Baseerat Online News Portal

اگر ہم نے اپنی صفوں کو متحد نہیں رکھا

مولانا محمد قمرالزماں ندوی

مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

 

اس میں کسی کو شک نہیں اور اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس وقت برصغیر میں بھی اور عالمی سطح پر بھی مسلمانوں کی ذلت، رسوائی، تنہائی، ناکامی، مغلوبیت و مظلومیت اور ادبار و پستی کی دو بنیادی وجوہات و اسباب ہیں ۔ ایک دین و شریعت سے دوری و بے تعلقی دوسرے آپسی اختلاف و انتشار اور کشمکش ۔ جب تک مسلمان ان دونوں پہلوؤں کو اپنی زندگی میں عملی طور پر نہیں لائیں گے ان کی ادبار و نکبت، محرومی اور ناکامی و بربادی کی تاریخ طویل سے طویل تر ہوتی چلی جائے گی ۔ مسلمانوں کی کامیابی اور کامرانی کے لئے اعتصام بحبل اللہ (یعنی اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنا) بھی ضروری ہے اور اجتماعیت بھی ۔ اللہ تعالٰی قرآن مجید میں اس جانب ہمیں یوں متوجہ فرماتے ہیں کہ و اعتصموا بحبل اللہ جمعیا ولا تفرقوا(القرآن) اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور آپس میں منتشر نہ ہو ۔

اسی لئے علماء کرام اور مصلحین امت ہمیشہ مسلمانوں کو ان دو باتوں کی طرف متوجہ کرتے رہے ہیں۔

شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ جب مالٹا سے واپس ہوئے تو انہوں نے برملا اس کا اظہار و اعتراف کیا کہ میں نے جہاں تک جیل کی تنہائیوں میں اس پر غور کیا کہ پوری دنیا میں مسلمان دینی و دنیوی ہر حیثیت سے کیوں تباہ ہو رہے ہیں؟ تو اس کے دو سبب معلوم ہوئے ۔ ایک ان کا قرآن مجید چھوڑنا ،دوسرے آپس کے اختلاف اور خانہ جنگی ۔

اس کے بعد انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ اپنی باقی زندگی قرآن مجید کی تعلیم اور اتحاد امت کے لئے وقف کردوں گا اور پھر انہوں نے عملا اس کو برت کر دکھایا اور اپنی زندگی کے باقی ایام کو انہی کاموں کے لئے وقف کر دیا ۔ گو اس کے بعد حضرت شیخ الہند اس دار فانی میں بہت کم دن رہے ۔

ماضی قریب کے ایک متبحر اور عبقری عالم دین، امت مسلمہ کے حدی خواں ،نقیب ملت، قاضی شریعت حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی رح نے اتحاد ملت کو اپنی زندگی کا مشن اور وظیفہ بنایا تھا ۔ انہوں نے ایک موقع پر مسلمانوں کو اتحاد کی دعوت دیتے ہوئے اپنے کلیجے کو نکال کر امت سے یوں خطاب فرمایا تھا ۔

اتحاد کب ضروری نہیں رہا،لیکن موجودہ حالات میں جب کے آپ کے بدخواہ بڑے بڑے بنیادی اختلاف کے باوجود صرف آپ کی عداوت کے جذبہ سے متحد ہو رہے ہیں، جن لوگوں کا ایک ساتھ ایک اسٹیج پر بیٹھنا بھی ناقابل تصور تھا،وہ ایوان اقتدار میں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ہوئے ہیں، اور لوگ آب و آتش کے اجتماع کو کھلی ملاحظہ کر رہے ہیں ( آنکھوں دیکھ رہے ہیں) ان حالات میں ہمارے لئے اتحاد اور وحدت کلمہ پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہے ۔ اگر تاریخ کے اس نازک موڑ پر بھی ہم نے اپنی صفوں کو متحد نہیں رکھا اور اپنے کو انتشار سے نہیں بچایا تو اس سے زیادہ بدبختی اور کم نصیبی کوئی اور نہیں ہوسکتی،اور اس طرح سے ہم یقینا اس ملک میں ایک باعزت قوم کی حیثیت سے رہنے کا حق کھو دیں گے، ولا تنازعوا فتفشلوا و تذھب ریحکم۔ اس وقت اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ ہماری زبان وحدت امت کا بیان ہو،ہمارا قلم محبت کا نقیب اور دلوں کو جوڑنے کا سامان ہو۔ چھوٹے چھوٹے جزوی اور فروعی مسائل میں ہم اپنے آپ کو الجھانے سے بچیں ،سیاسی وابستگیوں کو امت کے وسیع تر مفادات کی راہ میں حائل نہ ہونے دیں ،یہی اس وقت دین سے اور امت سے محبت کا تقاضہ ہے۔ اگر ہم نے اپنی صفوں کو متحد رکھا، اور دوش سے دوش اور قدم سے قدم ملا کر آگے بڑھے، تو انشاءاللہ آئندہ بھی کامیابی ہمارے قدم چومے گی، کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی،جو ہماری راہ سے نہ ہٹے ،اور کوئی دشواری نہ ہوگی جو آسان نہ ہو. ( اقتباس از خطاب حضرت قاضی مجاہد الاسلام قاسمی رحمۃ اللہ علیہ)

کاش امت اپنے بھولے سبق کو یاد کرلے اور متحد ہوکر یہ ثابت کر دے ۔

قوم گویا جسم ہے افراد ہیں اعضائے قوم

منزل صنعت کے رہ پیمانے ہیں دست و پائے قوم

(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.