Baseerat Online News Portal

مسلمان دہشت گرد نہیں

از
محمد عظیم فیض آبادی دارالعلوم النصرہ دیوبند
مسلمان دہشت گرد نہیں ہے اسلام دہشت گردی کا سخت مخالف ہے
15/3/2019 بروز جمعہ کو نیوزی لینڈ کے کرائسٹ چرچ کے ڈینز ایونیو میں واقع معروف مسجد النور ”
اور دوسری” لین وڈ مسجد ”
میں نماز جمعہ کے بعد نمازیوں کے خون سے جو ہولی کھیلی گئی ،حیوانیت ودرندگی کا جو ننگا ناچ نچا گیا ، انسانیت سوز جو گھناؤنی حرکت کی گئی جو دہشت گردآنہ حملہ کی گیا اس کی مذمت کے لئے اور اسکے انجام ینے والے درندوں کی سرزنش کے لئے الفاظ وتعبیرات کا دامن تنگ ہے اسکی جتنی اور جس انداز سے بھی مزمت کی جائے وہ کم ہے اور اسی کے ساتھ ساتھ ظلم وبربریت کو فروغ دینے والے طاقت وقوت کے ذریعہ پوری دنیا میں اپنی سلطنت کو مستحکم کرنے کے لئے اسلام ومسلمانوں پر دہشت گردی کا الزام تھوپ کر اپنے آپ کو دنیا کے سامنے امن پسند ظاہر کرنے والے ، دہشت گردوں کی پشت پناہی کرنے والے دہشت گردی کے موجدین بھی اتنی ہی لعنت ومزمت کے مستحق ہیں کیوں کہ وہی اصل دہشت گرد بھی ہیں اور اپنے ناجائز مقاصد کے حصول کے لئے دہشتگردی کو فروغ دینے والے بھی ـ
اسی طرح میڈیا بھی لعنت وملامت کی مستحق ہے جس کو مسلمان کا پٹاخہ پھوڑنا بھی دہشت گردی نظر آتاہے اور غیروں کا قتل وغارت گری ظلم وتشدد اور معصوم وبے قصور کو تہ تیغ کرنا بھی دہشت گردی نہیں لگتا ملک ہو کہ بیرون ملک کہیں کسی وقت بھی اگر کوئی چھوٹا بڑاحملہ ہوتا ہے تو شک نہیں بلکہ یقین کے ساتھ فوراً اس کو مسلمانوں کی طرف منسوب کرکے مسلم دہست گردی یا اسلامی دہشت گردی کے عنوان سے معنون کردیا جاتا حالانکہ حقیقت میں اس کا محرک کوئی اور ہوتا ہے اور اس کے پیچھے اور کوئی طاقت اپنے مقصد کے حصول میں کام کررہی ہوتی ہے ، بلا کسی تحقیق اور بلا کسی شک وریب کے مسلمانوں یا اسلام کی طرف اس کو منسوب کرنا کیا مسلمان اور اسلام کے ساتھ بے جا تعصب کی دلیل نہیں ہے ؟
بسااوقات حملے کے بعد حملے اور اس کے دیگر محرکات کی تحقیق وتفتیش کے لئے حکومت کی طرف سے کوئی کمیٹی تشکیل دی جاتی ہے تاکہ اصل مجرم تک رسائی حاصل ہو لیکن اس کے باوجود میڈیا مخصوص فکری تنگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسلمانو ں کو اس کا ذمہ دار ٹھراکر دہشت گردی کو اس کی طرف منسوب کردیتی
ملک عزیز میں خالصتان نکسلیوں کو دہشت گرد نہیں کہا جاتا جس کے حملے میں ہرسال سیکڑوں فوجی جوانوں کی جاتی ہے ، بجرنگ دل وشوہندو پریسد ہندو یواواہنی کرنی سینا اور اس طرح کی متشدد تنظیمیں کو دہشت گردنہیں گردانہ جاتاجس نہ جانے کتنوں کی جان لے لی
فرق صرف یہ ہے کہ یہ تنطیمیں عموما مسلمانوں کو نشانہ بنا تی ہیں
مہاتما گاندھی اندرا گاندھی راجیو گاندھی کے قاتلون کو کون نہیں جانتا کی وہ مسلمان نہیں تھے لیکن ان کو کوئی دہشت گردکے نام سے مخاطب کرنے کے لئے آمادہ نہیں گوری لنکیش اور دیگر صحافیوں کو ہمیشہ ہمیش کے لئے خاموش کردیا گیااور جودیگر صحافی حق وانصاف کی آواز بلند کرتے ہیں انھیں طرح طرح کی دھمکیاں دی جاتی ہیں لیکن پھر بھی وہ دہشت گردی کے زمرے میں نہیں آتے
لطیفے کی بات تو یہ ہے کہ حکومتی سطح پر یہ کہا جاتاہے کہ دہشتگردی کا کسی مذہب سےتعلق نہیں ہےاور دہشت گرد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا لیکن مسلمانوں کے ساتھ دہشت گردکو جوڑنے پر کوئی پابندی بھی نہی ہے حکومت کے کارندوں اور چمچوں کو مسلمانوِں کو دہشت گرد کہنےپر کوئی بندش بھی نہیں ہے
ایک طرف تو دہشت گرد کا کوئی مذہب نہیں لیکن مسلمانوں کے علاوہ کسی کو دہشت گرد بھی نہیں کہاجاتا دوسرا چاہے جتنی دہشت گردی مچائے
اس گندی ذہنیت کا مظاہرہ آ ج اس وقت بھی ہورہاہے جب نیوزی لینڈ میں دہشت گردنہ حملہ ہوا اور پچاس بے گناہ نمازی شہید ہوگئے. بیسوں زخموں سے چور اسپتال میں زیرِعلاج ہیں ، حملہ آور چونکہ مسلمان نہیں ہے اور شہید ہونے ولے مسلمان ہیں اس لئے پوری دنیا کی میڈیا کو سانپ سونگھ گیا ہے
نہ کہیں کوئی مارچ ہے نہ احتجاج ، نہ کوئی حملہ آوروں کو کیفرِکردار تک پہنچانے کا مطالبہ کررہا ہے نہ ان کو سزادینے کی کسی طرح کی بات ہے نہ ان کے ساتھ کسی قسم کی ہمدردی کا مظاہرہ ہے نہ ہی کسی نوعیت کا اظہار غم
اگر یہی حملہ آور کوئی مسلمان ہوتا تو بس یہی دوغلی میڈیا آسمان سر پر اٹھا لیتی جیسے کو قیامت ٹوٹ پڑی ہو
آگےمرےنہ غیرسےگوتم نے بات کی
سرکار کی نظرکو تو پہچانتاہوں میں
اور
پارہاہے دل مصیبت کے مزے
آٰئےلب پر شکوہء بےداد کیا
(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.