بے اعتدالی کے خاتمے میں ہی مسائل کا حل ہے

مولانا محمد قمرالزماں ندوی

مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

 

آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا معمول مبارک یہ بھی تھا کہ آپ کبھی رات کے وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو دیکھنے اور ان کے حالات معلوم کرنے باہر تشریف لے جایا کرتے تھے ۔

ایک مرتبہ جب آپ باہر نکلے تو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ تہجد کی نماز میں آہستہ آہستہ آواز میں قرآن مجید کی تلاوت کر رہے ہیں، جب آگے بڑھے تو دیکھا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بہت زور زور سے قرآن کریم کی تلاوت کر رہے ہیں، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم گھر تشریف لے آئے ۔ صبح فجر کی نماز کے بعد جب حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ رات کو ہم نے دیکھا کہ آپ نماز میں بہت آہستہ اہستہ قرآن کریم کی تلاوت کر رہے تھے، اتنی آہستہ آواز میں کیوں تلاوت کر رہے تھے؟

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جواب میں بہت خوبصورت جملہ ارشاد فرمایا :

انہوں نے فرمایا کہ یا رسول اللہ!

"اسمعت من ناجیت” میں جس سے مناجات کر رہا تھا اس کو سنا دیا ،اس لئے مجھے آواز زیادہ بلند کرنے کی ضرورت نہیں، جس ذات کو سنانا مقصود تھا اس نے سن لیا ،اس کے لئے بلند آواز کی شرط نہیں ۔

اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ اتنی زور سے کیوں پڑھ رہے تھے ۔

انہوں نے جواب میں فرمایا کہ ۰۰ "اوقظ الوسنان و اطرد الشیطان” میں اس لئے زور سے پڑھ رہا تھا تاکہ جو سونے والے ہیں ان کو جگاوں اور شیطان کو بھگاوں ۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ "ارفع قلیلا” تم ذرا بلند آواز سے پڑھا کرو اور حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ "اخفض قلیلا” تم اپنی آواز کو تھوڑا سا کم اور پست کر دو ۔ ( ابوداؤد کتاب الصلوۃ حدیث نمبر ۱۳۲۹)

یہ واقعہ بہت مشہور و معروف ہے جو احادیث کی کتابوں میں منقول ہے اور اس کی تشریح میں علماء کرام نے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس حدیث میں اعتدال، توازن اور میانہ روی کی تعلیم دی ہے کہ نہ بہت زیادہ اونچی آواز سے پڑھو اور نہ بہت زیادہ پست آواز سے پڑھو اور یہ قرآن مجید کے عین ارشاد اور حکم کے مطابق بھی ہے ۔ اس لئے کہ قران کریم میں ہے کہ ۰۰ ولا تجھر بصلاتک ولا تخافت بھا و ابتغ بین ذالک سبیلا ۰۰ کہ نماز میں نہ بہت زیادہ زور سے پڑھو نہ ہت زیادہ آہستہ پڑھو بلکہ ان دونوں کے درمیان اعتدال اور توازن کے ساتھ پڑھو ۔

یہ اعتدال ایک مسلمان سے زندگی کے تمام شعبوں میں مطلوب ہے، فرد کے لئے بھی اور جماعت کے لئے بھی ،اجتماعی زندگی میں بھی اور انفرادی زندگی میں بھی،دینی و شرعی امور میں بھی اور دنیاوی امور میں بھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :خیر الامور اوسطھا.

اعتدال و توازن مذھب اسلام کا امتیازی وصف ہے ۔ امت محمدیہ کی پہچان اور شناخت ہی اعتدال اور وسطیت ہے ۔ قرآن مجید نے اس امت کو امت وسط کہا ہے ۔ دین و دنیا دونوں کی کامیابی کی یہ شاہ کلید ہے ۔ توازن اعتدال اور وسطیت یہ وہ بہترین اوصاف ہیں جو زندگی کو کامیاب اور خوش گوار بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہے اور مصاف زندگی میں انسان کو سرگرم عمل رکھتے ہیں ۔ جس قوم کے افراد اعتدال پسند اور متوازن طبیعت کے مالک ہوں وہ قوم ترقی اور عروج و بلندی سے ہمکنار ہوتی ہے، سرفرازی و کامرانی اس کی حلیف ہوتی ہے اور جو قوم کے افراد اس صفت سے خالی ہوں اور غلو اور شدت پسندی کے شکار ہوں وہ قوم ذلت و نکبت اور رسوائی سے دوچار ہوتی ہے اور ناکامی و بربادی اس کا مقدر ہوتی ہے ۔

بہترین امور (معاملہ اور عمل) وہ ہے جو درمیانی ہو ۔

اعتدال درمیان اور بیچ کی کیفیت کو کہا جاتا ہے، یعنی کسی بھی فعل اور عمل میں افراط و تفریط، کمی اور زیادتی شدت اور بے جا نرمی کے بغیر میانہ روی اور درمیانی راستہ کو اختیار کرنا ۔ یہ ایسا وصف ہے جس سے ایک انسان کامیاب و کامران اور ہمیشہ خوش خوش و شاداں و فرحاں رہتا ہے، خیر و بھلائ اور بہتر زندگی گزارنے کے لئے ایک شخص کے لئے ضروری ہے کہ زندگی کے ہر شعبہ میں اعتدال و توازن اور میانہ روی اختیار کرے۔ اگر زندگی میں اعتدال و میانہ روی کو چھوڑ دیا جائے تو نقصان اور ہلاکت و خسران کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آسکتا ۔ بہر حال اعتدال و میانہ روی کی زندگی کے ہر شعبے اور ہر موڑ پر ضرورت ہے اس کے بغیر کوئ چارہ نہیں ہے ۔

لیکن آج ہماری زندگی کے ہر شعبے میں بے اعتدالیاں پائ جاتی ہیں، نکاح میں، طلاق میں، عبادت میں، معاشرت اور معاملات میں، لین دین میں ،خرچ میں، شادی بیاہ میں، خوشی اور غمی میں، کاروبار اور بزنس میں، دینی مجلس اور محفل قائم کرنے میں ،دوستی اور دشمنی میں، ذکر اور تلاوت میں ، مدراس و مکاتب کے نظام چلانے میں، ماتحتوں کے ساتھ سلوک کرنے اور رویہ برتنے میں غرض زندگی کا کوئ ایسا شعبہ نہیں ہے جہاں ہم افراط و تفریط اور بے اعتدالی کے شکار نہیں ہیں، خاص طور پر شادی بیاہ کے موقع پر جو بے اعتدالیاں اور فضول خرچی پائ جاتی ہےاور دشمنی اور دوستی میں جو افراط و تفریط کا مشاہدہ کیا جاتا ہے شاید ہی کوئی گھر اور فرد اس سے محفوظ ہو ،اس حدیث نبوی کی روشنی میں ہمیں اپنی زندگی کا جائزہ لینا چاہیے اور زندگی کے تمام شعبوں میں اعتدال و توازن اور میانہ روی سے کام لینا چاہئے ۔

(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.