مرکز علم و دانش علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تعلیمی و ثقافتی سرگرمیوں کی اہم خبریں

پروفیسر محمد دانش اے ایم یو میں فوڈ سائنس اینڈ ٹکنالوجی سینٹر کے کوآرڈینیٹر مقرر
علی گڑھ، یکم جولائی: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے شعبہ کیمیکل انجینئرنگ کے چیئرمین پروفیسر محمد دانش کو ایک سال کی مدت کے لئے فیکلٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹکنالوجی کے تحت سینٹر فار فوڈ سائنس اینڈ ٹکنالوجی کا کوآرڈینیٹر مقرر کیا گیا ہے۔
پروفیسر دانش کو کیمیکل انجینئرنگ کے شعبے میں تدریس و تحقیق کا دو دہائیوں سے زائد وسیع تجربہ حاصل ہے۔ انھوں نے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی، روڑکی سے پی ایچ ڈی اور ایم ٹیک کی ڈگریاں حاصل کیں، جبکہ بی ٹیک کی تعلیم انہوں نے 1999 میں اے ایم یو سے ہی مکمل کی تھی۔
وہ پروسیس ماڈلنگ، سیمولیشن، اور ایڈزاپشن ٹیکنالوجیز میں مہارت رکھتے ہیں۔ انہوں نے متعدد ایم ٹیک اور پی ایچ ڈی تحقیقی مقالات کی نگرانی کی ہے اور عالمی شہرت یافتہ جرائد میں 35 سے زائد تحقیقی مقالے شائع کیے ہیں۔ ان کی تحقیق کا محور کیمیکل انجینئرنگ کے مسائل کا تجزیاتی اور عددی حل، اور پروسیس آپٹیمائزیشن میں مصنوعی ذہانت کا استعمال ہے۔ انہوں نے علی گڑھ اسمارٹ سٹی کے ایک پروجیکٹ کے لئے بطور شریک پرنسپل انویسٹی گیٹر خدمات انجام دی ہیں۔
٭٭٭٭٭٭
پروفیسر محمد آصف خان، اے ایم یو کے شعبہ کامرس کے صدر مقرر
علی گڑھ، یکم جولائی: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے شعبہ کامرس کے استاد پروفیسر محمد آصف خان کو آئندہ تین سال کے لئے شعبہ کا چیئرمین مقرر کیا گیا ہے۔
پروفیسر خان تدریس و تحقیق اور انتظامی ذمہ داریوں کا 30 سال سے زائد کا تجربہ رکھتے ہیں۔ ان کے علمی اختصاصات میں بین الاقوامی تجارت، مارکیٹنگ مینجمنٹ، انٹرپرینیورشپ، اور ہیومن ریسورس مینجمنٹ شامل ہیں۔ وہ 15 پی ایچ ڈی اسکالرز اور کئی پوسٹ ڈاکٹورل محققین کی رہنمائی کر چکے ہیں۔ انھوں نے تین کتابیں، پانچ کتابی ابواب، اور 28 سے زائد تحقیقی مقالے تصنیف کئے ہیں۔
پروفیسر خان اس وقت فیکلٹی آف کامرس کے ڈین بھی ہیں۔ وہ اے ایم یو میں سینٹر آف پروفیشنل اسٹڈیز کے ڈائریکٹر، چیف پراکٹر، پرووسٹ (نان ریزیڈنٹ اسٹوڈنٹس سینٹر)، ڈپٹی و اسسٹنٹ پراکٹر، اور کریئر کاؤنسلنگ اینڈ گائیڈنس سینٹر کے ڈائریکٹر رہ چکے ہیں۔
وہ یونیورسٹی کی ایگزیکیٹیو کونسل، اکیڈمک کونسل، اور یونیورسٹی کورٹ کے ممبر بھی رہ چکے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭
پروفیسر رئیس اللہ خان، اے ایم یو کے شعبہ پلانٹ پروٹیکشن کے نئے چیئرمین مقرر
علی گڑھ، یکم جولائی: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے شعبہ پلانٹ پروٹیکشن کے پروفیسر رئیس اللہ خان کو شعبہ کا نیا چیئرمین مقرر کیا گیا ہے۔ ان کی مدت کار یکم جولائی 2025 سے ان کی سبکدوشی کی تاریخ یکم مئی 2027 تک ہو گی۔
پروفیسر خان پودوں کی بیماریوں کے ماہر ہیں اور انہیں تدریس و تحقیق کا 23 سال سے زائد کا تجربہ حاصل ہے۔ ان کی تحقیق کا محور دال اور سرسوں کی فصلوں پر حملہ آور مٹی میں پائی جانے والی فنگل بیماریوں کی شناخت اور ان کا ماحولیاتی طور پر محفوظ و پائیدار طریقے سے تدارک ہے، جس کے لیے وہ مربوط طریق ہائے کار استعمال کرتے ہیں۔
انہوں نے رائیزوسفیرک مائیکروآرگینزم، بالخصوص اے ایم فنجائی پر بھی وسیع تحقیق کی ہے، اور بیماریوں کو روکنے اور پودوں کی صحت میں ان کے کردار کو اجاگر کیا ہے۔
پروفیسر خان نے 23 تحقیقی مقالے، ایک کتابی باب اور کئی تحقیقی رپورٹ شائع کئے ہیں اور قومی و بین الاقوامی سطح پر 40 سے زائد کانفرنسوں میں مقالے پیش کئے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭
اے ایم یو کے شعبہ اناٹومی میں طلبہ نے ڈبیٹ مقابلے میں حصہ لیا
علی گڑھ، یکم جولائی:جواہر لعل نہرو میڈیکل کالج (جے این ایم سی)، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے شعبہ اناٹومی میں ایک ڈبیٹ کا اہتمام کیا گیا جس میں ”جدید ٹکنالوجی اور ڈیجیٹلائزیشن روایتی تدریسی طریقوں کی جگہ لے سکتے ہیں“ کے موضوع پر طلبہ کی دو ٹیموں کننگھم اور گرے (اناٹومی اور میڈیکل ایجوکیشن کے معروف حوالوں کے نام) نے اپنے خیالات پیش کئے۔
یہ مقابلہ شعبہ اناٹومی کے سربراہ پروفیسر فضل الرحمٰن کی سرپرستی میں منعقد ہوا، جبکہ اس کی نظامت اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر نیما عثمان نے کی۔ ڈاکٹر دلشاد خان، ڈاکٹر وسوانی وجین، اور ڈاکٹر پروین چودھری نے طلبہ کی رہنمائی کی۔ پروفیسر فاطمہ خان (مائیکروبایولوجی) اور ڈاکٹر شاذیہ پروین (آبسٹٹرکس و گائناکالوجی) مقابلے کی جج تھیں۔
مقابلے میں ٹیم گرے نے کامیابی حاصل کی۔ اس میں فیضان، حاشر، اور وریشہ کو بالترتیب اول، دوم اور سوم قرار دیا گیا۔
پروفیسر فضل الرحمٰن نے اس طرح کے پروگراموں کو طلبہ اور جونیئر ریزیڈنٹ ڈاکٹروں میں اعتماد، ناقدانہ فکر، اور اجتماعی لرننگ کو فروغ دینے کے لیے نہایت اہم قرار دیا۔
٭٭٭٭٭٭
اے ایم یو کی فیکلٹی آف یونانی میڈیسن میں یومِ اطباء جوش و خروش سے منایا گیا
علی گڑھ، یکم جولائی: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کی فیکلٹی آف یونانی میڈیسن نے آل انڈیا یونانی طبی کانفرنس کے اشتراک سے یومِ اطباء (ڈاکٹرز ڈے) جوش و خروش کے ساتھ منایا۔ اس موقع پر طلبہ کا کنونشن اور ایک پینل مباحثہ منعقد کیا گیا، جس کا موضوع تھا: آزادی کے بعد طب یونانی کی صورت حال اور موجودہ دور میں اسے مستحکم کرنے کی حکمت عملیاں“۔ پروگرام میں فیکلٹی کے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے پی جی طلبہ نے شرکت کی۔
تقریب کے مہمانِ خصوصی اے ایم یو کے رجسٹرار جناب محمد عمران آئی پی ایس تھے، جنھوں نے اپنے خطاب میں طبی پیشے میں ہمدردی اور خدمت کے جذبہ کی اہمیت پر زور دیا اور قوم کی تعمیر میں ڈاکٹروں کے کلیدی کردار کو سراہا۔ انہوں نے ڈاکٹر بی سی رائے کو خراجِ عقیدت پیش کیا جن کی یاد میں ہر سال یومِ اطباء منایا جاتا ہے۔
پروفیسر صفدر اشرف،شعبہ تحفظی و سماجی طب نے اپنے کلیدی خطبہ میں جدید نظامِ صحت میں یونانی طب کی بڑھتی ہوئی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالی۔
اس موقع پر طب یونانی کی دو نمایاں شخصیات پروفیسر حکیم نعیم احمد خاں (سابق ڈین، فیکلٹی آف یونانی میڈیسن) اور حکیم محمد حذیفہ کو یونانی طب کی خدمت و فروغ کے اعتراف میں تہنیتی شیلڈ پیش کی گئی۔
ریزیڈنٹ ڈاکٹروں نے جناب محمد عمران کو گلدستہ پیش کیا اور یونانی میڈیکل ریزیڈنٹس کے طویل عرصے سے التواء میں پڑے وظیفے کی اجراء میں ان کے اہم کردار پر اظہارِ تشکر کیا۔
پروگرام کا ایک اہم پہلو ڈاکٹر محمد انس کی نظامت میں منعقدہ پینل ڈسکشن تھا، جس میں تدریسی و کلینیکل ماہرین نے آزادی کے بعد یونانی طب کی ترقی، درپیش چیلنجز اور موجودہ حالات میں اس کے استحکام کے لیے موزوں حکمت عملیوں پر گفتگو کی۔ مقررین نے آل انڈیا یونانی طبی کانفرنس کے ادارہ جاتی کردار، تحقیق کے انضمام، معیاری تعلیم، اور اقدار پر مبنی طبی خدمات کی ضرورت پر زور دیا۔
شعبہ امراض جِلد و زوہراویہ کے چیئرمین ڈاکٹر محمد محسن نے سپاس نامے پڑھے۔ انھوں نے نوجوان نسل پر زور دیا کہ وہ یونانی نظام طب کو قومی دھارے میں لانے اور اس کی تجدید میں قائدانہ کردار ادا کریں۔
اجمل خاں طبیہ کالج کے پرنسپل پروفیسر بدرالدجیٰ خان اور فیکلٹی آف یونانی میڈیسن کے ڈین پروفیسر فراست علی خان نے علمی اشتراک کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور یونانی طب کی تاریخی خدمات کو اجاگر کیا۔
پروگرام میں فیکلٹی ممبران، محققین، اور سنٹرل کونسل فار ریسرچ اِن یونانی میڈیسن (سی سی آر یو ایم) کے نمائندوں نے شرکت کی۔ نظامت کے فرائض ڈاکٹر محمد انس نے انجام دئے۔
٭٭٭٭٭٭
پروفیسر ابوسفیان اصلاحی کی خود نوشت ”صدائے نحیف“ اور ان سے متعلق دواہم کتابوں کی رونمائی
علی گڑھ، یکم جولائی: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ عربی کے کانفرنس ہال میں پروفیسر ابوسفیان اصلاحی کی خود نوشت ”صدائے نحیف“ اور ان کی شخصیت اور خدمات سے متعلق ڈاکٹر عرفات ظفر اور ڈاکٹر عبید اقبال عاصم کی دو اہم کتابوں ”ابر گہربار“ اور”ابوسفیان اصلاحی-خادم قرآنیات“ کی تقریب رونمائی کا اہتمام کیاگیا۔
پروفیسر محمد ثناء اللہ ندوی، صدر شعبہ عربی نے شرکاء کا خیر مقدم کرتے ہوئے سرسید احمد خاں سے پروفیسر محمد راشد ندوی تک شعبہ عربی کی زریں تاریخ پر اجمالی روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پروفیسر ابوسفیان اصلاحی بھی شعبہ کے اسی زریں سلسلہ کی ایک کڑی ہیں۔ پروفیسر عبد العزیز میمن، پروفیسر عبد العلیم، پروفیسر مختار الدین آرزو اور پروفیسر محمد راشد ندوی نے علم وادب اور بحث وتحقیق کی جو روشن مثال قائم کی اس کا کسی قدر اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ گزشتہ صدی کی تیسری اور چوتھی دہائی میں پروفیسر میمن کی کتابیں مصر اور شام کے ناشرین نے شائع کیں اور اب بھی ان کی علمی قدر وقیمت کا اعتراف کیا جاتا ہے۔
پروفیسر قاضی جمال حسین نے پروفیسر اصلاحی کی خود نوشت کے انفرادی پہلووں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس میں ان شخصیات کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے جن سے پروفیسر اصلاحی متاثر ہوئے۔پروفیسر جمال حسین نے ان کے اسلوب اور انداز بیان کی بھی تعریف کی اور مجنوں گورگھپوری کے انٹرویو کا خصوصی ذکر کرتے ہوئے اس کے مطالعہ پر زور دیا۔
پروفیسر طارق چھتاری نے واضح کیا کہ صدائے نحیف میں فکشن کی طرح جزئیات نگاری بھی نظر آتی ہے جو اس کا خاص وصف ہے۔ انھوں نے اس کی تکنیک پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر اصلاحی جو باتیں خود نہیں کہہ سکے ہیں وہ انھوں نے انٹرویوز میں سوالات کے ذریعہ دوسروں سے کہلوادی ہیں۔اس سے شعر وادب اور غزل سے متعلق بعض قیمتی معلومات فراہم ہوتی ہیں۔
ڈاکٹر فائزہ عباسی نے پروفیسر اصلاحی کی ذاتی خوبیوں کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی خود نوشت کو نسائی ادب کے لحاظ سے انتہائی اہم اور ادب میں گراں قدر اضافہ قرار دیا۔ انھوں نے پردہ نشین خواتین کا ذکر، ان کی خاموش خدمات کا تعارف اور معاشرہ کی تعمیر میں ان کی گراں قدراہمیت کے اعتراف کی ستائش کی۔
پروفیسر محمد سمیع اختر فلاحی نے ابر گہر بار پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر ابوسفیان اصلاحی فکر فراہی کے مبلغ اور سرسید کے ترجمان کی حیثیت سے معروف ہیں۔ تذکرہ نویسی اور خاکہ نگاری سے انھیں خصوصی لگاؤ رہا ہے۔ انھوں نے اس کتاب کی خوبیوں کی ستائش کے ساتھ اس میں در آئے بعض تسامحات کی بھی نشان دہی کی اور اسے پروفیسر اصلاحی کی خدمات کے تعارف کا ایک گراں قدر ذریعہ قرار دیا۔
پروفیسر عبید اللہ فہد فلاحی نے کہا کہ پروفیسر اصلاحی کا امتیاز یہ ہے کہ ان کے فہم قرآن کے ساتھ سرسید کی دانش وری اور علی گڑھ کا فہم بھی شامل ہے۔ اس سے ان کے فہم میں روشن خیالی اور کسی قدر ترقی پسندی بھی شامل ہوگئی ہے جو انھیں دیگر فضلاء مدرسۃ الاصلاح سے ممتاز بناتی ہے۔
شعبہ انگریزی کے پروفیسر محمد عاصم صدیقی نے ادب اور خودنوشت سے متعلق برناڈشا، گاندھی، نہرو، حنیف قریشی، روسو اور اسلوب احمد انصاری وغیرہ کے حوالہ سے گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر اصلاحی کے اسلوب اور اندازِ بیان کی ستائش کی۔ ان کی جہد مسلسل اور وقت کی پابندی کا اعتراف کیا اور اس علمی ارمغان پر ان کی پذیرائی کی۔
تقریب کی مہمان خصوصی پروفیسر ذکیہ صدیقی نے پروفیسر اصلاحی کی بردباری وانکساری کی ستائش کی۔ انھوں نے کہا کہ بحیثیت استاذ وہ بہت نمایاں اور مقبول ہیں۔ استاذ ہی درحقیقت نسلوں کے معمار اور قوم کے محافظ ہوتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ ادیب درحقیقت وہی ہوتا ہے جو زندگی اور سماج کو جوڑ کر رکھتا ہے، پروفیسر اصلاحی کے ادب میں یہ چیزیں بہت نمایاں ہیں۔
اس علمی تقریب کے صدر پروفیسر عبد الرحیم قدوائی نے کہا کہ پروفیسر اصلاحی کو علی گڑھ کی تہذیبی تاریخ اور روایات بہت عزیز ہیں۔ انھوں نے پروفیسر سلیمان اشرف کی ایک دل چسپ حکایت نقل کرکے پروفیسر اصلاحی کے علم وفضل اور اخلاق کا اعتراف کیا۔ ان کی زندگی کا خوش گوار اور دل کش پہلو بزرگوں سے تعلق رکھنا قرار دیا۔ خلیق احمد نظامی، مرکز علوم القرآن سے ان کے گہرے تعلق اور اس کی خدمت کے لیے ہمہ وقت کمر بستہ رہنے کی بھی ستائش کی۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ علم وآگہی اور اخلاق کا ایسا خوش گوار اجتماع کم دیکھنے کو ملتا ہے۔
اس موقع پر پروفیسر اصلاحی نے سرسید احمد خاں، علامہ فراہی اورپروفیسر مختار الدین آرزو کے حوالہ سے چند وضاحتیں کیں۔ انھوں نے سبک دوشی کے بعد قرآن کریم کی تفسیر کے لیے یکسو ہونے کا عزم ظاہر کیا اور شرکاء سے بحسن وخوبی اس کے مکمل ہونے کے لیے دعا کی درخواست کی۔
تقریب کی نظامت ڈاکٹر عبید اقبال عاصم نے کی، جب کہ ڈاکٹر احسان اللہ خاں نے کلمات تشکر ادا کئے۔
Comments are closed.