آہ! پروفیسر سی ایم نعیم

 

معصوم مرادآبادی

 

اردو اور انگریزی کے معروف اسکالر اور ماہر لسانیات پروفیسر سی ایم نعیم کے انتقال کی خبر آج صبح کی اولین ساعتوں میں سوشل میڈیا کے توسط سے ملی۔ پہلی پوسٹ پروفیسر اخلاق آہن کی تھی۔ اس کے بعد یکے بعد دیگرے اردو اور انگریزی میں کئی پوسٹیں نظر آئیں، لیکن کسی بھی پوسٹ کو پڑھ کر تشفی نہیں ہوئی۔پروفیسر چودھری محمد نعیم جنھیں علمی وادبی حلقوں میں پروفیسر سی ایم نعیم کے مختصر نام سے جانا جاتا تھا، ہمارے عہد کے ایک ایسے منفرد اسکالر اور عالم تھے جن کی مثال مشکل سے ملے گی۔ انھوں نے پوری زندگی علم وادب کی خدمت میں لگائی، لیکن کسی سے اس کا کوئی معاوضہ یا انعام وصول نہیں کیا۔ وہ خاموشی کے ساتھ اپنے مشن میں لگے رہے اور اسی خاموشی کے ساتھ انھوں نے امریکہ کے شہر شکاگو میں آخری سانس لی۔ ان کی عملی زندگی کا بیشتر حصہ امریکہ ہی میں گزرا جہاں وہ1961میں چلے گئے تھے۔ انھوں نے شکاگو یونیورسٹی میں جنوب مشرقی ایشیاء کی ثقافت اور زبانوں کے مرکز میں بطوراستاد خدمات انجام دیں اور اپنی خدادا صلاحیتوں کے گہرے نقوش چھوڑے۔ وہ انگریزی اور اردو کے بہترین مترجم ہی نہیں تھے بلکہ کلچر اور لسانیات کے ماہر اور تحقیق وتنقید کے مردمیدان بھی تھے۔ انھوں نے ہندوستانی ثقافت اور ادبیات سے متعلق کئی رسائل اور کتابیں ترتیب دیں۔لسانیات اور ادب سے قطع نظر انھوں نے برصغیر کی ثقافت، سیاست اور معاشرے، خاص طورپر مسلم معاشرے سے وابستہ بہت سے سوالوں کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کی۔

چودھری محمدنعیم سے میرا تعلق میرے کرم فرما پروفیسر شمیم حنفی کے توسط سے ہوا تھا، جو ان کے علی گڑھ کے دور کے ساتھیوں میں تھے۔ یہ چوتھائی صدی پرانا قصہ ہے۔ شمیم حنفی میرے پندرہ روزہ اخبار ”خبردار جدید“ کے آخری صفحے کے لیے ایک کالم لکھ رہے تھے، جوعلمی وادبی حلقوں میں بہت مقبول تھا۔ ایک روز انھوں نے چودھری محمدنعیم کو موضوع سخن بنایا۔ اخبار کا ڈیزائن میں خود بناتا تھا اور اسے بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کرتا تھا۔ انٹر نیٹ کا زمانہ تھا نہیں اور نہ ہی گوگل بابا کی ولادت ہوئی تھی۔ میں نے شمیم حنفی صاحب سے گزارش کی کہ اگر چودھری نعیم کی کوئی تصویر مل جائے تو کالم کا لطف دوبالا ہوجائے گا کیونکہ اس وقت تک چودھری نعیم کا تعارف یہاں عام نہیں تھا۔ شمیم صاحب نے تلاش بسیار کے بعد ایک گروپ فوٹو تلاش کیا اور میں نے اسے انلارج کرکے اخبار میں استعمال کرلیا۔ یہ چودھری نعیم سے میری پہلی شناسائی تھی اور بعد کو شمیم حنفی صاحب کے توسط سے ان کا نیاز بھی حاصل ہوا۔

چودھری محمد نعیم کو شمیم حنفی صاحب نے 1971-72میں علی گڑھ میں دریافت کیا تھا جہاں وہ شعبہ اردو میں کچھ عرصے کے لیے تقابلی ادب کے استاد کی حیثیت سے برسرکار تھے۔ اسی زمانے میں انھوں نے مسلمانوں کی قومی شناخت کے مسئلہ پر ایک معرکۃ الآراء مضمون بھی لکھا تھا۔پروفیسر شمیم حنفی نے ایک دلچسپ واقعہ کاذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ

”یہ ان دنوں کی بات ہے جب چودھری نعیم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے وابستہ تھے۔ ایک روز میری حیران کن نظروں نے یہ منظر دیکھا کہ آرٹس فیکلٹی کی عمارت کے صدر دروازے پر چاروں طرف بکھری ہوئی سائیکلیں اٹھا اٹھا کروہ بڑے غصے کے عالم میں باہر پھینک رہے ہیں۔ میں نے اس وحشت کا سبب پوچھا تو جواب ملا کہ ”صاحب لوگ دروازے پر سائیکلیں کھڑی کردیتے ہیں اور یہ تک نہیں سوچتے کہ آنے جانے کا راستہ بند ہوگیا ہے۔“فیکلٹی کے ڈین اور ان کے عملے کو اس مسئلہ سے کوئی سروکار نہیں تھا۔“

اس واقعہ سے وہی لوگ لطف اندوز ہوسکتے ہیں جنھوں نے یونیورسٹی کیمپس میں سائیکلوں کی حکمرانی کا دور دیکھا ہے۔ اب ان سائیکلوں کی جگہ اسکوٹیوں نے لے لی ہے، لیکن پرانی وضع قطع کے لوگ آج بھی سائیکل کو ترجیح دیتے ہیں۔

پروفیسر سی ایم نعیم اترپردیش کے مردم خیزخطہ بارہ بنکی میں پیدا ہوئے۔ گھر کی روایت کے مطابق ان کی تاریخ پیدائش14/دسمبر1934 ہے جبکہ ہائی اسکول سارٹیفیکٹ میں یہ تاریخ 3/جون 1936درج ہے۔ 1955میں لکھنؤ یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کرنے کے بعد پونہ (مہاراشٹر)کے دکن کالج میں لسانیات کی تعلیم حاصل کی۔ ستمبر 1957 میں وہ امریکہ چلے گئے اور چار برس برکلے، کیلی فورنیا میں گزارے، لیکن وہاں سے صرف ایم اے (لسانیات)ہی کیا۔1961میں انھیں شکاگو یونیورسٹی میں ملازمت مل گئی۔ جہاں سے چالیس سالہ خدمات کے بعد2001میں سبکدوش ہوئے اور امریکی شہری کی حیثیت سے آخر تک وہیں مقیم رہے۔ امریکہ کی بیشتر یونیورسٹیوں میں اردو زبان وادب اور جنوب ایشیائی ثقافت کے امریکی اساتذہ اور طلباء پروفیسر نعیم کے شاگرد رہے ہیں۔

پروفیسر نعیم اردو زبان وادب کی ترویج واشاعت میں ہمیشہ پیش پیش رہے۔ اردو سکھانے کے لیے انھوں نے انگریزی میں جو ریڈر تیار کی اسے پوری مغربی دنیا میں مقبولیت حاصل ہوئی۔ پروفیسر نعیم نے میر کی فارسی خودنوشت ’ذکر میر‘ کو انگریزی میں مرتب و منتقل کیا۔ اردو سے انگریزی میں تخلیقی ادب کے کئی ترجمے کئے۔ انگریزی میں کہانیاں اور مضامین لکھے۔ انگریزی میں ان کی کئی کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ وہ اردو کے مشہور زمانہ انگریزی رسالے ‘Annual of Urdu Studies’کے بانی ایڈیٹر رہے۔ تقریبانصف صدی پہلے یہ رسالہ شکاگو سے نکلا تھا اور اس کانام ‘MEHFIL’تھا۔اس رسالے نے انگریزی دانوں میں اردو زبان وادب سے شناسائی کی ایک روایت کو ترقی دی ہے۔ ذاکر حسین انسٹی سوسائٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اشتراک سے اس انگریزی جریدے کے ہندوستانی ایڈیشن کاڈول بھی ڈالا گیا تھا۔ شکاگو یونیورسٹی سے سبکدوش ہونے کے بعد پروفیسر نعیم نے ہندوپاک کے کئی سفر کئے۔ ان کی دلچسپی کا خاص میدان انیسویں صدی کے ہندوستان میں مسلمانوں کی تہذیبی روایت اور اردو کی علمی وادبی روایت تھا۔ انھوں نے اپنے کئی مضامین میں سرسیداور ان کے رفقا ء کی خدمات کا جائزہ لیا۔ خاص طورپر ڈپٹی نذیراحمد کی تحریروں کا۔ پروفیسر نعیم کی علمی و ادبی خدمات ہمہ جہت ہیں جن کے لیے انھیں ہمیشہ یادرکھا جائے گا۔ انھوں نے9/جولائی 2025کو شکاگو میں وفات پائی اور یہ خبر ہندوستان میں اگلے روز یعنی دس جولائی کو پہنچی۔

Comments are closed.