Baseerat Online News Portal

عبادت گاہوں کا احترام اور اسلام

شمع فروزاں

مولاناخالدسیف اللہ رحمانی

سکریٹری و ترجمان آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈ

نیوزی لینڈ میں مؤرخہ ۱۵؍مارچ ۲۰۱۹ء کو مسجد کے اندر نمازیوں پر حملہ کا جو واقعہ پیش آیا، اس سے نہ صرف پوری دنیا کے مسلمان تڑپ اُٹھے؛ بلکہ اس واقعہ نے ہر انصاف پسند انسان کو ہلا کر رکھ دیا؛ کیوں کہ یہ نہ صرف اجتماعی قتل کا واقعہ ہے؛ بلکہ یہ واقعہ اللہ کے گھر میں پیش آیا ہے، جو جانی نقصان ہوا وہ تو ہواہی ؛ لیکن اس کے علاوہ مذہبی مقام سے نفرت کا اظہار بھی ہوا، جو بے حد افسوسناک ہے، اس واقعہ پر نیوزی لینڈ کی حکومت نے جس قدر جلد اور جتنا مؤثر قدم اُٹھایا، اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے، برطانیہ، کناڈا، سلامتی کونسل اور یوروپی یونین نے بھی پوری قوت کےساتھ مسلمانوں سے یکجہتی کا اظہار کیا، یہاں تک کہ ٹرمپ جیسے شدت پسند فرمانروا کو بھی اس واقعہ کی مذمت کئے بغیر چارہ نہیں رہا، اس موقع پر ہمارے وطن عزیز ہندوستان کی موجودہ حکومت کی ڈھٹائی بھی ذہن میں تازہ ہو گئی کہ جب عدالت نے گجرات فساد ۲۰۰۲ء میں شہید ہونے والی مسجدوں کی مرمت کا حکم دیا تو وزیر اعظم مودی نے کہا کہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے، یہ کسی خاص مذہب کی عبادت گاہ کو درست کرنے کا کام کیسے کر سکتا ہے؟ یعنی حکومت مسجدوں کی حفاظت میں کوتاہی تو کر سکتی ہے، اس سے ملک کا سیکولرزم متأثر نہیں ہوگا؛ لیکن اگر اپنی کوتاہی کی تلافی کے طور پر ان کی مرمت کر دے تو سیکولرزم کی عمارت زمیں بوس ہو کر رہ جائے گی، اسلام کا تصور اس سلسلہ میں بالکل واضح ہے کہ عقیدہ کےاختلاف کے باوجود ضروری ہے کہ دوسروں کی دل آزاری سے اور ان کےمقدس مقامات کو نقصان پہنچانے سے بچا جائے۔

خدا کی پہچان اور اس کی محبت انسان کی فطرت میں رکھی گئی ہے ، موحد ہو یا مشرک، خدا کی صحیح پہچان رکھتا ہو یا حقیقی معرفت سے بے بہرہ ہو ، خالق کا پرستار ہو یا خالق کو مخلوق کے قالب میں تلاش کرتا ہو اور شجرو حجر ، آگ پانی کی پوجا کرتا ہو ، اس کی تہہ میں خدا کی محبت ہی کار فرما ہے ، آتش پرست آتش کدے کیوں سلگاتے ہیں ؟ انسان اپنے ہاتھوں سے رنگ برنگ کی خوبصورت مورتیاں کیوں بناتا ہے ؟ گرجا گھروں میں ناقوس کیوں بجائے جاتے ہیں ؟ یہود اپنی عبادت گاہوں میں گھٹنے کے بَل کیوں کھڑے ہوتے ہیں ؟ مسجدوں میں اذانیں کس کی طرف پکارنے کے لئے دی جاتی ہیں؟ — یہ سب خدا کی محبت اور اس کی چاہت کے مظاہر ہیں ، یہ اور بات ہے کہ اکثر قوموں نے خدا کی حقیقی پہچان کو کھو دیا ہے اور انھوں نے منزل کے بجائے راستہ اور خالق کے بجائے مخلوق ہی کو اپنا کعبۂ مقصود بنا لیا ہے، پیغمبر اسلام دنیا میں اسی لئے تشریف لائے کہ انسانیت کو اس کے حقیقی خالق و مالک کے ساتھ جوڑ دیا جائے اور زندگی کے صحیح طریقوں کے ساتھ ساتھ خدا کی بندگی کا صحیح طریقہ انسان کو بتایا جائے ؛ لیکن بہر حال مختلف قوموں میں عبادت کے جو طریقے مروج ہیں، وہ در حقیقت انسان کی فطرت میں چھپی ہوئی آواز ہے، خدا کی محبت ، خدا کی چاہت، خدا کو پانے کا شوق ، خدا کو اپنے آپ سے راضی کرنے کا جذبہ، خدا کی چوکھٹ پر اپنی پیشانی کو بچھانا اور اس کے حضور اپنی ضرورت و احتیاج کے ہاتھ اٹھانا ، مانگنا ، رونا اور گڑ گڑانا ،یہ سب انسانی فطرت کا حصہ ہے اور یہ بجائے خود خدا کے وجود کی سب سے بڑی دلیل ہے ۔

خدا ہر جگہ ہے اور تہہ تہہ پر اس کی حکمرانی ہے ؛ لیکن خدا کی جو عظمت اور جلالت شان انسان کے قلب و ذہن میں رچی بسی ہے ، اس کے تقاضا سے آدمی چاہتا ہے کہ خدا کی بندگی اوراس سے سرگوشی کے لئے پاک صاف جگہ ہو ، جہاں سکون ہو ، جہاں انسان کی روحانیت مادی آلائشوں سے آزاد رہ سکے اور وہ گھڑی چند گھڑی خدا کے حضور یکسو ہو سکے ، اسی مقصد کے تحت ہمیشہ سے ہر قوم اور ہر علاقہ میں عبادت گاہوں کی تعمیر کا ذوق رہا ہے ، اس سلسلہ کا آغاز کس عبادت گاہ سے ہوا ؟ اس کا جاننا بہت دشوار ہوتا ، اگر خود اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس کے بارے میں نہ بتایا ہوتا، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ : سب سے پہلے جو گھر اللہ کی عبادت کے لئے بنایا گیا ، وہ ’’کعبۃ اللہ‘‘ ہے ، جو مکہ میں تعمیر کیا گیا ، ( آلِ عمران : ۹۶ ) قرآن مجید میں کعبہ کی تعمیر ابراہمی کا صراحتاً ذکر موجود ہے ( البقرۃ : ۱۲۷ ) ؛ لیکن حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے انسان حضرت آدمںیا ان سے بھی پہلے فرشتوں نے خدا کے اس گھر کو تعمیر کیا تھا ، یہ عبادت گاہ توحید کامرکز تھی، ہے اور انشاء اللہ قیامت تک رہے گی ، مگر رسول اللہ اکی بعثت سے قریب دو ڈھائی سو سال پہلے سے لے کر آپ اکی بعثت کے اکیس سال بعد تک یہ مرکز توحید ’’ بت کدہ ‘‘ بنا رہا ؛ لیکن آپ انے کبھی اس گھر کی بے حرمتی نہیں فرمائی ، مکہ فتح ہونے کے بعد آپ ا نے اس کے بت صاف کر دیئے اور اس کو اپنی اصل وضع پر لے آئے ؛ لیکن اس کے درو دیوار سے ایک اینٹ بھی نہ کھینچی گئی اور حالاںکہ اس کی تعمیر بناء ابراہیمی سے کسی قدت مختلف تھی ، پھر بھی اس کی توقیر و اکرام میں کوئی کمی روا نہیں رکھی گئی ، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اسلام کی نگاہ میں عبادت گاہیں کس قدر قابل احترام اور لائق رعایت ہیں۔

جب بیت المقدس کا علاقہ فتح ہوا تو صورت حال یہ تھی کہ مقام ’’ صخرہ ‘‘ کو عیسائیوں نے کوڑا کرکٹ اور نجاستیں پھینکنے کی جگہ بنا رکھا تھا اور یہ یہودیوں کی عداوت کی بناء پر تھا ؛ کیوں کہ یہود اسی کو اپنا قبلہ بناتے تھے ، حد یہ ہے کہ عورتیں اپنے ناپاکی کے کپڑے یہاں ڈالتی تھیں ، سیدنا عمرصجب بیت المقدس پہنچے اور مسجد اقصیٰ کی بنیاد رکھی تو ’’ صخرہ‘‘ پر جو مٹی اور گندگی جمع تھی اسے اپنی چادر اور قباء مبارک کے دامن میں رکھ کر منتقل کرنا شروع کیا ، اس طرح تمام مسلمان اس کی طرف متوجہ ہوئے اور اس مقام کو گندگی سے صاف کیا ، عیسائیوں کا یہ عمل دراصل یہودیوں کے رد عمل میں تھا ؛ کیوںکہ جس مقام پر حضرت عیسیٰ ں کو عیسائی عقیدہ کے مطابق سولی دی گئی تھی ، اس مقام پر یہود سڑی گلی چیزیں پھینکا کرتے تھے ۔ ( البدایہ والنہایۃ : ۷ ؍ ۵۶)

رسول اللہ انے مذہبی جذبات کی رعایت اور عبادت گاہوں کے احترام کو ہمیشہ ملحوظ رکھا ، آپ نے نجران کے عیسائیوں سے جو معاہدہ فرمایا اس میں ایک دفعہ یہ بھی تھی کہ نہ کوئی چرچ منہدم کیا جائے گا اور نہ کسی مذہبی رہنما کو نکالا جائے گا : ’’ لاتھدم لھم بیعۃ ولا یخرج لھم قسّ‘‘ ( ابو داؤد ، حدیث نمبر : ۳۰۴۱) بعض مؤرخین نے معاہدہ نجران میں یہ دفعات بھی نقل کی ہیں کہ پادریوں راہبوں اور پجاریوں کو اپنے عہدوں سے برطرف نہیں کیا جائے گا اور نہ صلیبیں اور مورتیاں توڑی جائیں گی ۔ ( مقامات شبلی : ۱۸۹ ،بحوالہ فتوح البلدان : ۶۵)

شا م کا علاقہ فتح ہوا تو حضرت خالد بن ولید نے حضرت ابو عبیدہ ص،حضرت عمر بن عاص صاور دو اور صاحبان کی گواہی کے ساتھ دستاویز تحریر فرمائی ، جس میں نام بنام چودہ گرجوں کا ذکر فرمایا اور اس کی حفاظت کی تحریری ضمانت دی ۔ ( البدایۃ وا نہایۃ : ۷ ؍ ۲۱)

احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ فتح مصر کے موقع سے بھی حضرت عمر بن عاص صنے گرجوں کی حفاظت کے سلسلہ میں دستاویزی معاہدہ کیا تھا اور ان کو اختیار تھا کہ وہ اپنی عبادت گاہوں کے اندر جس طرح چاہیں عبادت کریں،اور جو کہنا چاہیں کہیں : ’’ ان یخلی بینھم وبین کنائسھم یقولون فیھا مابدالھم‘‘۔( جمع الفوائد : ۲ ؍ ۵۰۰، بحوالہ طبرانی کبیر)

مسلمانوں کو ہمیشہ عبادت گاہوں کا اتنا لحاظ رہا کہ حضرت معاویہ صنے جب دمشق کی جامع مسجد میں یوحنا کے نام سے موسوم گرجا کو شامل کرنے کی کوشش کی اور عیسائی اس پر راضی نہ ہوئے توآپ اس سے باز رہے ؛ لیکن عبد الملک بن مروان نے بہ جبر گرجا کو مسجد میں شامل کر لیا، پھر خلیفہ عادل و راشد حضرت عمر بن عبد العزیز ؒ کے عہد میںعیسائیوں نے فریاد کی اور اس کا حوالہ دیا ؛ چنانچہ حضرت عمرؒ نے دمشق کے گورنر کے نام حکم جاری فرمایا کہ گرجا کا جو حصہ مسجد میں ملا یا گیا ہے وہ انھیں واپس کر دیا جائے ، آخر مسلمانوں نے عیسائیوںکی خوشامدیں کر کے بڑی مشکل سے انہیں راضی کیا اور اس طرح یہ مسجد بچ سکی ۔ (فتوح البلدان: ۱۳۱)

مسلمانوں کے عہد ِحکمت میں غیر مسلم اقلیتوں کو نہ صرف اپنی قدیم عبادت گاہوں کو باقی رکھنے کا حق تھا ؛ بلکہ نئی عبادت گاہوں کی تعمیر کی بھی اجازت تھی ، مولانا عبد السلام ندویؒ لکھتے ہیں :

خود عیسائیوں کو اپنی آبادی میں گرجا بنانے کی ممانعت نہ تھی ؛ چنانچہ جب فسطاط مصر میں عیسائیوں نے ایک نیا گرجا بنایا اور فوج نے اس کی مخالفت کی تو حضرت سلمہ بن مخلد نے یہ استدلال کیا کہ یہ تمہاری آبادی سے باہر ہے اور اس پر تمام فوج نے سکونت اختیار کیا ، ( حسن المحاضرہ : ۲ ؍ ۵) — ہارون رشید کے زمانۂ خلافت میںمصر کے گورنر عامر بن عمر نے جب عیسائیوں کو گرجوں کے بنانے کی عام اجازت دینا چاہی تو لیث بن سعد اور عبید اللہ بن لہحہ سے مشورہ لیا ، ان بزرگوں نے اس کی رائے سے اتفاق کیا اور یہ استدلال پیش کیا کہ مصر کے تمام گرجے صحابہ اور تابعین ہی کے زمانے کے بنے ہوئے ہیں ۔ ( ولا ۃ مصر : ۱۳۲)

مسلمانوں نے نہ صرف مذہبی عبادت گاہوں کو قائم رکھا اور ان کی تعمیر کی اجازت دی ؛ بلکہ عبادت گاہوں کے اوقاف ، عہدے اور ان کے وظیفے بھی بر قرار رکھے علامہ شبلیؒ اس پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں : عمرو بن عاص صنے حضرت عمر صکے عہد میںجب مصر فتح کیا تو جس قدر اراضیات گرجاؤں پر وقف تھیں ، اسی طرح بحال رہنے دیں ؛ چنانچہ اس قسم کی جو اراضیات ۷۵۵ھ تک موجود تھیں ان کی مقدار ۲۵ ہزار فدان تھی۔ ( مقالات شبلی : ۲۰۲)

علامہ شبلی نے آگے لکھا ہے : حضرت عثمان ص کے زمانہ میں مرو کا جو پیڑ پارک تھا اور جس کا نام Jesujah” "تھا ، اس نے ایران کے لارڈ بشپ (Simeon)کو جو خط لکھا تھا ، اس میں یہ الفاظ تھے : ’’ عرب جن کو خدا نے اس وقت جہاں کی بادشاہت دی ہے ، عیسائی مذہب پر حملہ نہیں کرتے ؛ بلکہ برخلاف اس کے وہ ہمارے مذہب کی امداد کرتے ہیں ، ہمارے پادریوں اور خداوند کے مقدسوں کی عزت کرتے ہیں اور گرجوں اورخانقاہوں کے لئے عطیہ دیتے ہیں ۔ ( حوالۂ سابق : ۲۰۵- ۲۰۴)

محمد بن قاسم ؒنے جب سندھ کو فتح کیا تو برہمنوں کے ساتھ خصوصی حسن سلوک ، تہوار وغیرہ سے متعلق ان کی مذہبی تقریبات اور ان کو جو دان اور تحائف ملا کرتے تھے ، ان سب کو برقرار رکھا ۔ ( حوالۂ سابق : ۲۰۰۳)

یہ اور اس طرح کے بہت سے تاریخی حقائق ہیں جن سے دوسری قوموں کے ساتھ خالص مذہبی معاملات میں بھی مسلمانوں کی رواداری اور فراخ قلبی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ، عبادت گاہ خواہ کسی قوم کی ہو ، بہر حال اسے خدا کی عبادت و بندگی سے ایک نسبت ہے ، اس لئے اس کی بے حرمتی کو ہرگز روا قرار نہیں دیا جاسکتا ، اس سے لوگوں کے گہرے جذبات متعلق ہیں ، ایسی ناشائستہ حرکتوں سے پوری قوم کو ٹھیس لگتی ہے اور ان کے قلوب مجروح ہوتے ہیں ، اس لئے عبادت گاہوں پر حملہ اور ان کی بے حرمتی اسلامی نقطۂ نظر سے انتہائی غیر شریفانہ حرکت ہے ، افسوس کہ سنگھ پریوار نے ہندوستان میں ’’ بابری مسجد ‘‘ کو شہید کر کے عبادت گاہوں کی بے حرمتی کی ایک نئی راہ دکھا دی ہے اور شرپسند عناصر جذبات سے کھیلنے اور ماحول کو غیر معتدل رکھنے کے لئے اب اسی مذموم طریقہ کا استعمال کر رہے ہیں اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ جو لوگ عبادت گاہوں کے ساتھ زیادتی کے اصل میں مرتکب ہیں وہی مسلمانوں کو انتہاء پسند اوردہشت گرد کہتے ہیں اور ان پر مذہبی مقامات کی بے احترامی کا الزم لگاتے ہیں ، نتیجہ یہ ہے کہ بہت سے سادہ ذہن غیر مسلم بلکہ نا واقف مسلمان بھی سمجھتے ہیں کہ اسلام ایک شدت پسند اورمذہب کے معاملہ میں بے مروت اور ناروا دار مذہب ہے ، کاش ! لوگ اسلام کو پڑھیں اورحقائق کو جاننے کی سنجیدہ کوشش کریں !

(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.