اپریل فول غیر شرعی اور غیر انسانی عمل

مولانا محمد قمرالزماں ندوی

مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

 

۰۰اپریل فول ۰۰جس قوم کی زبان کی یہ اصطلاح ہے اسی قوم میں اس کو دن کے طور پر منانے کا رواج ہے ۔ اصلا یہ عیسائیوں کی رسم ہے جسے افسوس ہے کہ دوسری قوموں کی دیکھا دیکھی پیارے آقا صادق و مصدوق نبی کی امت کے افراد بھی دانستہ یا نادانستہ طور پر یہ دن منانے لگے ہیں اور دوسروں سے جھوٹ بول کر انہیں دھوکہ دیتے ہیں ۔

اپریل فول کس بکواس بیہودہ اور غیر سنجیدہ رسم کا نام ہے آئیے پہلے اس کی مختصر تاریخ جاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔

اردو کی مشہور لغت ۰۰ نور اللغات۰۰ میں اپریل فول کے تعلق سے مصنف مولوی نور الحسن نیر لکھتے ہیں ۔ : در اصل اپریل فول انگلش کا لفظ ہے ۔اس کا معنی اپریل فول کا احمق ہے اور حقیقت یہ ہے کہ انگریزوں میں یہ دستور ہے کہ پہلی اپریل میں خلاف قیاس دوستوں کے نام مذاقا بیرنگ خط،خالی لفافے یا خالی لفافے دل لگی کی چیزیں لکھ کر بھیجتے ہیں، اخباروں میں خلاف قیاس ( جھوٹی) خبریں چھاپی جاتی ہیں جو لوگ ایسے خطوط لے لیتے ہیں یا اس کی خبر کو معتبر سمجھ لیتے ہیں وہ اپریل فول (بیوقوف) قرار پاتے ہیں اب ہندوستان میں اس کا رواج ہوگیا ہے اور ان ہی باتوں کو اپریل فول سمجھتے ہیں ۔ ( نور اللغات جلد اول،ص،241)

اپریل فول کے متعلق مزید تین طرح کی باتیں ملتی ہیں

(1) فرانس میں 17صدی سے پہلے سال کا آغاز جنوری کے بجائے اپریل سے ہوا کرتا تھا، اور اس مہینے کو رومی لوگ اپنی دیوی “وینس “کی طرف منسوب کرکے مقدس سمجھا کرتے تھے؛

(2)1648ء میں فرانس کے حکمراں شارل نہم نے اپریل کے بجائے جنوری سے سال شروع کرنے کا حکم دیا تو فرانسیوں نے اسکا مذاق اڑایا.

(3)19صدی کے معروف انسائیکلو پیڈیا “لاروس”نے بیان کیا کہ در اصل یہودیوں اور عیسائیوں کی بیان کردہ روایت کے مطابق “یکم اپریل “وہ تاریخ ہے جسمیں یہودیوں اور رومیوں کی طرف سے حضرت عیسی علیہ السلام کو تمسخر اور استھزاء کا نشانہ بنایا گیاتھا.

اگر یہ بات درست ہے تو غالب گمان کے مطابق اس رسم کو یہودیوں نے جاری کیا ہے (معاذ اللہ) حضر ت عیسی علیہ السلام کا مذاق اڑانے کے لیے.

بہر صورت اس رسم کا تعلق توہم پرستی یا بت پرستی یا گساتخانہ نظریے سے جڑا ہواہے ان تمام چیزوں کی شریعت میں کوئ اصل نہیں ہے؛ اسلام دین فطرت ہے بھلا وہ اس بیہودہ رسم کا قائل کیسے ہو سکتا ہے ؟

قرآن مجید جھوٹ دھوکہ فراڈ استہزاء و تمسخر اور غیر انسانی حرکت کی اجازت نہیں دیتا ۔

اس کی نظر میں یہ اپریل فول جھوٹ ہے جو کہ کبیرہ گناہ ہے؛ جھوٹ بولنا حرام ہے اسلام نے صراحت سے ایسے مذاق سے سختی سے منع کیا ہے جو دوسروں کے لئے تکلیف دہ اور پریشانی کا باعث ہو ۔

چنانچہ: حدیث پاک میں ہے کہ جھوٹ انسان کو فسق و فجور کی طرف لے جاتا ہے اور فسق وفجور انسان کو جہنم کی طرف لے جاتا ہے، اور انسان جھوٹ بولتا رہتاہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے پاس جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے؛( الحدیث) اس آدمی کے لئے ہلاکت ہے جو دوسروں کو ہنسانے کے لئے جھوٹ بولتا ہے (ابو داؤد )

اور اس میں دھوکہ بھی دیا جاتا ہے جسکے بارے میں حدیث پاک میں ہے کہ جو ہم (مسلمان) کو دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں ہے؛ (الحدیث)

اور دوسروں کوتکلیف دی جاتی ہے جوکہ سخت گناہ ہے، حدیث میں وارد ہے، کامل مؤمن وہ ہے جسکے ہاتھ اورزبان سے دیگر مؤمن محفوظ رہے؛ (الحدیث)

کوئی بندہ پورا مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ جھوٹ کو بالکل ترک نہ کردے خواہ ہنسی مذاق میں ہو خواہ لڑائی جھگڑے میں خواہ انداز جھوٹ کا ہو اگر چہ واقعہ میں سچ ہو ۔ (مسند احمد )

یہ بہت بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے بھائی سے کوئی بات اس طرح کہو کہ وہ تمہیں سچا جان رہا ہو حالانکہ تم جھوٹ بول رہے ہو ۔ ابو داو

کسی مسلمان کے لئے یہ بات حلال نہیں ہے کہ وہ کسی مسلمان کو ہنسی مذاق میں بھی پریشان کرے یا اس کا سامان چھپا کر رکھا دے ۔ (مسند احمد )

اپریل فول میں دوسروں کی تحقیر کی جاتی ہے جسکی ممانعت حدیث پاک میں موجود ہے، کہ آدمی کے برا ہونے کے لیے اتنی بات کافی ہےکہ وہ کسی مسلمان بھائ کو حقیر سمجھے؛(الحدیث)

یہ رسم لا یعنی میں مشغولیت بھی ہے جسے شریعت ناپسند کرتی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :من حسن مرء الاسلام ترکہ مالا یعنیہ انسان کے اسلام کی خوبیوں میں سے یہ بھی ہے کہ وہ لا یعنیہ سے پرہیز کرے ۔

مذکورہ احادیث سے اپریل فول اور اس طرح کے دیگر مذاقوں کی تردید ہوتی ہے ۔ اور اسی کی روشنی میں مسلمانوں کے فکر و عمل اور طرز زندگی کی راہ متعین ہوتی ہے ۔

افسوس ہوتا ہے، سخت قلق اور تکلیف ہوتی ہے اور سخت حیرت و استعجاب بھی کہ لوگوں کی طبیعت روزانہ سینکڑوں جھوٹ بول کر اور دھوکہ دے کر بھی سیر نہیں ہوتی دل نہیں بھرتا کہ اس کے لئے باضابطہ ایک دن منایا جائے ۔ کسی کو آپ جھوٹا فراڈی اور فریبی کہہ دیں تو وہ مشتعل اور چراغ پا ہوجائے گا اور آپ کی جان پر ٹوٹ پڑے گا لیکن یہ عیب ۰۰ اپریل فول ۰۰ کی شکل میں آئے تو عین خوبی اور ہنر قرار پائے اور روکنے ٹوکنے والے اور اس شنیع حرکت کرنے والے کو خود فول اور بیوقوف قرار دیا جائے ۔ عبرت کی نظر رکھنے والے دیکھیں غور کریں کہ اخلاقی پستی کس کس خوشنما لفظ کے ذریعہ راہ پا رہی ہے اور گناہ کیوں کر اور کیسے ثواب و نیکی کی جگہ حاصل کر رہا ہے ۔

یہاں اس کی بھی وضاحت ہوجائے کہ اسلام کوئی خشک مذھب نہیں ہے کہ اس میں ظرافت و حلاوت کی گنجائش نہیں ہو اور خوش طبعی کی اجازت نہیں ہو ۔ یقینا اسلام مذھب میں اس کی بھر پور اجازت اور گنجائش ہے، البتہ ایسی تمام صورتوں میں شرط یہ ہے کہ کوئ غلط بات یا منفی عمل اور خلاف واقعہ کوئ چیز نہ ہو اسی طرح دوسروں کی پریشانی کا باعث نہ ہو ۔ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مزاح و خوش مزاجی کے متعدد واقعات ثابت ہیں ۔

(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.