Baseerat Online News Portal

مومن کے لئے دنیا عیش کدہ نہیں ہے

مولانا محمد قمرالزماں ندوی

مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

 

دنیا کے بارے میں ایک مومن کی سوچ اور فکر یہ ہونی چاہئے کہ دنیا ان کے لئے عشرت کدہ نہیں ہے بلکہ ان کے لئے یہ دار الامتحان( امتحان گاہ) اور دار العمل ہے ۔ ایک مومن کے لئے دنیا میں جگہ جگہ قید ہے بندش ہے رکاوٹیں ہیں ۔ وہ خدا کی اطاعت میں جکڑا ہوا ہے ۔ ان کے لئے حدود و قیود ہیں تاکہ وہ من مانا زندگی نا گزار ے، شریعت کے حدود میں رہ کر وہ اپنی زندگی کے شب و روز گزارے ۔ اس کے برعکس ایک کافر اپنے کو آزاد سمجھ کر زندگی گزارتا ہے اس کے سامنے بندش اور رکاوٹ نہیں ہے ۔ اس کا نظریہ دنیا کے بارے میں یہ ہوتا ہے کہ یہ ایک عیش کدہ اور تفریح گاہ ہے ۔ جس قدر چاہو اور جیسے چاہو عیش کے ساتھ زندگی گزار لو اور اس کے مادی فوائد کو حاصل کرلو۔

اسی حقیقت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں یوں بیان فرمایا : ۔ الدنیا سجن المومن و جنة الکافر ( مسلم شریف کتاب الزھد) دنیا مومن کے لئے قید خانہ اور کافر کے لئے جنت ہے ۔

اس حدیث کی شرح میں علماء اور اہل علم نے جو کچھ لکھا ہے اس کا خلاصہ اور لب لباب یہ ہے کہ ایک مومن کو اور خدا پر ایمان رکھنے والے شخص کو ایک پابند آئین زندگی گزارنی پڑتی ہے ۔اسے اپنی خواہشات و جذبات اور من چاہی زندگی پر کنٹرول کرنا پڑتا ہے اور شریعت کے حدود اور اسلام کے دائرے میں رہ کر زندگی کے سارے امور انجام دینا پڑتا ہے ۔ اور راہ حق کی مشکلات ،دشواریوں اور کٹھنائیوں کو جھیلنا اور برداشت کرنا پڑتا ہے ۔ وہ خدا کی اطاعت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی و اتباع میں جکڑا ہوا ہوتا ہے ۔ اور دنیا کو اس نظر سے دیکھتا ہے کہ یہ دنیا عیش و عشرت اور مستی و تفریح کی جگہ نہیں ہے بلکہ یہ امتحان گاہ ہے ۔ اس امتحان گاہ میں اگر اس نے ایک ذمہ دارانہ اور اطاعت شعارانہ زندگی گزاری تو اسے ابدی کامیابی نصیب ہوگی اور آخرت میں لازوال نعمتوں کا حق دار و مستحق ہوگا ۔ ایسی نعمتیں کہ دنیا کہ دنیا میں ان نعمتوں کا انسان تصور بھی نہیں کیا ہوگا ۔ دنیا کی ساری نعمتیں اس کے مقابلہ میں ہیچ اور کمتر ہونگی ۔ یہی وہ پابند آئین زندگی ہے جس کی بنا پر دنیا کو ایمان والے کے لئے قید خانے سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ برخلاف اس کے ایک کافر اس دنیا کو عیش کدہ اور تفریح گاہ سمجھتا ہے اور اس کے مادی فوائد اور لذائذ کو حاصل کرنے میں خدا کے قائم کردہ حدود کا وہ لحاظ نہیں کرتا اور اپنی خواہشات اور نفسانیت کے پیچھے چل پڑتا ہے اس لئے اس کو ان مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے اور اسے وہ قربانیاں نہیں دینی پڑتی ہیں جو ایک مومن کو دینی پڑتی ہیں اور بسا اوقات دنیا کی نعمتوں اور آسائشوں کی فراوانی دنیا پرستوں کے حصہ میں آتی ہیں تاکہ وہ خوب مزے اڑا لیں اور آخرت میں جہنم کا ایندھن بنیں ۔ اس لحاظ سے ایک کافر کو دنیا میں بے لگام اور بے قید زندگی گزارنے کا موقع ملتا ہے اور جس طرح دنیا اس کے لئے تفریح اور عیش و عشرت کا سامان بن جاتی ہے اسے جنت سے تعبیر کیا گیا ہے ۔

اس حدیث اور قول رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اسلام دنیوی ترقی اور مال و دولت سے فائدہ اٹھانے اور اسباب زندگی سے بھرپور لطف اندوز ہونے سے منع کرتا ہے اور وہ اس کا مخالف ہے ،بلکہ اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اسلام ایسی ترقی اور بلندی کا قائل ہے جس کے ساتھ انسان کا فکری ،اخلاقی اور عملی ارتقا ہو تاکہ انسان اپنی منزل مقصود کو پہنچ جائے اور پیدا کرنے والے کی مقصد تخلیق سے ہٹ کر زندگی نہ گزارے ۔ اسلام ایسی ترقی اور عروج و بلندی کا ہرگز قائل نہیں جو بظاہر مادی ترقی ہو لیکن فکری اخلاقی اور عملی انحطاط پستی اور زوال کا باعث ہو ۔ اور جس کے نتیجہ میں انسان ابدی ہلاکت اور دائمی ذلت کے قعر مذلت میں جاگرے ۔ کسی بھی اعلی اور ارفع مقصد کے حصول اور اہم ہدف کو پانے کے لئے آدمی کو قربانیاں دینا ہی پڑتی ہیں لہذا جن کو آخرت کی منزل اور باغ و بہشت عزیز ہے انہیں اسلامی تعلیمات اور اسلامی اصولوں کی پابندی کرتے ہوئے اپنے عیش و عشرت اور آرام و راحت اور کتنے ہی دنیوی مفادات کی قربانی دینی ہوگی ۔ ( مستفاد جواہر الحدیث از شمس پیر زادہ مرحوم )

اس حدیث کا کم و بیش یہی مفہوم اور تشریح حضرت مولانا محمد منظور صاحب نعمانی رحمۃ اللہ علیہ نے کی ہے طوالت کے خوف سے اسے ذکر نہیں کیا جارہا ہے ۔ قارئین باتمکین اصل مرجع اور کتاب سے کما حقہ استفادہ کرسکتے ہیں ۔

(بصیرت فیچرس )

Comments are closed.