Baseerat Online News Portal

اصلاح و تربیت کا حکیمانہ انداز

مولانا محمد قمرالزماں ندوی

مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

 

علامہ ابن کثیر رحمۃاللہ علیہ نے ابن ابی حاتم کی سند سے نقل کیا ہے کہ ایک شخص اہل شام میں سے بڑا با رعب اور قوی تھا اور حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے پاس آیا کرتا تھا ،ایک بار کچھ دنوں تک وہ آپ کے پاس نہ آیا تو حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے دریافت کیا، لوگوں نے کہا امیر المومنین ! اس کا حال نہ پوچھیے وہ تو شراب میں بد مست رہنے لگا ھے ۔ فاروق اعظم نے اپنے منشی کو بلایا اور فرمایا کہ یہ خط لکھو۔” منجانب عمر بن خطاب بنام فلاں بن فلاں! السلام علیکم ۔اس کے بعد میں تمہارے لئے اس اللہ کی حمد پیش کرتا ھوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ گناہوں کو معاف کرنے والا ،توبہ قبول کرنے والا، سخت عذاب والا ، بڑی قدرت والا ھے ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اس کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔

پھر حاضرین مجلس سے فرمایا کہ سب مل کر اس کے لئے دعا کرو کہ اللہ تعالی اس کے قلب کو پھیر دے اور اس کی توبہ قبول فرمائے، فاروق اعظم نے جس قاصد کے ہاتھ یہ خط بھیجا اس کو ھدایت کر دی تھی کہ یہ خط اس کو اس وقت تک نہ دے جب تک کہ وہ نشے سے ہوش میں نہ آئے اور کسی دوسرے کے حوالے نہ کرے ،جب اس کے پاس حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا یہ خط پہونچا اور اس نے پڑھا تو بار بار ان کلمات کو پڑھتا اور غور کرتا رہا کہ اس میں سزا سے ڈرایا بھی گیا ہے اور معاف کرنے کا وعدہ بھی کیا گیا ہے پھر رونے لگا اور شراب خوری سے باز آ گیا ،اس نے ایسی توبہ کی کہ پھر اس کے پاس نہ گیا یعنی شراب کے قریب نہ گیا۔

حضرت فاروق اعظم کو جب اس اثر کی خبر ملی تو لوگوں سے فرمایا کی ایسے معاملات میں تم سب کو ایسا ہی کرنا چاہئیے ۔کہ جب کوئی بھائ کسی لغزش میں مبتلا ہو جائے تو اس کو درستی پر لانے کی فکر کرو اور اس کو اللہ کی رحمت کا بھروسہ دلاو اور اللہ سے اس کے لئے دعا کرو کہ توبہ کر لے اور تم اس کے مقابلہ پر شیطان کے مددگار نہ بنو ،یعنی اس کو برا بھلا کہہ کر یا غصہ دلا کر دین سے اور دور کر دو گے تو یہ شیطان کی مدد ہوگی ۔

(انسانی عظمت کے تابندہ نقوش مرتبہ راقم الحروف)

مذکورہ واقعہ سے یہ سبق اور پیغام ملا کہ ایک داعی کو شفیق ،ہمدرد، غمگسار، مخلص اور حکیم و دانا ہونا چاہیے۔ اس کے اندر روحانی مرض کی تشخیص اور اس کے درست اور صحیح علاج کی صلاحیت ہو ۔ وہ یہ جانتا ہو اور اس امر سے خوب واقف ہوکہ کس مریض کا علاج کس طرح سے کیا جائے اس کو کتنا ڈوز دیا جائے اور علاج کا کون سا طریقہ اس مریض کے حق میں بہتر اور مفید ہوگا ۔ ایک نسخہ اور ایک ہی طریقہ علاج پر ضد اور اصرار یہ کسی بہترین طبیب اور ڈاکٹر کی پہچان نہیں ہے ۔ ایک داعی کو بھی مریض کے روحانی علاج کے لئے ان کی اصلاح و تربیت کے لئے موقع کی مناسبت کے ساتھ علاج و اصلاح اور تربیت کا راستہ اختیار کرنا چاہئے ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری دعوت حکمت سے عبارت ہے ۔ قرآن مجید میں بھی آپ کو مخاطب بنا کر امت کو یہ تلقین کی گئی ہے کہ حکمت و موعظت اور جدال احسن کے ساتھ آپ فریضہ دعوت ادا کیجئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کائنات میں بحیثیت مبلغ و معلم اور مربی بنا کر بھیجے گئے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فریضہ کو پوری ذمہ داری اور حکمت سے انجام دیا اور زندگی بھر اس کے لئے الگ الگ انداز اور مختلف طریقے سے جدوجہد کی اور اپنے بعد اس کام کو امت کے سپرد کیا ۔ اب اس امت کا فرض ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے انداز اور نہج میں اس کو انجام دینے کی کوشش کرے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت دین کے لئے جن ذرائع کا استعمال کیا وہ حسب ذیل ہیں ۔ تقریر و وعظ،خطوط نگاری، دعوتی و تبلیغی اسفار،وفود اور جماعت کی روانگی، تلاوت قرآن اور اس کی تفسیر ،پچھلی امتوں کی داستان ۔ ترغیب و ترہیب ۔ ہم دردری و محبت کا اظہار ۔ تالیف قلب اور مالی نصرت و تعاون۔ انفاق ۔ بسا اوقات جوش و ولولہ کا اظہار ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت میں جو حکمتیں پائی جاتی تھیں اس کی تفصیل ہم عناوین کی شکل میں یوں سمجھ سکتے ہیں ۔

انسانی نفسیات کی رعایت ۔ مخاطب کے ذہنی و فکری سطح کی رعایت ۔ منطقی طرز استدلال ۔ دعوت دین میں تدریج کا پہلو ۔ ان تمام عناوین اور سرخیوں کی تفصیلات اور قرآن و احادیث سے اس کے نمونے ان شاء اللہ ہم آپ کی خدمت میں پیش کریں گے ۔ آج بس اتنا ہی ۔

(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.