Baseerat Online News Portal

استاذ محترم زندگی کی جنگ ہار گئے!

محمد عفان منصور پوری

جامعہ اسلامیہ جامع مسجد امروھہ

 

۲۳/ رجب المرجب ۱٤٤٠ ھ ، بہ روز اتوار ، شام کے تقریبا پانچ بجے استاذ محترم ، فن تدریس کے شہسوار ، درس نظامی میں شامل مختلف کتابوں کے کامیاب شارح حضرت اقدس مولانا جمیل احمد صاحب سکروڈوی نور اللہ مرقدہ استاذ حدیث و فقہ دارالعلوم دیوبند اپنی حیات مستعار کے متعینہ ایام پورے کرکے راھی ملک بقاء ھوگئے ، یوں اس طویل از یکسالہ آزمائش اور کرب و بےچینی کا خاتمہ ھوا جس کا وہ چند روز پہلے تک بڑی پامردی ، صبر واستقلال اور خندہ پیشانی سے مقابلہ کرتے رھے ، روز اول سے اپنے مہلک مرض کے بارے میں انہیں پوری تفصیلات کا علم رھا ، جب بھی ٹیلیفون پر رابطہ ھوا اپنے مزاج مرض اور طریقہ علاج کے بارے میں بتانے کے ساتھ ساتھ فیصلہ خداوندی پر رضامندی اور ھر حال میں اطمینان کی کیفیت کا ذکر ضرور فرماتے ، ھمت کے ایسے قوی تھے کہ اخیر اخیر تک مرض کو اپنے اوپر حاوی نہ ھونے دیا اور جب تک تکلیف ناقابل برداشت نہ ھوئی سلسلہ تدریس کو جاری رکھا ۔

ڈیڑھ سال قبل جب بیماری کی شروعات ھوئی تو حضرت الاستاذ بنگلہ دیش کے تبلیغی و اصلاحی دورے پر تھے ، ایک دن میرے پاس فون آیا کہ میں بنگلہ دیش میں ھوں کئی روز سے طبیعت بہت خراب ھے کچھ بھی کھانے کی خواھش نہیں ھورھی ھے یہاں کئی ڈاکٹروں کو دکھایا لیکن کوئی فائدہ نہیں ھوا اب میں امروھہ آکر حکیم صاحب کو دکھانا چاھتا ھوں ، میں نے کہا حضرت ضرور تشریف لائیں میں حکیم صاحب سے وقت لےلیتا ھوں چنانچہ اگلے روز آپ اپنے صاحبزادے مولانا عبداللہ جمیل صاحب کے ھمراہ دہلی ائرپورٹ سے سیدھے امروھہ تشریف لائے ، حکیم صاحب کو دکھایا ، کیفیت بتائی ، دوا شروع کی رات میں قیام بھی فرمایا صبح تک قدرے افاقہ بھی محسوس ھوا پھر دیوبند تشریف لے گئے ، طبیعت بحال نہ ھوئی تو دھلی کا علاج شروع کیا ، چیکپ ھوئے جب رپورٹس آئیں تو اصل بیماری کا سراغ لگا پھر اس کا علاج شروع ھوا ، اس دوران جس بلند ھمتی اور صبر و ضبط کا مظاھرہ کرتے ھوئے آپ نے اپنی علمی و تدریسی مصروفیات کو جاری رکھا وہ بھی ایک مثال ھے ۔

خداوند قدوس اپنے جوار خاص میں آپ کو جگہ عنایت فرمائے ، فردوس بریں کو آپ کا مستقر بنائے اور اھل خانہ و پسماندگان کو صبر جمیل عطاء فرمائے ۔

جیساکہ یاد پڑتا ھے حضرت مولانا سے سب سے پہلے تعارف و شناسائی اس وقت ھوئی جب کم وبیش پچیس سال قبل دیوبند کے محلہ بڑ ضیاء الحق میں واقع ” مسجد عالیشان ” میں نماز تراویح پڑھانے کا اتفاق ھوا حضرت کا دولت خانہ بھی اسی محلے میں تھا آپ نے پورے مہینے وھیں تراویح پڑھی اور تکمیل قرآن کے موقعہ پر خطاب فرماتے ھوئے جن حوصلہ افزاء کلمات سے گنہ گار کو سراھا اور جو دعائیں دیں وہ آج تک ذھن ودماغ میں محفوظ ھیں ، یہ پہلا موقعہ تھا جب پتہ چلا کہ حضرت دارالعلوم وقف دیوبند میں استاذ حدیث ھیں اور اصلا سکروڈہ کے رہنے والے ھیں ، اس کے بعد تو وقتا فوقتا شرف ملاقات حاصل ھوتی رھی تا آ نکہ ۱٤٢٠ھ میں جب آپ کا تقرر دارالعلوم دیوبند میں ھوا تو شعبہ تکمیل افتاء میں آپ سے ” قواعد الفقہ ” پڑھنے کا موقع ملا ، روزانہ گھنٹہ بجتے ھی درسگاہ میں داخل ھوجانا اور پھر قبل از وقت سبق مکمل کرکے تشریف لے جانا آپ کا ایسا معمول تھا جس میں شاید ھی کبھی کچھ تخلف ھوا ھو ، درسگاہ میں آتے ھی پہلے سبق سنتے گزشتہ دن پڑھے ھوئے قواعد کو زبانی یاد کرکے سنانا پڑتا ، پھر آپ ھر قاعدے اور اصول کی بہت دلنشیں اور سھل انداز میں تشریح فرماتے مثالوں کے ذریعہ قواعد کا انطباق فرماتے اور مشکل مباحث کو بھی بہترین قوت تفھیم سے طلبہ کے ذھنوں میں اتار دیتے ۔

سیرت طیبہ اور اصلاحی موضوعات پر آپ کی تقریریں بھی عوام میں بہت پسند کی جاتی تھیں ، زبان سلیس و رواں ھونے کے ساتھ شستہ تھی ، اکابر کے واقعات اور سنجیدہ لطائف بھی آپ کی تقریروں کا حصہ بنتے تھے ، بنگلہ دیش کثرت کے ساتھ آپ کا جانا ھوتا تھا ، آپ کے تلامذہ اور فیض یافتگان کی بڑی تعداد وھاں تھی جن کی دعوت پر آپ کئی ھفتوں کے لئے بھی وھاں تشریف لے جاتے تھے ۔

حضرت مولانا مفتی عبد الرحمن صاحب نور اللہ مرقدہ مفتی اعظم بنگلہ دیش و خلیفہ محی السنہ شاہ ابرار الحق صاحب ھردوئی رح سے آپ کا اصلاحی تعلق تھا اور انہیں کے خلیفہ اور مجاز بیعت تھے ۔

مزاج کے اعتبار سے حضرت الاستاذ بہت سادہ اور بے تکلف واقع ھوئے تھے ، طلبہ پر بہت شفیق تھے ، ھر طالب علم اپنے دل کی بات آپ سے کرلیا کرتا تھا ، صاف گو بھی تھے ، لگی لپٹی باتیں کرنے کا مزاج آپ کا نہیں تھا جس کو صحیح سمجھتے اس کی تائید بھی کرتے اور تعریف بھی کرتے اور جس کو غلط سمجھتے اس پر برملا نکیر بھی فرمادیتے .

بہرحال آج صبح نو بجے دارالعلوم دیوبند کے احاطہ مولسری میں امیر الھند حضرت اقدس مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصورپوری دامت برکاتھم نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی پھر ھزاروں سوگواروں نے نم آنکھوں کے ساتھ ایک گنجینہ علم کو سپرد خاک کردیا ۔

سفر میں ھونے کے باعث استاذ محترم کے آخری رسومات میں شریک نہ ھونے کا ملال رھا ، گذشتہ ھفتہ جب آپ میرٹھ میں زیر علاج تھے فون پر کچھ بات ھوئی تھی پہلے آپ کے صاحبزادے سے بات ھوئی انہوں نے کہا طبیعت بہت ناساز ھے کبھی پہچان لیتے ھیں کبھی نہیں لیکن جب بتایا کہ امروھہ سے عفان بات کرنا چاھتا ھے تو پہچان لیا اور بات بھی کی لیکن نقاھت و کمزوری کی وجہ سے پوری بات سمجھ میں نہ آ پائی ۔

(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.