تجدیدوتفکیر کاوسیع مفہوم اوراس کی عصری معنویت وضرورت

 

مفتی احمدنادرالقاسمی

اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا

 

تجدید کااصطلاحی مفہوم:

”تجدید فکری ودینی اصلاح۔اوراسلامی اتحاد کی طرف دعوت دینے، مختلف اسلامی گروہوں کو آپس میں {مشترکہ ملی مفاد میں} جوڑنے، علمی ماحول میں اسلام کے ذریعہ یورپی اورمغربی سماج کامقابلہ کرنے، دین اورسائنس کے درمیان تطبیق پیداکرنے، عصری دینی مسائل کےحل کےلئے حقیقی اجتہاد کادروازہ کھولنے اورافراد کی اخلاقی تربیت کے کام کوعام کرنے، مسائل شرعیہ کی تطبیق وتنقیح کرنے، مسلمانوں کے عقائدکی درستگی کے لئے سماج میں پائی جانے والی بدعات وخرافات اور دین میں ہواپرستی اوربغیردلیل کے دینی معاملات میں رائے زنی کے رجحان کو ختم کرنےاورشریعت کودوبارہ اسی طرح سمجھنے جیسے صحابہ کرام اورسلف صالحین نے سمجھاتھا کی عملی اورعلمی جدوجہد کرنے کانام ہے۔“۔{ماخوذ حشوواضافہ کے ساتھ۔از کتاب الیقظۃ الاسلامیۃ فی مواجھۃ۔الاستعمار منذ ظھورھا الی اوائل الحرب العالمیۃ الاولی۔انورجندی۔صفحہ۔٥٠۔٥٥۔١١١۔پہلاایڈیشن۔دارالاعتصام قاہرہ۔مصر۔١٩٧٨}۔ اس کی روشنی میں یہ کہاجاسکتاہے کہ ”ماضی کے علمی اورثقافتی ورثہ اورروایات پر حالات کے تناظر میں غوروفکر اوراس پر اصولی اضافہ کےفلسفہ کانام تجدید ہے“۔

تجدیدی عمل کے تسلسل کے دلائل :

قران کریم میں اس عمل کے جواز کے مندجہ ذیل دلائل ہیں: ١۔قران کی وہ آیات جن مین انسان کو غور وفکر کرنے کی دعوت دی گئی ہے اوراس پر ابھاراگیاہے۔اس کی ماہیت اور حقیقت میں جہاں توحیدورسالت کے اقراراوراثبات کو مدلل کیاگیاہے۔وہیں اس کے تسلسل کوبھی بیان کیاگیاہے۔کہ یہ عمل جاری رہناچاہئے۔اورکسی چیز جاری رہنا بغیر تجدیدی عمل کے ممکن نہیں ہے۔چنانچہ قران نے مختلف پہلواورزاویئے سے یہ بات کہی۔مثلا: =”ولقد یسرنا القران للذکر فھل من مدکر“ ۔{سورہ قمر ٢٢}۔ =”افلا یتدبرون القران ولوکان من عند غیراللہ لوجدوافیہ اختلافاکثیرا“۔{ سورہ نساء ٨٢}۔ ”فاعتبروایااولی الالباب“۔ {سورہ رعد ٢٢}۔سورہ بقرہ ١٠٩۔سورہ یوسف ١١١۔ان آیات میں۔دماغ کے استعمال کی دعوت دی گئی ہے}۔ ”ولھم قلوب لایفقھون بھا۔ولھم اعین لایبصرون بھا۔ولھم آذان لایسمعون بھا اولئک کالانعام بل ھم اذل“ {سورہ اعراف ٢٠٦}۔

تجدید کے تشکیلی عناصر اورمیدان:

انسان اپنی تھذیبی اورعملی زندگی میں ہمیشہ تجدیدی مراحل سے گزرتا رہتاہے۔اورنئی چیزیں ذہنی ارتقاء اوراستقراء کے نتیجہ میں اس کے سامنے آتی رہتی ہیں۔تجدید کے میدان کتاب وسنت کے نصوص نہیں کیونکہ وہ اٹل اورابدی ہیں۔ان میں نہ توکسی رائے زنی کی گنجائش ہے۔اورنہ ردوبدل کاامکان۔اورنہ ان میں کسی عقل وقیاس کودخل ہے۔بلکہ علم وفن۔تھذیب وعمل اورفقہ واصول یعنی قانونی میتھڈ سے تعلق رکھنے والے امورہی دراصل تجدیدکےمیدان اوراس میں غوروفکر اسکےتشکیلی عناصرہیں۔ البتہ کتاب وسنت کے بعض الفاظ جن کےمعانی اورمفاہیم کاتعین انسانی اعراف وعادات پرمبنی ہوں وہ اس دائرےمیں آسکتےہیں۔ وہ امور جن کوسمجھنےکےلئے عقل وخردکےاستعمال کی طرف ابھاراگیاہے۔وہاں قران میں الباب کااستعمال ہواہے۔اوروہچیزیں جومحض آنکھوں سے دیکھنے سے سمجھ میں آجاتی ہیں۔دماغ کھپانانہیں پڑتا۔یامحض سننے سے سمجھ میں جاتی ہیں ان چیزوں کے ادراک کےلئیے ابصار اورآذان کااستعمال ہواہے۔

تجدیدی تسلسل کی مثالیں :

اگردیکھاجائے تو زندگی کے ہرمیدان میں تجدید کا عمل بغیرکسی رکاوٹ کے جاری ہے۔ اگر ایسانہ ہوتاتو آپ کوانسانی تھذیب اورتاریخ کے ارتقائی مراحل میں۔پتھر کادور۔پھر بھاپ اوربجلی کادور۔اوراب ایٹمی دور۔زمانہ قدیم۔زمانہ متوسط۔اوردورجدید جیسے الفاظ نہیں۔ملتے۔اسی تاریخی۔فقہی۔اصولی اورقانونی کتابوں میں یکےبعددیگرے جوآپ کو نئے نئے اضافے اورتحقیقات پڑھنے کو ملتےہیں۔نہیں ملتے۔چونکہ انسان کاارتقائی عمل انسان کی زندگی سے مربوط ہے اس لئے یہ ہمیشہ جاری رہےگا جب تک انسان زمین پرآباد ہے۔

تجدید کی ضرورت اور تقاضے :

اب اس تناظرمیں وقت وحالات کودیکھنا ہے اوراس سے صرف نظر نہیں کیاجاسکتا کہ موجودہ دنیا میں زندگی کے طریقے اورتقاضے سب تبدیل ہورہےہیں ۔بلکہ ہوچکے ہیں۔دنیااورملک کے حالات کئی سمتوں میں کروٹ لے رہےہیں۔اور نئی دنیا کےفہم وادراک کاپیمانہ بھی AI ٹکنالوجی کے بعد تبدیل ہوچکاہے۔بچوں کے سوالات اب پہلے جیسے نہیں رہے۔ ایسے حالات میں دین وشریعت پر خود کو اورآنے نسلوں کو باقی رکھنے کےلئے کیاحکمت عملی اختیار کی جانی چاہئے۔اس پر اہل دانش کوغوروفکر شروع کرنی چاہئیے۔ مدارس کے تعلیمی اور قدیم نصابی نظام سے لیکرخانقاہی، اصلاحی، دعوتی، تبلیغی اورتنظیمی طریقہ کار تک پر غورکیاجانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ہم سوچتے اورعملی زندگی میں تدبیریں کچھ اورکرتے ہیں۔ اورتقاضہ کچھ اورہوتاہے۔اللہ تعالی حق وسداد پر امت کوباقی رکھے۔آمین

Comments are closed.