ایمان کی طاقت

مفتی شرف الدین عظیم قاسمی
امام و خطیب مسجد انوار گوونڈی ممبئی

ایک انسان کے لئے اس سے زیادہ خوش بختی ۔۔اس سے بڑی سعادت کوئی نہیں ہے کہ وہ واقعی اللہ تعالیٰ کا بندہ بن جائے۔

کہ انسانیت کی معراج کا راز عبدیت کی ذات میں پوشیدہ ہے، اور حقیقت یہ ہے کہ اسی مقصد کے لیے انسانوں کی تخلیق ہوئی ہے اور مقاصد کا حصول ہر ذی شعور کے نزدیک کامیابی اور کامرانی ہے’۔

لیکن اسی کے ساتھ یہ امر بھی قابل ذکر ہے’کہ یہ سرمایہ ایمان کی دولت،وحدانیت کی معرفت۔۔اور یقین کے اثاثے کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
زندگی میں نظر آنے والی بے شمار نعمتیں ہیں’،وسائل ہیں۔
ذرائع ہیں’،ایک لمحے کو راحتوں سے مزین کرنے والے سامانوں کی کثرت ہے’۔
مگر جو رتبہ ایمان کو حاصل ہے’، جو درجہ توحید کے یقین کو میسر ہے’۔۔ جو بلندی عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قافلے کے جلو میں چلتی ہے’۔دنیا کی دوسری ظاہری نعمتوں سے اس کیا تناسب۔۔۔کہ بلندی اور پستی۔۔ کی ان دونوں کے درمیان وہ نسبت ہے’جو ثریا اور تحت الثریٰ ۔۔اور سمندر اور قطرے میں موجود ہے۔اور حق یہ ہے’کہ ایمان کی نسبت اس سے بھی کہیں زیادہ اونچی ہے’،اس قدر کہ انسانی عقلوں کی وہاں تک رسائی ممکن نہیں۔

یہ وہ سرمایہ ہے’،جس کے ذریعے آخرت کی ابد الآباد زندگی روشن تو ہوتی ہی ہے’ مگر دنیا میں بھی تمام تر آزمائشوں کے باوجود، دلوں کی دنیا میں ہمہ دم خوشگوار ہواؤں کے جھونکے چلتے رہتے ہیں،
طمانیت کی لہریں وجود ہر لمحہ سرشار رکھتی ہیں۔
ایک مومن کی صبح بھی خوبصورت افکار میں گذرتی ہے’اس کی شام بھی کیف وسرمستی میں باد صبا کی طرح نغمے گاتی ہے’۔

حوادثات آتے ہیں’،مگر اس کی روح میں تزلزل نہیں پیدا کرپاتے ہیں’۔
پریشانیاں بادلوں کی طرح گھیرتی ہیں’ مگر ایمان کی روشنی اسے بے قابو نہیں ہونے دیتی ہے۔
مصائب کے طوفان آتے ہیں اور اس طرح آتے ہیں کہ مادی رعنائیاں کہیں گم ہوجاتی ہیں۔۔۔گھروں کے زمزمے سناٹوں میں بدل جاتے ہیں ۔۔۔بھراپرا خاندان لمحوں میں زیر وزبر ہوجاتا ہے’۔مگر صدمات کا یہ سیلاب بھی اہل ایمان کی استقامت کو چیلنج نہیں کرپاتا ہے’۔مومن کے اعتدال میں فرق نہیں آتا ہے’ ۔۔یقین کا سفر اسی طرح جاری رہتاہے جیسا خوشحالی کے عہد میں شروع ہوا تھا،اس کی نگاہیں رب کائنات قوت پر پہلے بھی رہتی تھیں اب بھی اسی طرح پر اعتماد رہتی ہیں

حالیہ دنوں میں نیوزیلینڈ کے سانحہ میں اسلام کی ایک بیٹی مسنر نعیم راشد کے گلشن ہستی پر آنے والی ہوشربا خزاں کے وقت ایمان و یقین کی وہی قوت نظر آئی ہے جو قرن اول کے نفوس قدسیہ کے کرداروں میں آسمان کی نگاہوں نے دیکھا تھا۔

یقین توحید سے سرشار اس خاتون کا سہاگ دہشت گردانہ حملوں میں اجڑ گیا، اس کی گود سونی ہوگئ،جواں سال شوہر اور نوجوان لختِ جگر شہید ہوگئے۔۔باغ ہستی ویران ہوگیا۔۔ آرزؤں کا محل مسمار ہوگیا۔۔تمنائیں خون ہوکر رہ گئیں۔۔خوابوں ایک دنیا تھی جو ریزہ ریزہ ہو کر رہ گئی۔۔
دنیا اس المناک حادثے پر حیرت زدہ رہ گئی۔۔
مگر اس سے زیادہ استعجاب کے سمندر میں اس وقت غرق ہوئی۔جب ایک رپورٹر کے انٹرویو میں اس مومنہ خاتون کا صبر واستقامت سامنے آیا۔
اور اس شان سے آیا کہ ایک ضعیف صحابیہ رضی اللہ عنہا کی وہ استقامت،وہ استقلال۔وہ ایمان جو غزوۂ احد کے موقع پر اس کے شوہر اس کے بھائی اس کے بیٹوں کی شہادت کی صورت میں تاریخ نے اپنے دامن میں محفوظ کیا ہے’۔۔
اس کے پورے مناظر نگاہوں کے سامنے آگئے۔کون کہ سکتا ہے کہ مسنر نعیم راشد کے وجود پر ٹوٹنے والے غموں کے پہاڑ کے جاں گسل لمحوں میں رضا بالقضاء کا مظاہرہ حضرت خنساء رضی اللہ عنہاکے ان تاریخ سازکرداروں کے مماثل نہیں ہے جس میں اس کے چار جوان بیٹوں کی شہادت کے بعدبھی صبر و ثبات اور رضائے الٰہی کی کرنیں اس کی پیشانی پر پھوٹتی نظر آرہی تھی۔

اہل اسلام نےبے شمار موسم درد والم کاسامنا کیا ہے’،مصائب کو خوشی سے برداشت کیا ہے’، صبر و رضامندی کا ثبوت دیا ہے اور یہ سب کچھ صرف ایک خدا کے نام پر جھیلا ہے،ان کی زبانیں شکوؤں سے نابلد تھیں،ان کے قلوب شکایتوں سے ناآشنا تھے،کہ اسلام کی تعلیمات اور پیغمبر اسلام سے محبت اور اتباع کا یہی تقاضا تھا۔۔

آج اس خاتون اسلام نے گریہ و بکا کے بجائے تقدیر پر ایمان، مشیت ایزدی پر پہاڑوں جیسے یقین کے ذریعے اپنے آنسوؤں کو ضبط کے حصار میں قید کرکے اسی کاروانِ ایمان کی تاریخ کو دہرایا ہے’۔۔

اسے اس بات کا یقین تھا خون میں نہائی ہوئی سرتاج کی نعش جنت الفردوس کی معزز مہمان ہے’،زخموں سے چور جواں سال بیٹے کا کفن درحقیقت جنت کا وہ لباس ہے’جو حق تعالیٰ کے یہاں بے پناہ قدروقیمت رکھتاہے،

اشکوں کے اس ماحول میں جہاں ایک رپورٹر اپنے آنسوؤں کو نہ روک سکی۔دختر اسلام کی حیرت انگیز سرشاری اس کے ایمان کی مضبوطی،اس کے یقین کی طاقت،اور اس کی وحدانیت کی معرفت جہاں اس خوش بختی کا راز کھول رہی تھی۔
وہیں اسلام کی حقانیت سے بھی پردہ اٹھا رہی تھی۔

کیا عجب کہ اس کے اس لازوال کردار سے اسلام سے ناآشنا قلوب میں ایمان کی روشنی پھیل جائے۔۔تاریکیوں سے روشنی کی طرف لوگوں کے قدم اٹھ جائیں، اسلام کےسرمدی نغموں سے وجود سرشار ہوجائیں۔۔

اے اسلام کی بیٹی تیرے کرداروں کو بے شمار سلام کہ تونے اپنے ایمانی عمل سے خدائے حقیقی کے نظام کی حقانیت کو ثابت کیا ہے۔
دختر اسلام۔۔تیرے سر پر قادر وہاب کی رحمتیں بارشوں کی طرح اس طرح برس جائیں کہ زندگی کا سفر کیف وسرمستی کی راہوں میں رواں دواں ہوجائے۔
(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.