آل انڈیا ملی کونسل بہار کا الیکشن کمیشن کی ’’خصوصی جامع نظرثانی‘‘ مہم پر شدید اعتراض ، الیکشن کمیشن کو لکھا خط

یہ عوام کو ووٹنگ کے بنیادی حق سے محروم کرنے کی کوشش ہے، اسے فوراً رد کیا جائے
پٹنہ : یکم جولائی
آل انڈیا ملی کونسل، بہار کے جنرل سکریٹری محمد نافع عارفی نے الیکشن کمیشن آف انڈیا کی جانب سے جاری کی گئی ’’خصوصی جامع نظرثانی‘‘ (Special Intensive Revision) کی مہم پر سخت اعتراض درج کراتے ہوئے اسے ایک پیچیدہ، وقت طلب اور عوام مخالف عمل قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس مہم کے ذریعے شہریوں کو ووٹر لسٹ سے بےدخل کرنے کا ایک نیا راستہ نکالا گیا ہے جو براہ راست جمہوری اقدار، انتخابی انصاف اور بنیادی شہری حقوق پر کاری ضرب ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری ہدایات کے مطابق، آدھار کارڈ، راشن کارڈ، پین کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس اور منریگا جاب کارڈ جیسے شناختی دستاویزات کو ناقابلِ قبول قرار دیا گیا ہے، حالانکہ یہی وہ دستاویزات ہیں جو ملک کے بیشتر شہریوں کے پاس عام طور پر دستیاب ہوتے ہیں۔ اس کے بجائے، الیکشن کمیشن نے جن مخصوص اور نایاب دستاویزات کو لازمی قرار دیا ہے، ان میں شامل ہیں:
(1)حکومت / بینک / ڈاک خانہ / LIC یا PSU کی طرف سے 01.07.1987 سے قبل جاری کردہ کوئی شناختی ثبوت (2)مرکزی/ریاستی/PSU کے ملازمین کے لیے جاری شدہ ID یا PPO(3)پیدائش کا سرٹیفکیٹ (صرف مجاز اتھارٹی سے جاری شدہ) (4)پاسپورٹ(5)میٹرک یا دیگر تعلیمی سند(6)مستقل رہائش کا سرٹیفکیٹ(7)جنگلاتی حقوق کا سرٹیفکیٹ(8)ذات پات یا OBC/SC/ST کا سرٹیفکیٹ(9)نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (جہاں دستیاب ہو)(10)خاندانی رجسٹر (لوکل اتھارٹی سے تیار کردہ)(11)حکومت سے الاٹ شدہ زمین یا مکان کا سرٹیفکیٹ
محمد نافع عارفی نے کہا کہ یہ تمام دستاویزات حاصل کرنا نہ صرف عام شہری کے لیے انتہائی مشکل اور وقت طلب عمل ہے بلکہ کئی علاقوں میں تو یہ موجود ہی نہیں۔ دیہی، غریب، غیر خواندہ، اور خانہ بدوش قسم کے افراد ان دستاویزات کو فراہم کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت ریاست بہار میں سال کے آخر میں اسمبلی انتخابات متوقع ہیں، ایسے وقت میں اتنی جلد بازی میں اتنا پیچیدہ عمل نافذ کرنا نہ صرف ناقابلِ فہم ہے بلکہ اندیشہ ہے کہ لاکھوں اہل شہری، صرف رسمی کارروائی مکمل نہ کر سکنے کے باعث ووٹر لسٹ سے خارج ہو جائیں گے، اور وہ اپنا قیمتی ووٹ نہیں دے پائیں گے۔یہ ایک ایسا عمل ہے جو انتخابی شفافیت اور شمولیت کے اصول کو بری طرح متاثر کرے گا۔ ملی کونسل بہار کی جانب سے الیکشن کمیشن نئی دہلی، بہار اسٹیٹ الیکشن کمیشن پٹنہ اور وزیر اعلیٰ بہار کو خط لکھ اس جا نب توجہ دلائی ہے اور اس مشقت طلب اور عوام کی بنیادی حقوق پر ضرب لگانے والے اس عمل پر فوری روک لگانے کا مطالبہ کیا ہے ۔ انہوں نے اس عمل میں آنے والی دشواریوں کی طرف نشا ندہی کرتے ہوئے اس کو دفعہ 326 کی خلاف ورزی قرار دی اور کہا کہ بھارت میں پیدا ہونے والے شہریوں سے بار بار شہریت کے ثبوت مانگنا نہ صرف غیرمناسب ہے، بلکہ دستور ہند کے آرٹیکل 326 اور عوامی نمائندہ قانون (Representation of the People Act) کی روح کے بھی خلاف ہے۔ آرٹیکل 326 بھارتی جمہوریت کی بنیاد ہے جو ہر بالغ شہری کو ووٹ دینے کا مساوی حق دیتا ہے۔ کسی بھی کارروائی کے ذریعہ اس حق کو بلا کسی جائز وجہ کے محدود یا معطل کرنا صریحاً آئین کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا کہ(1) اس کارروائی کو فی الفور معطل کیا جائے۔(2)سابقہ سادہ روایتی طریقۂ کار کو بحال کیا جائے جس میں عام شناختی کاغذات جیسے آدھار، راشن کارڈ وغیرہ کی بنیاد پر ووٹر لسٹ میں شمولیت ممکن ہو۔(3) یہ یقین دہانی کی جائے کہ اس کارروائی کے ذریعہ کسی بھی صورت میں این آر سی یا اسی طرح کی کسی دستاویز پر مبنی شہریت کی تصدیق کا عمل نہیں ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ کسی ایک طبقے یا مذہب کا نہیں ہے بلکہ پورے ملک کے جمہوری نظام اور انتخابی انصاف سے جڑا ہوا معاملہ ہے۔ انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ جلد ہی آل انڈیا ملی کونسل کا ایک نمائندہ وفد اس سنگین مسئلے پر تفصیلی گفتگو کے لیے چیف الیکشن کمشنر سے ملاقات کرکے انہیں عوامی جذبات سے با خبر کرے گا تاکہ اس عمل کو روکا جا سکے اور شہریوں کے آئینی حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔
Comments are closed.