Baseerat Online News Portal

اب انہیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر

مولانا محمد قمرالزماں ندوی

مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

 

آغا شورش کاشمیری مرحوم کی سیرت و سوانح لکھنے والوں نے ان کی زندگی کا ایک ایسا واقعہ بھی لکھا ہے کہ اس کو پڑھنے کے بعد یہ یقین اور پختہ ہوگیا کہ ہر دور میں مال و دولت عہدہ و منصب اور اقتدار کی ہوس سے بے نیاز اسلام کی حفاظت کرنے والوں کی ایک تعداد ہمیشہ رہی ہے جنھوں نے ذاتی مفاد اور شخصی فائدے کے مقابلہ میں دین کے مفاد کو مقدم رکھا اور مال و زر کو پھوٹی کوڑی اہمیت نہ دی ۔

ایک دن شورش کاشمیری صاحب مرحوم بھٹو صاحب پاکستان کے (سابق وزیر اعظم )پاس گئے تو بھٹو مرحوم نے کہا: آکسفورڈ یونیورسٹی میں میری لڑکی اور لڑکا دونوں پڑھتے ہیں، آپ بھی اپنی لڑکی اور لڑکے کو بھیج دو، حکومت وظیفہ دے گی.

شورش کاشمیری نے کہا کہ میں مشرقی طرز کا آدمی ہوں، مغربی تہذیب میں اولاد کو بھیج کر خراب نہیں کرنا چاہتا.

تو بھٹو مرحوم نے کہا کہ شادمان کالونی، لاہور میں دو پلاٹ پڑے ہیں ،تم کم ریٹ پر حکومت سے خرید لو اور ایک کو پیچ کر اپنا پلاٹ بنا لو.

تو شورش نے جواب دیا: جناب سر چھپانے کے لئے جگہ موجود ہے، میں کوٹھی نہیں بنانا چاہتا۔

شورش رحمة الله علیہ اپنے گھر واپس آئے اور سارا قصہ اپنی بیٹی کو سنا دیا. تو بیٹی نے کہا کہ: ابو بھٹو صاحب پلاٹ دے رہے تھے، لے لیتے، سرکاری زمین ہے ہم پیسے جمع کرا دیتے ہیں بات صرف اتنی ہے کہ وہ کوئی اور لے جائے گا، بس ہمیں رعایت ہی مل جاتی، آپ نے ہمارے مستقبل کے ساتھ زیادتی کی ہے.

تو جواب میں شورش رحمة الله علیہ نے فرمایا کہ: دنیا یہیں رہ جائے گی، میں بھٹو مرحوم سے ایک ایسا تحفہ لیکر آیا ہوں جو قبر میں مجھے کام آئے گا بس یہ بات کہنی تھی۔

تحریک ختم نبوت کے اکابرین بھٹو مرحوم اور شورش رحمة الله کے درمیان کی گفتگو سے بالکل ہی لاعلم تھے۔ کچھ ہی دنوں بعد شورش رحمة الله بیمار ہوئے اور انتقال فرما گئے ،جنازے میں حضرت مفتی محمود صاحب رحمة الله، مولانا غلام غوث ہزاروی رحمة الله، مصطفیٰ کھر، کوثر نیازی ،معراج خالد ،حفیظ پیرزادہ و دیگر حضرات شریک ہوئے۔ ہزاروں کا اجتماع تھا، مجمع سارا حیران تھا کہ بھٹو مرحوم اور شورش رحمة الله علیہ کا کافی دوستانہ تعلق تھا پھر بھی جنازے میں شریک نہیں ہوئے ان کے انتقال کے دوسرے دن ہی بھٹو مرحوم چین چلے گئے۔

پانچ روزہ دورے کے بعد جب واپس آئے تو ایک رات راولپنڈی میں رہے، دوسرے دن لاہور آئے اور شورش رحمة الله کی قبر پر حاضری دی۔ فاتحہ خوانی کی اور شورش رحمة الله علیہ کے گھر بھی تعزیت کے لئے گئے۔

بھٹو مرحوم نے تعزیت کے دوران کہا کہ جنرل عبد العلی اور جنرل ظفر چودھری قادیانی ہیں، شورش رحمة الله علیہ نے میرے پاس آ کر کہا: آپ میرے بچوں کو آکسفورڈ یونیورسٹی نہ بھیجوائیں اور پلاٹ بھی مجھےنہ دیں، بس ان دو قادیانیوں کو ہٹا دیں۔ یہی تحفہ میں آپ سے لینے آیا ہوں، تو بھٹو مرحوم نے کہا کہ میں ہٹا دوں گا اور میں نے وعدہ کیا تھا؛ بغیر جنرلوں کے ہٹائے میں اگر اس جنازے میں آتا تو وعدہ خلافی ہوتی، میری آنکھ میں شرم تھی، میں کیسے جنازے میں شریک ہو سکتا تھا، دوسرے دن میرا چین کا سفر تھا اگر میں اس کو ہٹا کر جنازے میں آتا تو میری غیر حاضری میں شاید اندیشہ تھا کہ اتنی بڑی تبدیلی کے بعد ملک میں کوئی گڑبڑ نہ ہو جائے، تو میں اس لئے جنازہ میں نہیں آیا۔ چین چلا گیا، واپس آیا، آج ہی میں نے ان دونوں جنرلوں کو فارغ کر دیا ہے۔ شام پانچ بجے کی خبروں میں آ جائے گا، اب میں سرخرو ہو کر آپ حضرات کے پاس آیا ہوں۔

 

خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را

(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.