Baseerat Online News Portal

تاریخ امارت شرعیہ کا ایک فراموش کردہ باب

پروفیسر محسن عثمانی ندوی
جناب قاضی سید احمد حسین صاحب امارت شریعہ بہار واڑیسہ کے ناظم تھے، پارلمنٹ کے ممبر تھے، تحریک خلافت کے بنیاد گزاروں میں تھے، انڈپنڈنٹ پارٹی بہار کے رکن رکین تھے، ملت کے خادم اور رہنما تھے ،امارت شرعیہ اور جمعیت علماء بہار کی تاریخ ان کے ذکر کے بغیر نامکمل رہے گی۔ذیل کا مضمون ان کے ذکر خیر پر مشتمل ہے ،جن کا ذکر اب کہیں بھی نہیں آتا ہے۔
جناب قاضی احمد حسین کے والد کا نام قاضی عبد اللطیف تھا، ان کے دو لڑکے تھے ،ایک قاضی احمد حسین اور دوسرے قاضی محمد حسین ، قاضی عبد اللطیف صاحب نے بہت بڑی جائیداد وراثت میں چھوڑی تھی، جس کی دیکھ بھال کا کام قاضی احمد حسین نے کیا، اور اپنے چھوٹے بھائی کو انہوں نے تعلیم کے لئے علی گڑھ بھیج دیا، قاضی احمد حسین صاحب نے اپنے والد کے انتقال کے وقت جب کہ ان کی عمر ۱۴ سال کی تھی، قرآن مجید حفظ کر لیا تھا اور اردو فارسی کی کتابیں پڑھی تھیں، اس کے بعد انہوں نے کہیں با قاعدہ تعلیم نہیں حاصل کی، لیکن مسلسل مطالعہ اور جدید وقدیم علماء کی صحبت نے ان کے علم میں جلا پیدا کردی تھی اور ذہن رثا میں بڑے بڑے مسائل کو سمجھنے اور بڑی بڑی گتھیوں کو حل کرنے کی ان میں طاقت پیدا کر دی تھی، وہ جونپور کے معروف صوفی بزرگ عبد العلیم آسی سے بیعت تھے، اور تصوف کی تعلیم حاصل کی تھی، ان کی سماجی وملی سر گرمیوں کا آغاز تعلیم بالغان کے کام سے ہوا جو انہوں نے اپنے وطن گیا ضلع میں شروع کیا، وقت گزرنے کے ساتھ ہندوستان کی سیاسی تحریکات اور سیاسی شخصیتوں سے ان کے روابط پیدا ہوئے، اور ان کے مزاج میں انقلابیت تھی ، انگریزی حکومت کے خلاف جو لوگ آگے آگے تھے، ان سے قاضی صاحب کے تعلقات تھے، اینی بیسنٹ کی ہوم رول کی تحریک میں بھی شریک ہوئے وہ قاضی صاحب کی صلاحیت اور ذوق عمل سے بہت متأثر تھیں، پھر اسی طرح سے ایک سماجی کارکن ڈاکٹر قمر الدین کے ذریعہ ان کی مولانا ابوالکلام آزاد سے بھی ملاقات ہوئی ، اور اینی بسنٹ نے بھی مولانا آزاد سے قاضی احمد حسین صاحب کی ذہانت اور جو ش عمل تعریف کی، مولانا آزاد سے روابط کے بعد مولانا آزاد نے ان کی صلاحیتوں کو پرکھا، اور آزادی کے بعد ان کو پارلیمنٹ کا ممبر بنوایا، قاضی احمد حسین صاحب کے روابط مظہر الحق مرحوم سے تھے، جو بہار کے ممتاز بیرسٹر تھے، اور گاندھی جی کے لند ن کے ساتھی تھے، ان کے تربیت یافتہ لوگوںمیں ڈاکٹر راجندر پرشاد تھے اور پروفیسر عبد الباری تھے، خلافت تحریک کی شباب کا زمانہ آیا، جب قاضی احمد حسین صاحب پروفیسر عبد الباری اور جنا ب مظہر الحق نے تحریک خلافت میں شمولیت اختیار کی، اور اپنی صورت شکل بھی بدل لی ، چہرے پر ڈاڑھی آگئی، اور سوٹ اور ٹائی کی جگہ کھادی کا کرتا اور پائجامہ آگیا، مولانا ابو الکلام آزاد نے جب الہلال نکالا، تو قاضی احمد حسین صاحب نے اس وقت دس ہزار روپے کا چندہ دیا جو آج کل کے زمانے میں دس لاکھ کے برابر ہے، انگریزی حکومت نے جب مولانا محمد علی جوہر ، مولانا ظفر علی خاں، اور مولانا ابو الکلام آزاد کو گرفتا ر کیا اس وقت جناب قاضی احمد حسین صاحب نے بہت سے ہندو مسلمانوں کے ساتھ مل کر گرفتاری کے خلاف تحریک چلائی ، یہ وہ زمانہ تھا جب بہار میں خلافت تحریک اور اس کے بعد انڈ بینڈینٹ پارٹی کا زور تھا، اور قاضی احمد حسین صاحب ایک عوامی لیڈر تھے جن کے عوام پر اثرات تھے۔
قاضی احمد حسین صاحب کی دینی اور ملی خدمات میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے مولانا سجاد کا پورا ساتھ دیا، اور جمعیۃ علماء کی تحریک اور امارت شرعیہ کی تحریک اور مدرسہ انوار العلوم کے قیام میں ان کی پوری مدد کی، بہاد میں بلکہ پورے ہندوستان میں ہندؤوں کے اثر سے بیواؤں کا نکاح ثانی بہت معیوب سمجھا جاتا تھا، اور ظاہر ہے کہ یہ رسم ورواج سیرت اور سنت اور شریعت کے خلاف تھا، انہوںنے اس رسم کے خلاف بھی پوری تحریک چلائی اور کئی بیواؤں کا نکاح ثانی کروایا۔
مولانا آزاد جب جیل میں نظر بند تھے اس وقت قاضی احمد حسین سے ان کا رابطہ تھا، انہوں نے کہا کہ بنگال میں ہندؤوں کی انقلابی جماعت موجود ہے، لیکن مسلمانوں میں اس کا کوئی اثر نہیںہے، اس لئے قاضی صاحب کے ذمہ مولانا آزاد نے یہ کام سپرد کیا کہ دیکھیں کہ مسلمانوں میں ایسے کون کون لوگ ہیں جن کو انقلابیوں کی جماعت مین منظم کیا جائے، اسی اثناء میں قاضی احمد حسین صاحب مولانا سجاد سے قریب ہوتے گئے، اور قاضی احمد حسین صاحب نے بھی یہ اندازہ لگا لیا کہ مولانا سجاد غیر معمولی طور پر ذہین اور قابل آدمی ہیں، اورپھر انہوں نے اپنی زندگی کو ان کے ساتھ کام کرنے کے لئے وقف کردیا، کیوں کہ مولانا آزاد کا ذہن اس انداز مین کام کر رہا تھاکہ مسلمانوں کی بھی ایک انقلابی جماعت ہونی چاہئیے ، قاضی احمد حسین صاحب نے مولانا آزاد کے اس ذہن اور خواہش کا تذکرہ مولانا سجاد کے سامنے کیا، تو مولانا سجاد نے کہا کہ مولانا آزاد کو چاہئے کہ انقلاب کے لئے امارت شریعہ کے قیام پر غور کریں، کیوں کہ دنیا میں جہاں غیر مسلم مسلط ہیں وہاں جمعہ اور جماعت کے قیام کیلئے ایک امیر شرعی کے نصب کرنے کا حکم علماء نے ماضی میں دیا ہے، اس طرح مسلمان اگر منظم ہوجائیں، اور وہ ایک امیر شرعی کی اطاعت کے عادی ہو جائیں تو انقلاب بھی لایا جا سکتا ہے، قرآن وحدیث اور فقہ کی رو سے مسلمانوں پر نصب امیر واجب ہے۔قاضی احمد حسین صاحب مولانا آزاد اور مولانا سجاد کے درمیان واسطہ تھے، قاضی صاحب نے مولانا سجاد کا نقطئہ نظر پوری قوت کے ساتھ مولانا آزاد کے سامنے رکھا اور بعد میں مولانا آزاد کی خواہش پر مولانا سجاد کو لے جا کر ان سے ملوا بھی دیا، اور اس طرح تینوں حضرات یعنی مولانا آزاد اور مولانا سجاد اور قاضی احمد حسین امارت شرعیہ کے قیام پر متفق ہوگئے ، گویا امارت شرعیہ کے قیام میں تخیل مولانا سجاد کا تھا اور مکمل تائید اور حمایت مولانا آزادکی تھی اور قاضی احمد حسین صاحب کی مساعی اس میں شامل تھیں۔ امارت شرعیہ کا قیام کسی معمولی انجمن کا قیام نہ تھا بلکہ اس کے پیچھے شریعت پر عمل کا جذبہ اور انقلاب کا تصور کار فرما تھا، یہ وہ انقلابی تصور تھا جو محکومی اور محرومی سے آزاد ہونے کاجذبہ پیدا کرتا ہے اور یہ احساسس زیاںں پیدا کرکے خون کو گرماتا ہے اور قربانی پر آماد ہ کرتا ہے، امارت شرعیہ ایسے ہی انقلاب پسند لوگوں کی یادگار ہے۔
مولنا ابو المحاسن سجاد یہ سمجھتے تھے کہ نصب امیر کے لئے علماء کا اتحاد ضروری ہے اگر علماء نے مل کر اس کی حمایت نہیں کی، تو امیر کو وہ طاقت نہیں مل سکے گی جو ملنی چاہئے ، اس طرح سے مولانا سجاد نے جمعیۃ علماء کے قیام کی کوشش کی اور جمعیۃ علماء کا قیام امارت شرعیہ کے قیام کی تمہید تھا، لیکن پورے ہندوستان میں اس وقت جمعیۃ علماء کے قیام کے لئے راہیں ہموار نہ ہوسکیں، لیکن مولانا ابو المحاسن مولانا سجاد جمعیۃ علماء کی تاسیس کے لئے علماء کو برابر خطوط لکھتے رہتے تھے اور دورے بھی کرتے رہتے تھے، اور ان کے تمام اخراجات کی ذمہ داری قاضی احمد حسین صاحب اٹھاتے تھے، وہ جمعیۃ علماء کی تاسیس کی تحریک میں براہ راست شریک نہیں ہوئے لیکن وہ مولانا سجاد کے رفیق اور معاون کی حیثیت سے کام کرتے رہے، ایک دن مولانا سجاد نے قاضی صاحب سے کہا ہندوستان کے علماء کو ابھی جمعیۃ علماء کے قیام پر انشراح نہیں ہے، اس لئے میں چاہتا ہوں کہ فی الوقت گیا شہر میں علماء بہار کا جلسہ بلاؤں، قاضی احمد حسین صاحب نے نہ صرف اس سے اتفاق کیا بلکہ ہر طرح کا تعاون پیش کیا، چنانچہ اکتوبر ۱۹۱۷ء میں گیا شہر میں جمعیۃ علماء بہار کی بنیاد پڑی اور اس کا صدر مقام انوار العلوم گیا قرار پایا ، یہی جمیعۃ علماء بہار کل ہند جمیعۃ علماء کی خشت اول ہے ، ابتدائی تخیل کی یہی اساس ہے جس پر کل ہند جمیعۃعلماء کا ہیکل تعمیر ہوا ہے اس اعتبار سے مولانا سجاد کل ہند جمیعۃ علماء کے بنیاد گذاروں میں ہیں اور اگر اصل تخیل ہی کو اساس بنایا جائے تو جمیعۃ علماء کے معمار تو بہت ہیں لیکن بنیاد کا پتھر مولاناسجاد نے رکھا ہے ۔ اسی سال مولانا سجاد نے بہار میں جمعیۃ علماء بہار کا اجلاس عام کیا، اور جس میں مولانا محمود حسن اور مولانا ابو الکلام آزاد اور علی برادران وغیرہ کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا، یہ وہ وقت تھا کہ جب انگریزوں کے خوف سے لوگ کانپتے تھے اور مولانا آزاد اور علی برادران اور بالخصوص شیخ الہند کا نام لینا بھی پسند نہیں کرتے تھے، جمعیۃ علماء بہار کے قیام کے بعد مولانا سجاد نے قاضی احمد حسین صاحب کو لکھنؤ بھیجا کہ وہ مولانا عبد الباری فرنگی محلی سے تبادلہ خیال کریں، جمعیۃ علماء ہند کے قیام پر ان کو آمادہ کریں۔اس دور میں مولانا سجاد اور قاضی احمد حسین صاحب اور پھر مولانا عبد الباری فرنگی محلی کی کوششوں سے بہت سے علماء جمعیۃ علماء ہند کے قیام پر راضی ہوئے، جن میں ایک بہت اہم نام مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب اور مولانا احمد سعید صاحب کا ہے، در اصل نہ صرف امارت شرعیہ بلکہ جمعیۃ علماء کے تخیل کے پیش کرنے میں مولانا ابو المحاسن سجاد کا ہاتھ ہے ، اس تخیل کو جب پورے ہندوستان میں علماء نے قبول کرلیا تو تو پھر جمعیۃ علماء ہند کا قیام عمل میں آیا ، اور جمعیۃ علماء کی مجلس منتظمہ کی تشکیل ہوئی میری اس بات کی تردید یا تغلیط کے لئے یہ ضروری ہوگا کہ یہ ثابت کیا جائے کہ جمیۃ علماء بہار سے پہلے کہیں جمیعۃ علماء قائم ہوئی تھی یا کم ازکم یہ ثابت کیا جائے کہ مولانا سجاد کے اس تخیل سے پہلے کسی نے جمیعۃ علماء کا تخیل پیش کیا تھا۔ اس کے بعد جمیعۃ کے اجلاس میں مولانا آزاد نے بھی شرکت کی، ترک موالات کی تجویز پیش کی، جو منظور کی گئی ، ترک موالات کا منشا یہ تھا کہ سرکاری تقریبات میں حصہ نہ لیا جائے اور سرکاری ملازمتیں قبول نہ کی جائیں اور خطابات واپس کر دئے جائیں اور سرکاری اسکول اور کالج چھوڑ دئے جائیں، اور پھر اس ترک مولات کی تجویز نے ایک فتوے کی شکل اختیار کرلی، جسے مولانا ابو المحاسن مولانا سجاد نے لکھا تھا، اور ۵۰۰ علماء کے اس پر دستخط تھے۔
قاضی احمد حسین صاحب قدم قدم پر مولانا ابو المحاسن سجادکے رفیق رہے اور امارت شرعیہ اور جمعیۃ علماء دونوں کی سر گرمیوں میں انہوں نے حصہ لیا، اور پھر وہ وقت آیا کہ انہوں نے خلافت تحریک اور کانگریس میں بھی شمولیت اختیار کی، اور خلافت تحریک کی پہلی شاخ گیا شہر میں قائم ہوئی اوریہ شاخ قاضی احمد حسین صاحب کی بدولت سب سے زیادہ سر گرم اور متحرک تھی، اور پھر وہ وقت بھی آیا ایک رات ۱۹۲۱ء عیسوی میں خلافت کانفرنس گیا کے دفتر پر پولس نے چھاپا مارا اور قاضی احمد حسین صاحب گرفتار کر لئے گئے، اور ان کو بغاوت کے الزام میں چھ ماہ کی قید بامشقت کی سزا دی گئی، احتجاج کے طور پر شہر گیا کے تمام دکانیں بند ہوگئیں، اور سرکاری دفاتر میں بھی بہت سے لوگ نہیں گئے ۔ستم ہائے روزگار کے گرداب میں تنہا قاضی احمدحسین صاحب نہیں تھے ، ان کے مونس وغم خوار اور غم گسار بھی بہت تھے ۔ان تمام باتوں سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جمعیۃ العلماء اور امارت شرعیہ میں حلقئہ علماء سے باہر جو شخصیت ملکی اور ملی خدمات کے اعتبار سے سب سے زیادہ مقبول ومتعارف تھی وہ قاضی احمد حسین صاحب کی شخصیت تھی، اور اسی لئے جب ملک عبد العزیز بن سعود نے حجاز پر قبضہ کیا اور انہوں نے عالم اسلام کی ایک مؤتمر ۱۹۲۶ ء میں مکہ معظمہ میں بلائی ، جس میں عالم اسلام کے ساٹھ اعیان ومشاہر شریک ہوئے، جس میں ہندوستان سے ۱۳ علماء و قائدین تھے، تو اس وفد میں قاضی احمد حسین صاحب کو بھی شامل کیا گیا۔، مولانا محمد علی جوہر اور علامہ سید سلیمان ندویؒ بھی اس وفد میں تھے، جمعیۃ علماء کی قیادت مولانا مفتی کفایت اللہ کر رہے تھے، اور اسی طرح جب بہار کی مجلس قانون ساز بنی اور انتخابی سیاست میں سرگرم حصہ لینے کے لئے انڈپنڈنٹ پارٹی اور نیشنلسٹ مسلم پارلمنٹیری بورڈ کا قیام عمل آیا، تو قاضی احمد حسین صاحب بھی اس میں ایک سر گرم اور فعال کی حیثیت سے کام کرتے رہے، اور الیکشن میں کامیاب بھی ہوئے، لیکن وہ کونسل کی ممبری کو ملی اور قومی مقاصد کے لئے استعمال کرتے تھے، اور پھر انہوں نے ہندستان کی تاریخ میں اوقاف کے مسئلہ میں بھی سرگرمی کے ساتھ حصہ لیا، اور ان تمام کاموں کے ساتھ ساتھ امارت شرعیہ کے تمام کاموں میں ذوق وشوق کے ساتھ حصہ لیتے تھے، اور امارت کی مجلس شوری نے ایک سب کمیٹی مجلس انتخابات کے نام سے بنائی تو اس کے سکریٹری قاضی احمد حسین صاحب تھے، اور جوائنٹ سکریٹری مولانا منت اللہ رحمانی تھے، انڈبنڈنٹ پارٹی کی تمام میٹنگس میں مولانا ابو المحاسن محمد سجاد صاحب کے ساتھ وہ بھی ایک رکن کی حیثیت سے شریک رہتے تھے، اور مولانا سجاد کے انتقال کے بعد قاضی احمد حسین صاحب کو انڈیپنڈینٹ پارٹی کاصدر بھی بنایا گیا، اور جب بہار میں مسلم پارلمنٹری بورڈ کا قیام عمل میں آیا تو مولانا حفظ الرحمن صاحب کی تجویز پر قاضی احمد حسین صاحب بہار کی شاخ کے صدر بنائے گئے، اور جب وہ وقت آیا کہ کانگریس کو بہار اسمبلی میںکچھ ممبر کونسل کا انتخاب کرنا تھا، تو ڈاکٹر راجندر پرشاد کی خواہش پر ایک ممبر قاضی احمد حسین صاحب کو بنایا گیا، کیوں کہ اس سے جمعیۃ علماء اور امارت شرعیہ دونوں کی نمائندگی ہوجاتی تھی، اس کے بعد وہ وقت آیا کہ قاضی احمد حسین صاحب پارلمنٹ کے ممبر منتخب ہوئے، اور خود قاضی صاحب نے اس کی خواہش اس لئے کی تھی کہ ملی اور قومی سرگرمیوں میں پولس اور سی آئی ڈی کا محکمہ ان کو پریشان نہ کرے، اور اس کام کے لئے براہ راست کوشش کرنے کے بجائے انہوں شاہ محمد عثمانی صاحب کو جو قاضی احمد حسین صاحب کے عزیز بھی تھے مولانا آزاد سے ملنے کیلئے دلی بھیجا، اور انہوں نے اس سلسلہ میںمولانا آزاد کے علاوہ مولانا حفظ الرحمن اور راجندر پرشاد سے بھی ملاقات کی،
قاضی احمد حسین صاحب مولانا ابو المحاسن مولنا سجاد صاحب ؒ کے معاون خاص اور ان کے تمام کاموں میں شریک وسہیم رہے ،امارت شرعیہ کا قافلہ مولانا سجاد کی رہتمائی میں جادہ پیما ہوا قاضی احمد حسین صاحب اس قافلہ کے پرجوش اور باہوش حدی خواں تھے وہ بلبل خوش نواکیٍ مانند بہار میں امارت کا راگ الاپ رہے تھے ، امارت شرعیہ ، جمعیۃ علماء بہا ر اور انڈپینڈنٹ کے سارے کاموں میں وہ مولانا ابو المحاسن مولنا سجاد صاحب کے دست راست تھے، کیوں کے وہ گھر کے زمیندار تھے، اس لئے مالی تعاون بھی اکثر کیا کرتے تھے، اور شروع میں باضابطہ کسی عہدے پر فائز ہوئے بغیر وہ امارت شرعیہ کی نظامت کے تمام کام انجام دیتے تھے، اور بعد میں امیر شریعت دوم کے اصرار پر انہوں نے با ضابطہ ناظم امارت شرعیہ اور ناظم بیت المال کا عہدہ قبول کرلیا تھا ، اور پھر مسلسل دو مرتبہ پارلمنٹ کے ممبر نامزد ہونے کی وجہ سے پورے ہندوستان میں مسلمانوں کے حالات اور مسائل سے ان کی بہت گہری دلچسپی تھی، چنانچہ ہندو کوڈ بل اور شادی اور طلاق بل کے سلسلہ میں انہو ںنے مسلمانوں کے شعور کو بیدار کرنے کی کوشش کی ، اور حکومت کے لوگوں کو بھی متوجہ کیا، خاص طور سے جب پالیمنٹ میں ہندو میریج اور ڈایورس بل کے سلسلہ میں ایسی دفعات بھی پاس ہوئیں ، کہ بہت سے مسلمان ،عیسائی پارسی اور یہودی بھی بعض حالات میں ہندو تصور کئے جائیں گے، اسی طرح سے مولانا آزاد کے انتقا ل کے بعد جو صاحب وزیر تعلیم بنے انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ والوں سے کہا کہ آپ جامعہ کے نام کے ساتھ اسلامیہ کا لفظ نکال دیں ، تب ہی حکومت اس کو یونیورسٹی کا درجہ دے گی، اور پروفیسر مجیب صاحب اس پر راضی بھی ہوگئے تھے لیکن قاضی احمد حسین صاحب نے جامعہ ملیہ کے بہت سے کارکنوں کو اور ملت کے باشعور لوگوں کو اس کی مخالفت کے لئے کھڑا کیا، اور قاضی صاحب نے وزیر تعلیم اور پروفیسر مجیب صاحب کی شدید مخالفت شروع کی، اسی طرح سے مسلم یونی روسٹی علی گڑھ کے اسلامی کردار کی بحالی کے سلسلہ میں بھی قاضی صاحب کا بہت اہم رول ہے، انہوں نے علی گڑھ والوں کی غیرت کو للکارا تھا،اور لوگوں کو گشتی مراسلے بھیجے تھے۔
قاضی احمد حسین صاحب ممبر پالیمنٹ تھے اور ناظم امارت شرعیہ تھے اسی کے ساتھ وہ ایک داعی بھی تھے انہوں نے منبران پارلمنٹ کے درمیان اسلام کے تعارف کی حتی المقدور کوشش کی، اور وہ اس طور پر کہ دین اسلام کے تعارف پر انگریزی میں ایک کتابچہ چھپوایا، اور ۱۲ ربیع الاول یوم میلاد النبی کے موقع پر تمام غیر مسلم ممبروں میں کتابچہ تقسیم کرایا اور انہوں نے ہندوستان کی قدیم اقوام ڈراویڈینس کے لیڈروں سے تعلقات قائم کئے، ان سے خط کتابت کی اور وہ مسلمانوں کے ساتھ ان کا اتحاد چاہتے تھے اور اس سلسلہ میں انہوں نے کافی پیش رفت کی تھی، ان کی تعلیمی خدمات میں مدرسہ انوار العلوم گیا بھی ہے، جسے قائم تو مولانا سجاد نے کیا تھا لیکن اس کے تمام انتظامات میں قاضی صاحب دخیل تھے، اور اسی طرح سے جب گیا میں قاضی ہاشمی ہائسکول قائم ہوا تو انہوں نے حکومت سے اس اسکول کو تسلیم کرانے میں بہت اہم رول ادا کیا، مدرسہ اسلامیہ بتیا کو بھی اپنا تعاون دیا، اورانہوں نے ایک زنانہ مدرسہ بھی قائم کرنے کی کوشش کی، بچوں کے لئے ابتدائی دینی کتابیں مرتب کیں جو بہت آسان زبان میں لکھی گئیں تھیںاور جو امارت کی طرف سے شائع بھی ہوئی تھیں ، اور یہ کتابیں حسب ذیل ہیں:
۱۔ ایمان کی کتاب ۲۔ عبادت کی کتاب ۳۔ اخلاق کی کتاب۔موجودہ ضرورتوں کا لحاظ کرتے ہوئے انہوں نے مدرسہ شمس الہدی میں ہندی کے اختیاری مضمون کو رکھنے کی سفارش کی، وہ ہندوستان کے اتنے بااثر اور باشعو راور مقبول قائد بن گئے تھے کہ مولانا ابو الحسن علی ندوی نے مجلس انتظامیہ ندوۃ العلماء کا ان کو رکن بنایا تھا ، اسی طرح سے ہندوستان میں جب دستور بننے لگاتو اس مین یہ دفع بھی رکھی گئی تھی کہ کسی مذہب کا پر سنل لا باقی نہ رکھ کر یکساں سیول کورٹ پنایا جائے گا تو قاضی احمد حسین صاحب نے سب سے پہلے تمام مسلم قائدین کو بہ شمول مولانا ابو الکلام آزاد اور مولانا حسرت موہانی اور مولانا حفظ الرحمن کو خطوط لکھے ، اور توجہ دلائی ۔
قاضی احمد حسین صاحب اس پورے عرصہ میں مولانا ابو المحاسن محمد سجاد ؒ اور امیر شریعت اول مولانا شاہ بدر الدین صاحب ، اور امیر شریعت دوم مولانا شاہ محی الدین صاحب وغیرہ کے زمانے میں نہ صرف بہار میں بلکہ پورے ہندوستان میں مسلمانوں کے نہایت متحرک اور سرگرم قائد رہے، قاضی احمد حسین صاحب کے نام جن اہم شخصیتوں کے خطوط محفوظ ہیں ان میں مہاتماگاندھی ، مولانا ابو الکلام آزاد، ڈاکٹر راجیندر پرشاد، ڈاکٹر سید محمود ، مولانا منظور نعمانی ، مولنا ابو الحسن علی ندوی ، مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی ، ڈاکٹر عبد العلی ناظم ندوۃ العلماء ، مسلم صاحب ایڈیٹر سہ روزہ ’’دعوت‘‘، مولانا محمد یوسف صاحب امیر جماعت تبلیغ ، مولانا ابو المحاسن محمد سجاد ، مولانا سید سلیمان ندوی جیسی شخصیتیں ہیں۔ کتاب ’’حسن حیات ‘‘میں جو قاضی احمد حسین صاحب اور امارت اور جمیعۃ علماء کی تاریخ پر مشتمل ہے، یہ خطوط نقل کردئے گئے ہیں ۔
امارت شرعیہ ہندوستان میں مسلمانوں کی قدیم ترین تنظیم ہے اس کے دستور پر نظر ثانی کی شدید ضرورت ہے ۔ علماء قدیم اس بات کے قائل تھے کہ امیر تازندگی امیر رہتا ہے وہ ارذل العمر کو پہونچ جائے اندھا اور بہرا ہوجائے مفلوج ہوجائے جب بھی کوئی اسے ہٹا نہیں سکتا ہے ۔ وہ، مختار کل ہوتاہے وہ کبھی شوری کا پابند نہیں رہتا ہے تمام اراکین شوری ایک طرف ہوں جب بھی وہ شوری کی رائے کے برعکس فیصلہ کرسکتا ہے۔ لیکن جدید دور کے علماء نے ان باتوں سے اختلاف کیا ہے ان میں نمایاں نام شیخ یوسف القرضاوی کا ہے انہوں نے اپنی کتاب ’’فقہ الدولۃ ‘‘ میں ان مسائل سے بحث کی ہے اور دلیلیں دی ہیں۔ اسی موشوع پر اردو میں بھی ایک اہم کتاب ’’ اسلام کا نظام سیاست اور حکومت ‘‘ شائع ہوئی ہے ناشر کا نام اور پتہ ہے ’’ نیو کریسنٹ پبلیکیشن گلی قاسم جان، بلی ماران دہلی ‘‘اراکین شوری کواور علماء اور اہل ذوق کو اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہئے ۔ امارت شرعیہ کی تاریخ لکھی تو گئی ہے لیکن اس میں نا انصافی اور نا واقفیت جھلکتی ہے،ناتربیت یافتہ لوگوں نے لکھی ہے اور ناتربیت یافتہ لوگوں نے لکھوائی ہے بعد میں آنے والوں نے ’’ ہمچو ما دیگرے نیست ‘‘ کا انداز اختیار کیا ہے ، ان کے دونوں ہاتھ کی انگلیاں نیم وا مٹھی کی طرح صرف اپنی ذات کی طرف اشارہ کرتی ہیں ۔ ،اب امارت شرعیہ کے اولین اساطین اور بنیاد گذاروں کو نظر انداز کیا جارہاہے، اب بعد میں آنے والوں کو قصیدوں سے سرفراز کیا جارہا ہے، بانی امارت شرعیہ مولانا سجاد کی قبر گورستان میں بے نشان ہورہی ہے ’’ مٹے نامیوں کے نشان کیسے کیسے ‘‘کا مصداق بن رہی ہے، ماضی قریب کی اہم شخصیتوں کا جیسے مولانا مجاہدالاسلام القاسمی ، مولانا نظام الدین کا دور دور کوئی تذکرہ نہیں۔یہ دونوں امارت شرعیہ کے ستون تھے اور ان دونوں کے ساتھان کے ماتحت کی جانب سے اور شاگرد کے جانب سے مسلسل بے توقیری اور اہانت کا معاملہ کیا جاتا رہا اور یہ غم ان دونوں کے لئے دل کا داغ اورسینہ کا چراغ بن گیا اور اسی صدمہ جانگاہ اور سوزش غم کی حالت میں مبتلا رہ کر وہ دنیا سے سدھار گئے ۔قیامت کی نشانیوں میں سے ہے کہ طبقہ ادنی کے لوگ انچی اونچی عمارتوں کے مالک بنیں گے اور یہ بھی قیامت کی نشانی ہے کہ ناتربیت یافتہ لوگ قیادت کی کرسیوں پر براجمان ہوجائیں گے اب وہ زمانہ ہے کہ سارا فوکس ان پرہے جو بقلم خود شیخ الاسلام ،فخر الاسلام اور مفکر الاسلام ہیں ۔ امارت شرعیہ کا آرگن زبان حال سے کہ رہا ہے
آپ ہیں آپ ،آپ سب کچھ ہیں
اور ہیں اور ، اور کچھ بھی نہیں
(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.