Baseerat Online News Portal

اناللہ وانا الیہ راجعون

انا للہ وانا اليه راجعون ۔۔۔

ایم ودود ساجد

قضا تو مقدر ہے۔۔۔ اللہ کے ولی اس کا انتظار کرتے ہیں ۔۔۔ دنیا کے طالب اس سے بچنا چاہتے ہیں ۔۔۔ نظامِ الہی یہ بھی ہے کہ وہ اپنے نیک’ متقی اور محبوب بندوں کو آزمائش و آلام میں مبتلا کرتا ہے۔۔۔ رحمت للعالمین فرماتے ہیں کہ اس طرح خدائے ذوالجلال اپنے محبوب بندوں کو دنیا میں ہی پاک صاف فرمادیتے ہیں ۔۔۔

 

بہت کم اموات ایسی ہوتی ہیں جن کا دکھ بہت زیادہ ہوتا ہے۔۔۔ دارالعلوم دیوبند کے ممتاز استاذ مولانا جمیل احمد سکروڈھوی سے ایک تعلق عرفات کا تھا۔۔۔ 2016 میں آپ ہی کے ساتھ حج کی سعادت حاصل ہوئی تھی۔۔۔ عرفات میں تو اس سیہ کار کا عارضی بستر دارالعلوم کی دو ثقہ شخصیات کے درمیان تھا۔۔۔ دائیں طرف مولانا سکروڈھوی اور بائیں طرف مولانا نعمت اللہ صاحب۔۔۔ دونوں نے جو شفقت اور رہ نمائی کی تھی وہ فقید المثال تھی۔۔۔ان کے طریقہ تربیت میں مجھے اپنے والدِ مرحوم کا عکس نظر آتا تھا۔۔۔

 

چونکہ ہم شاہی دعوت پر تھے اور انہی کے تیار کردہ شیڈول کے اسیر تھے’ اس لئے کچھ فقہی مسائل بھی درپیش آتے رہے۔۔۔ ایسے میں مولانا مرحوم نے رہنمائی کی۔۔۔ ایک بار طوافِ وداع اور سعی کے تعلق سے کوئی مسئلہ درپیش ہوا۔۔۔ مولانا سے استفسار کیا۔۔۔ مولانا نے کچھ دیر توقف کرکے مسئلہ بیان کردیا ۔۔۔ مولانا کو کچھ تردد تھا لہذا دیوبند میں اپنے صاحبزادہ کو فون کرکے اپنی تشریح کی تصدیق کے لئے کہا۔۔۔

 

دیوبند سے کچھ دیر کے بعد جواب آیا۔۔۔ مولانا اِس سیہ کار کو ڈھونڈتے ہوئے باہر نکل آئے۔۔۔ بتایا کہ جو کچھ انہوں نے بتایا تھا وہ درست تھا۔۔۔ آپ اطمینان رکھئے۔۔۔ آپ کا حج ہوگیا۔۔۔

 

یقین ہی نہیں آتا کہ ایسی قوی الجثہ نیک اور سادہ شخصیت کو کینسر جیسا موذی مرض بھی ہوسکتا ہے۔۔۔ میڈیکل سائنس کی دنیا کیسے کیسے دعوے کرتی ہے لیکن کتنی مجبورِ محض ہے کہ اکثر معاملات میں کینسر کی تشخیص بالکل آخری مرحلے میں ہوپاتی ہے۔۔ اور پھر اس کا کوئی موثر علاج ابھی تک نہیں ڈھونڈ سکی ہے۔۔۔ اس کا لازمی انجام بس موت ہے۔۔۔ مولانا بھی اسی مرض میں مبتلا تھے۔۔۔ ان کے صاحبزادے ان کے علاج میں لگے رہے۔۔۔ لیکن آخر کار وہ اس دار فانی سے کوچ کر گئے ۔۔۔ انا للہ وانا اليه راجعون ۔۔۔ بارِ الہا مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرما اور ان کے اہل خانہ کو صبرِ جمیل۔۔۔

 

اللہ والے بڑی بڑی مشقتیں اور آزمائشیں صبر وشکر کے ساتھ برداشت کرلیتے ہیں ۔۔۔ لیکن ہم جیسے سیہ کار چھوٹی تکالیف پر تڑپ اٹھتے ہیں ۔۔۔ ہم بجائے اس کے کہ تکالیف کو اپنا مقدر سمجھ کر اور اللہ کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوکر گلو خلاصی کی بھیک مانگیں’ ہم ان تکالیف کی تاویلات ڈھونڈتے پھرتے ہیں ۔۔۔ ہم اُن کا مداوا دنیاوی تدبیروں میں تلاش کرتے ہیں ۔۔۔ واقعہ یہ ہے کہ رجوع الی اللہ کے سوا کوئی راستہ نہیں ۔۔۔ اللہ کے نیک بندے تیزی کے ساتھ ایک ایک کرکے اٹھتے جارہے ہیں ۔۔۔ اور ہم صورتِ حال سے غافل ہوکر سیاسی جھمیلوں کو اوڑھتے جا رہے ہیں ۔۔۔

(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.