہر میدان میں افراد اور رجال کار میسر ہوجائیں۔ مولانا محترم کی بیش قیمت اور گراں قدر تحریر ملاحظہ کیجیے :-

 

مولانا تحریر فرماتے ہیں:- ٫٫اگر ہم ان تنقیدوں کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیں تو مدارس کے تعلیمی تدریسی طریقۂ کار میں کچھ اصلاحات ناگزیر ہیں۔ اصولی طور پر ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ ایک ہی نصاب تمام طلباء کو پڑھانا نافع ومفید نہیں ہے، کیونکہ مکمل عربی نصاب کی تدریس کے لائق جو طلبہ مدارس کا رخ کرتے ہیں ،ان میں بمشکل سات سے دس فیصد ایسے طلبہ پائے جاتے ہیں کہ اگر ان کو اساتذہ کی توجہ و عنایت حاصل ہو، تو وہ آج بھی دیدہ ور ہوکر زمانہ کے چیلنج کو قبول کر سکتے ہیں۔ یہ طلبہ ذہین ہونے کے ساتھ علوم اسلامیہ کی طرف طبعی رجحان رکھتے ہیں۔ مدارس میں پڑھنا ان کی اپنی پسند اور ترجیح ہوتی ہے، وہ کسی دباؤ میں آکر مدرسہ کا رخ نہیں کرتے۔ اس لئے ارباب مدارس ایسے طلبہ کی دریافت و شناخت کریں، اور ان کو سرمایہ سمجھیں، ان کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دیں، ان کے لیے وسائل علم مہیا کریں، ان کی صلاحیتوں کو پروان چڑھائیں، محنت و جفا کشی کی بھٹی پر تپائیں، کندن بنائیں، ان میں سے مفسر، محدث، فقیہ، ادیب، خطیب، متکلم ،سیرت نگار اور علوم اسلامیہ کے ہر فن کے حاذق وماہر پیدا ہونگے ۔ جو دعوت و عزیمت کے میدان میں کارہائے نمایاں انجام دیں گے۔ ملت اسلامیہ ہند کی آبیاری کے لیے ہراول دستہ ثابت ہوں گے اور بحیثیت جماعت تجدیدی کارنامے انجام دیں گے، *لیظہروا علی الدین کلہ* کی عملی تفسیر بنیں گے۔

طلباء کی دوسری قسم مدارس میں وہ ہے جو ذہین و فطین تو ہے۔

لیکن مدارس میں پڑھنا ان کا اپنا فیصلہ نہیں ہوتا، بلکہ والدین اور سرپرستوں کا دینی ذوق انہیں دین پڑھنے پر مجبور کرتا ہے، اور وہ مدارس کی زندگی دباؤ میں رہ کر گزارتے ہیں، تجزیاتی مطالعہ کے مطابق ایسے طلباء کی تعداد ۲۵سے ۳۰ فیصد پائی جاتی ہے۔ ان طلباء کو مدارس کا مکمل نصاب پڑھانا ان کے اوپر بوجھ مسلط کرنا اور ان کے وقت کو ضائع کرنا ہے۔ ان کے لئے ایک مختصر عربی نصاب چار سالہ تیار کیا جائے، تاکہ کم وقت میں ان طلباء کی فکری تربیت کے ساتھ علوم اسلامیہ سے یک گونہ مناسبت پیدا کی جا سکے، جس سے ان کی آئندہ زندگی پر دین کی چھاپ ہو اور وہ چاہیں تو اپنے طبعی ذوق کے مطابق علوم عصریہ کے تکمیل یونیورسٹیوں میں کر سکیں، یا طبیب و ڈاکٹر بن سکیں، البتہ اس طبقہ کے اندر دعوتی روح پھونکی جائے تاکہ معاشرہ کی اصلاح میں اہم رول ادا کر سکے۔

 

مدارس کے طالباء کی تیسری بڑی تعداد ایسی ہوتی ہے، جو نہ ذہین ہوتی ہے نہ اس کے اندر علوم حاصل کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ معاشی مجبوری، والدین کی خواہش، معاشرہ کے دباؤ میں آکر مدارس کا رخ مقصد سے بے نیاز ہو کر کرتی ہے، اور یہ تعداد ۵۰ سے ۶۰ فیصد تک پہونچ جاتی ہے۔ ان طلباء کو مدارس کا مکمل نصاب پڑھانا وسائل کا ضائع کرنا اور دینی علوم کے اعتبار کو کم کرنا ہے۔ کیونکہ باوجود کوشش کے ان طلباء کا نصابی کتب سمجھنا اور کچھ حاصل کرنا ناممکن ہے، یہ طلباء رعایتی نمبروں سے ترقی کرتے کرتے فارغ ہو جاتے ہیں اور سند فراغت کا استحقاق بغیر حق کے پیدا کر لیتے ہیں، لیکن عملی زندگی میں علم سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہو پاتا ہے۔ لوگ انہیں عالم سمجھ کر ان سے مسائل کا حل چاہتے ہیں، تو یہ دامن بچاتے ہیں یا غلط رہنمائی کرتے ہیں اور بجائے نیک نامی کے بدنامی کا ذریعہ بنتے ہیں، ایسے طلباء کے لیے ہلکا آسان اور چست نصاب اردو میں تیار کیا جائے جس میں قرآن کریم کی تصحیح اور حفظ، عام مسائل دین، تاریخ اسلام، حساب، انگریزی اور اردو زبان کی تعلیم کا نظام ہو، مزید مختلف محاضرات کے ذریعے ان کی فکری تربیت کی جائے، تاکہ یہ علاقائی مکاتب، قصبات اور ان کے مضافات کی مساجد میں موذن و امامت اور تدریس کے فرائض انجام دے سکیں۔ نہ ان کا وقت ضائع ہو اور نہ مدارس کے وسائل کا غلط استعمال ہو اور نہ لوگ ان کے بارے میں غلط فہمی کے شکار ہوں۔ ہمارے علم کے مطابق کہیں کہیں اس طرز کا اردو نصاب شروع بھی ہو چکا ہے۔ اگر اس طرز تعلیم کو رائج کریں تو ہر سال علماء کی ایک ایسی جماعت خواہ مختصر ہی کیوں نہ ہو پیدا ہوگی ،جو علوم دینیہ میں راسخ، نبوی اخلاق و کردار کی آئینہ دار، حکمت و موعظت کا مثالی نمونہ، امت کے لیے مثل باران رحمت ثابت ہوگی، جو دلوں کو تڑپانے، روحوں کو گرمانے، دماغوں کو علمی تابناکیوں سے منور کرنے میں علماء کبار اور اسلاف کی یاد تازہ کرے گی۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

*ترتیب پیشکش*

*حافظ محمد آفاق عادل*

Comments are closed.