زبان کے جھگڑے

 

!! سچ تو مگر کہنے دو

 

 

از:ڈاکٹرسیدفاضل حسین پرویز

چیف ایڈیٹر ہفت روزہ گواہ حیدرآباد

 

مہاراشٹرا میں مراٹھی زبان سے ناواقف افراد کے ساتھ بعض سیاسی جماعتوں کے ارکان جو سلوک اختیار کر رہے ہیں اس کی یقینی طور پر مذمت کی جانی چاہئے۔ 3 /فروری 2025ء کو حکومت مہاراشٹرا نے اپنے حکم نامہ کے ذریعہ تمام تعلیمی اداروں اور سرکاری ملازمین کے لئے مراٹھی لازم کردی ہے۔ جس کی بعض غیر مراٹھی گوشوں سے مخالفت اورمذمت کی جارہی ہے۔ چونکہ بمبئی میونسپل کارپوریشن کے الیکشن قریب ہیں، شیو سینا ادھو ٹھاکرے گروپ اور ایم این سی جس کے سربراہ راج ٹھاکرے ہیں۔ مراٹھی زبان کو مہاراشٹرا کا جذباتی مسئلہ بناکر اپنے مفادات پورے کرنا چاہتے ہیں۔جس طرح سے مراٹھی نہ جاننے والوں کو مارا پیٹا جارہا ہے اور اس کی ویڈیوز وائرل کی جارہی ہے۔ ا س سے ایک طرف مہاراشٹرا کا جذباتی اور کم تعلیم یافتہ طبقات خوش ہے تو دوسری طرف جہاں مہاراشٹرا میں آباد 28/فیصد غیر مراٹھی طبقات اس سے ناراض ہیں وہیں پورے ہندوستان میں خاص طور پر ہندی ریاستوں میں اس کے خلاف شدید رد عمل کااظہار کیا جارہا ہے۔ ٹھاکرے برادرس تقریبا دو دہائی بعد مشترکہ سیاسی مفاد کی خاطر متحد ہوئے ہیں ورنہ بال ٹھاکرے کی وراثت کے لئے راج ٹھاکرے شیو سینا اور ادھو ٹھاکرے سے علیحدہ ہو گئے تھے۔ بال ٹھاکرے کے فرزند کی حیثیت سے شیو سینا کی کمان سنبھال لی تھی بظاہر اس خاندان میں دراڑ پیدا ہوگئی تھی مگر اندورنی طور پر دونوں میں اختلافات شدید نہیں تھے۔ اس کا ثبوت اس وقت ملا جب 16 جولائی 2012ء کو راج ٹھاکرے لیلا وتی ہاسپٹل سے ادھو ٹھاکرے کو اپنی کار میں بیٹھا کر ان کے گھر تک چھوڑ آئے۔ ادھو ٹھاکرے سینے میں تکلیف کی وجہ سے جیسے دواخانہ میں شریک ہوئے راج ٹھاکرے نے اس وقت اپنے انکل بال ٹھاکرے سے بھی ملاقات کی تھی۔ اس واقعہ کے بعد 13 برس کے دوران دونوں رشتہ کے بھائیوں میں ملاقات یا صلح سے متعلق کوئی خبر منظر عام پر نہیں آئی تھی۔ اب مراٹھی زبان کو لاگو کرنے کی تحریک کو تقویت دینے کے لئے دونوں ایک ہوگئے ہیں اور دونوں نے ایک طویل عرصہ کے بعد ایک ہی ڈائس سے خطاب کیا۔ راج ٹھاکرے نے علی الاعلان غیر مراٹھی افراد کے خلاف پر تشد د کاروائیوں کی حمایت کی اور انہوں نے کہا کہ پہلے تو کسی کو مارا نہ جائے اگر مارتے ہیں تو ویڈیو بناکر وائرل نہ کی جائے۔ راج ٹھاکرے کی زبان سے کسی اچھی بات کی توقع احمقانہ ہے۔ ادھو ٹھاکرے بڑی حد تک شائستہ، مہذب ہیں اور راج ٹھاکرے اس کے برعکس ہیں۔ ان کی نفرت انگیز تقریر اور مراٹھی زبان کو اکسانے کے خلاف اصولی طور پر کاروائی کی جانی چاہئے مگر کس میں اتنی ہمت ہے کہ ان کے خلاف ایکشن لے سکیں؟ یہ تو مہاراشٹرا کے غیر مراٹھی عوام کی خوش قسمتی ہے کہ اس وقت اقتدار کے لئے بی جے پی اور شیوسینا ادھو ٹھاکرے کے درمیان رسہ کشی جاری ہے ورنہ فڈنویس، شندے بھی ٹھاکرے برادران کے ہم خیال ہیں۔ چونکہ بی جے پی اور شندے گروپ کو اپنی حکومت بچانی ہے اس لئے وہ محتاط ہیں کیونکہ بی جے پی مرکزی حکومت ہے اور ہندی ریاستوں کی بدولت یہ حکومت قائم ہے۔

مہاراشٹرا کی اصل جان ممبئی ہے جو ہندوستان کا تجارتی مرکز ہے جہاں سارے ہندوستان کے لو گ آباد ہیں۔ ممبئی کو ایک بین الاقوامی تجارتی شہر بنانے میں غیر مراٹھی افراد کا بڑا اہم رول رہا ہے اور اس کی شہرت اور ریونیو میں بالی ووڈ کا بڑا حصہ ہے۔ بالی ووڈ میں بہت کم ایسے ہوں گے جو مراٹھی بولتے ہوں گے جبکہ ممبئی میں سرمایہ کاری کرنے والے بھی مراٹھی بولنے والے کم ہی ہیں۔ نتیش رانے نے سچ ہی کہا ہے کہ مراٹھی نہ بولنے پر ہندو تاجر کو جس طرح مارا گیا اگر ہمت ہے تو بھنڈی بازار اور نل بازار میں جاکر ڈاڑھی اور ٹوپی والوں کو مارو۔ کیاوہ لوگ مراٹھی بولتے ہیں؟ کیا جاوید اختر مراٹھی بولتا ہے؟ یہ سچ ہے کہ کوئی بھی ٹھاکرے ایسی ہمت نہیں کرسکتا۔ اور وہ کرے گا بھی کیوں؟ بھنڈی بازار سے انہیں تو ووٹ ملنے والے نہیں ہیں۔

ابو عاصم اعظمی جو مہاراشٹرا کے مقبول ترین اور قداور مسلم سیاسی رہنماہیں جنہوں نے بال ٹھاکرے کو عدالت میں حاضر ہونے کے لئے مجبور کردیا تھا انہوں نے معقول تجویز پیش کی ہے کہ جنہیں مراٹھی نہیں آتی انہیں زبان سکھانے کی سہولتیں فراہم کی جائیں۔ مراٹھی زبان کا احترام کیا جانا چاہئے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر کسی کو اپنی زبان پیاری ہوتی ہے۔ نبی کریم ؐ نے تلقین فرمائی تھی کہ’تم غیروں کی زبان سیکھو‘’ان کے شر سے بچوگے‘۔ اپنی مادری زبان کے علاوہ دوسری زبانیں سیکھنے سے انسان کی قابلیت اور اس کی اہمیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ ہم جس ریاست میں رہتے ہوں وہاں کی مقامی یا سرکاری زبان سیکھنی چاہئے تاکہ اجنبیت کا احساس نہ رہے۔ مادری زبان سے محبت فطری ہے مگر دوسری زبانیں سیکھنے سے بہت کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ جہاں تک مراٹھی کا تعلق ہے تو یہ ایک قدیم ہند آریائی زبان ہے جو مہاراشٹرا، گوا، گجرات، نکو بار میں بھی بولی جاتی ہے۔ ویسے ہندوستان میں ایک رپورٹ کے مطابق 19 ہزار 5 سو زبانیں اور مقامی بولیاں بولی جاتی ہیں جب کہ دستور ہند میں 22 زبانوں کو سرکاری زبان کے طور پر شامل کیاگیا ہے جو آسامی، بنگالی، بوڈو، ڈوگری، گجراتی، ہندی، سنبھلی، ملیالم، منی پوری، مراٹھی، نیپالی، پنجابی، سنسکرت، سنتھالی، سندھی، تمل، تلگواور اردو ہیں۔

لسانی بنیادوں پر 1956ء میں ریاستوں کی تشکیل جدید عمل میں آئی تھی۔ ان ریاستوں کرناٹک اور تمل ناڈو شامل ہے جبکہ تلگو ریاستوں کو آندھرا پردیش کا نام دیا گیا تھا جو 2014 میں آندھرا اور تلنگانہ میں تقسیم ہوگیا۔ ہندوستان کثیر مذہبی، کثیر لسانی ملک ہے۔ جس میں بول چال کے لئے ہندوستانی زبان استعمال کرنے کی تجویز 1928 ء میں نہرو رپورٹ میں پیش کی گئی تھی۔ اس ہندوستانی زبان میں ہندی، پنجابی اور اردو شامل رکھی گئی اور انگریز ی کو بول چال کی زبان کے طور پر اختیار کرنے کا مشورہ دیاگیا تھا۔ عام احساس یہی تھا کہ 45 فیصد آبادی ہندوستانی جانتے ہیں اور یہ زبان تمام ہندوستانی اقوام کے درمیان ایک رابطے کے پل کے طور پر کارآمد ثابت ہوتی۔ اس وقت راج گوپال چاری نے ہندوستانی زبان کو علاقائی زبانوں کے رسم الخط میں لکھنے کی تجویز پیش کی تو سوتنتر پارٹی کے قدآور رکن پارلیمنٹ مینو مسانی اور ہنسا مینا نے رومن لیٹرس میں یہ زبان استعمال کرنے کا مشورہ دیا۔ گاندھی جی نے ہندی ساہتیہ سمیلن سے محض اس لئے استعفی دے دیا تھا کہ وہ سمیلن کا اصرار تھا کہ ہندی صرف اور صرف ناگری رسم الخط میں ہو۔

ہندوستان میں لسانی تعصب نفرت ہمیشہ سے رہی ہے۔ تمل ناڈو، کیرالہ بلکہ جنوبی ریاستوں میں کبھی بھی ہندی کو لازمی طور پر قومی زبان کے طور پر مسلط کرنے کو قبول نہیں کیا۔ قومی تعلیم پالیسی 2020ء کو تمل ناڈو نے قطعی طور پر مسلط کردیا ہے کہ سنسکرت زدہ ہندی مسلط کی جارہی ہے۔ انگریزی بول چال کی مرکزی حکومت نے بالخصوص امیت شاہ نے مخالفت کی ہے اور یہاں تک کہہ دیا کہ انگریزی بولنے والوں کو بعد میں اپنے آپ سے شرمندہ ہونا پڑے گا۔ یہ اور بات ہے کہ انگریز ی بول چال میں ماہر کانگریس رہنماء ششی تھرور کو بی جے پی اپنی جانب کھینچنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ انہیں اگلا وزیر خارجہ بنایا جاسکے۔ انگریزی بلا شبہ بین الاقوامی رابطہ کی زبان ہے، جس کا جاننا ضروری ہے۔ بیرونی ممالک کے دوروں کے موقع پر کم انگریز ی جاننے والے وزیر اعظم کو کس قدر پریشانی اور پشیمانی کا سامنہ کرنا پڑ رہا ہے وہ دنیا دیکھ رہی ہے۔

انگریزی کو ایک بین الاقوامی کے رابطہ کی زبا ن تسلیم کئے جانے کے باوجود امریکہ کے بیشتر عوام اسے پسند نہیں کرتے اور برٹش لب و لہجہ کا مذاق اڑاتے ہیں۔ امریکہ کی کئی ریاستوں میں مقامی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ زبان سے ہر فرد کو جذباتی لگاؤ ہوتا ہے اور یہی لگاؤ اکثر لسانی نفرت پر مبنی فسادات کاسبب بنتا ہے اور کبھی کبھار ملک کی تقسیم کا سبب بھی بنتا ہے۔ بنگلہ دیش، پاکستان سے علاحدہ محض اس لئے ہوا کہ بنگالی زبان بولنے والے طبقہ کے ساتھ نا انصافی کی جارہی تھی۔ یوں تو پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہے مگر اردو کے ساتھ جو سلوک اس ملک میں ہوا وہ کہیں نہیں ہوا۔ سندھی اور اردو کے جھگڑے میں 1990ء کی دھائی میں اردو بولنے والے مہاجرین کی زبانیں تک کاٹ دی گئی تھی۔ ہندوستان حالیہ عرصہ تک سنسکرت صرف اعلی ذات کے ہندو ہی بول سکتے تھے کیوں کہ ہندو مقدس چاروں وید سنسکرت زبان میں ہی ہیں۔ اور نچلے طبقات کو ویدوں کو پڑھنے کی اجازت نہیں تھی اگرچہ کہ آج سنسکرت کو ایک زبان کے طور پر نصاب کا حصہ بنایا گیا ہے۔ اس کے باوجود پسماندہ طبقات کو سنسکرت پڑھنے سے روکا جاتا ہے اور دیہی علاقوں میں ان پر مظالم دھائے جاتے ہیں۔ لسانی تعصب اور نفرت کی وجہ یہ بھی ہے کہ زبان کومذہب سے جوڑ دیا گیا ہے۔ اردو کو مسلمانوں سے، پنجابی کو سکھوں سے، انگریزی کو عیسائیوں سے، سنسکرت کو آریائی ہندوؤں سے، تمل کو دراوڑی ہندوؤں سے اور پالی کو بدھ مذہب سے جوڑ دیا گیا ہے۔

اپنی زبان پر ہر ایک کو فخر ہوتا ہے۔ عربوں کو اپنے عرب ہونے اور اپنی زبان کی فصاحت و بلاغت پر ناز رہا۔ عجمیوں کو وہ کبھی اپنے برابر دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے۔ ہندوستان میں لکھنؤ والے اپنے زبان، تلفظ پر ناز کیاکرتے تھے۔ اردو جو سارے ہندوستان میں بولی جاتی ہے اس کے باوجود اس کی حالت خانہ بدوش جیسی ہے۔ جن کی مادری زبان اردو ہے وہ بھی اس سے کسی قسم کا لگاؤ نہیں رکھتا۔ بلکہ اردو سے رشتہ طاہر کرتے ہوئے کبھی کبھار شرما بھی جاتا ہے۔ حیرت بھی ہوتی اور رشک بھی آتا ہے ان لوگوں پر جو اپنی زبان کی بقا، تہذیبی اور ثقافتی ورثہ کے تحفظ کے لئے حد سے گزر جاتے ہیں۔

Comments are closed.