Baseerat Online News Portal

معراج کا واقعہ اور اس کا سبق

مولانا محمد قمرالزماں ندوی

مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

 

رجب کا مہینہ اسلامی تاریخ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعہ معراج کے لیے جانا جاتا ہے۔ مشہور قول کے مطابق یہ واقعہ نبوت کے بارھویں سال اور رجب کی ستائیس تاریخ کو پیش آیا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک ۵۱ سال پانچ ماہ کی تھی، قاضی محمد سلیمان منصور پوری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ۰۰مہر نبوت۰۰میں تحریر فرمایا ہے ۔

اسراء کے معنی رات کو لے جانے کے ہیں،مسجد حرام(مکہ مکرمہ) سے مسجد اقصی( فلسطین) کا سفر کا تذکرہ سورہ بنی اسرائیل ( سبحان الذی اسری بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الی المسجد الاقصی) میں کیا گیا ہے اس کو اسراء کہتے ہیں اور یہاں سے جو سفر آسمانوں کی طرف ہوا اس کا نام معراج ہے ۔معراج عروج سے نکلا ہے جس کے معنی اوپر چڑھنے کے ہیں ،حدیث میں عرج بی (یعنی مجھ کو چڑھایا گیا) کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ اس لئے اس سفر کا نام معراج ہوگیا ۔ اس مقدس واقعہ کو اسراء اور معراج دونوں ناموں سے یاد کیا جاتا ہے ۔

اس واقعہ کا ذکر سورہ نجم کی آیات میں بھی ہے ۔(ثم دنی فتدلی ،فکان قاب قوسین او ادنی ،فاوحی الی عبدہ ما اوحی) پھر وہ قریب آیا اور جھک پڑا یہاں تک کہ وہ دو کمانوں کے فاصلہ کے برابر آگیا ،بلکہ اس سے بھی زیادہ نزدیک، اس طرح اللہ کو اپنے بندہ پر جو وحی نازل فرمانی تھی وہ فرمائی۔

اور سورئہ نجم کی آیات ۱۳ تا ۱۸ میں وضاحت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر بڑی بڑی نشانیاں ملاحظہ فرمائیں۔لقد رآہ نزلة آخری الاخ. اور حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اس (فرشتہ یعنی جبرئیل علیہ السلام ) کو ایک مرتبہ دیکھا ہے ۔ اس بیری کے درخت کے پاس جس کا نام سدرۃالمنتھی ہے ۔ اس کے پاس جنت الماوی ہے ،اس وقت بیری کے درخت پر وہ چیزیں چھائی ہوئی تھیں ،جو بھی اس پر چھائی ہوئی تھی ، ( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ) آنکھ نہ تو چکرائ اور نہ حد سے آگے بڑھی ،سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے اپنے پروردگار کی بڑی بڑی نشانیوں میں سے بہت کچھ دیکھا ۔

احادیث متواترہ سے ثابت ہے یعنی صحابہ تابعین اور تبع تابعین کی ایک بڑی تعداد سے اسراء و معراج کے تعلق سے احادیث مروی ہیں ۔

تاریخ انسانی کا یہ سب سے لمبا سفر ہے ۔ اس واقعہ کی معنویت پر ہزاروں صفحات لکھے گئے ہیں اور اس سے مستفاد عبر و موعظت کے بے شمار پہلو کو مفسرین ، محدثین اور علماء ربانی لکھے ہیں ۔ جو کافی تفصیل طلب ہیں ہم یہاں انتہائی تلخیص کے ساتھ سفر معراج کے واقعہ کو متعدد اہل علم کی کتابوں سے مستفاد کرکے آپ قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں ۔ عزیز محترم خالد ضیاء صدیقی ندوی (رفیق علمی امام بخاری ریسرچ سینٹر علی گڑھ) کے علمی معاونت کے بھی شکر گزار ہیں کہ انہوں میری درخواست پر تلخیص کرکے واقعہ کے لب لباب کو پیش کر دیا ۔ تاریخ کے اس عجیب و غریب اور بے مثال واقعہ کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم اس عظیم الشان اور حیرت انگیز واقعہ کی تفصیلات سے واقف ہوں اور گناہوں سے پرہیز کریں جن کے ارتکاب کرنے والوں کا برا انجام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سفر میں اپنی آنکھوں سے دیکھا اور پھر امت کے سامنے بیان کیا ۔

اس واقعہ کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حطیمِ کعبہ میں یا حضرت ام ہانیؓ کے گھر پر آرام فرما رہے تھے کہ حضرت جبرئیل ؑ تشریف لائے اور نیند سے بیدار کیا، سینۂ مبارک کو چاک کیا، آب زمزم سے دھویا اورایمان وحکمت سے بھرا ہوا سونے کا ایک طشت سینۂ مبارک میں انڈیل دیا۔ ان کے ساتھ ‘‘براق’’نامی ایک تیز رفتار سواری بھی تھی، اس سواری سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس پہنچے، وہاں تمام انبیاء ؑ انتظار فرمارہے تھے، آپ کے تشریف لاتے ہی صف بن گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت میں نماز ادا کی گئی۔

 

یہاں سے سفر کا دوسرا مرحلہ شروع ہوا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت جبرئیلؑ کے ساتھ آسمان کی طرف تشریف لے گئے۔جب پہلے آسمان پر پہنچے تو دروازہ بند تھا، فرشتوں نے پوچھا:کون؟ حضرت جبرئیلؑ نے اپنا نام بتایا، پھرپوچھاگیا:تمھارے ساتھ کون ہیں؟ حضرت جبرئیلؑ نے کہا: محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)! پھر پوچھا گیا :کیا انھیں بلایا گیا ہے؟ کہا گیا: ہاں ! پھر دروازہ کھلا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت جبرئیلؑ کے ساتھ اندر داخل ہوئے، یہی بات ہر آسمان پر پیش آئی۔

پہلے آسمان پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات حضرت آدمؑ سے ہوئی۔دوسرے آسمان پر حضرت یحیٰؑ اور حضرت عیسیٰؑ، تیسرے پر حضرت یوسفؑ، چوتھے پرحضرت ادریسؑ، پانچویں پر حضرت ہارونؑ، چھٹے پر حضرت موسیٰؑ اور ساتویں پر حضرت ابراہیمؑ سے ملاقات ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتویں آسمان پر ‘‘بیت المعمور ’’دیکھا ، جس کا ہردن ستر ہزار فرشتے طواف کرتے ہیں۔

پھراللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جنت کی سیر کرائی گئی، آگے بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘سدرۃالمنتھی’’پہنچے جس سے آگے فرشتے بھی نہیں جاسکتے۔ حضرت جبرئیلؑ یہیں رُک گئے؛ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بھی آگے بلائے گئے، جہاں اللہ تعالی نے اپنے نبی سے بلاواسطہ (Direct) بات کی۔ سورۂ بقرہ کی آخری دو آیتیں نازل ہوئیں اور پچاس نمازوں کا تحفہ دیا گیا۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس ہوئے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی، ان کو پچاس نمازوں کے فرض ہونے کے بارے میں معلوم ہوا ،تو بنی اسرائیل کے تلخ تجربہ کی روشنی میں انھوں نے مشورہ دیا کہ اللہ سےاس میں کمی کی درخواست کی جائے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم بار بار کمی کی درخواست فرماتے رہے اور نمازیں کم کی جاتی رہیں، یہاں تک کہ پانچ رہ گئیں؛ لیکن یہ خوش خبری سنائی گئی کہ ثواب پچاس نمازوں ہی کا ملے گا۔

 

اتنا لمباسفر چند لمحوں میں اللہ نے کرایا: آسمانوں کی سیر ہوئی۔انبیاء سے ملاقات ہوئی۔جنت ودوزخ کے مناظر دیکھے۔اللہ سے بات ہوئی اور نماز کا تحفہ لے کر واپس آئے… یہ سب کچھ صرف چند لمحوں میں ہوا۔ جو لوگ غیبی نظام پر یقین نہیں رکھتے تھے، اور خدا کی قدرت کو اپنی قدرت جیسا سمجھتے تھے، انھیں ان باتوں پر یقین ہی نہ آتا تھا، وہ مذاق اڑاتے، جھٹلاتے۔ لوگوں نے سوچا کہ یہی موقع ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے دوست حضرت ابوبکرؓ کو بہکا دیا جائے ، چنانچہ مکہ والوں نےحضرت ابو بکرؓ سے پوچھا کہ اگر کوئی شخص کہے کہ وہ راتوں رات بیت المقدس ؛بلکہ آسمان سے ہو کر آیا ہے تو یہ بھی کوئی ماننے والی بات ہوگی؟حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا: ہرگز نہیں۔ کہنے والوں نے کہا:محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) آج یہی دعوی کر رہے ہیں۔حضرت ابو بکرؓ نے فرمایا:اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں تو سچ کہتے ہیں۔ میں نے کبھی فرشتہ کواپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا؛ لیکن میں اس بات کو مانتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرآسمان سے وحی نازل ہوتی ہے، تو آخر اس بات کو کیوں نہ مانوں ؟ اسی موقع پر حضرت ابو بکرؓ کو ‘‘صدیق’’ کا خطاب ملا۔

 

یہ واقعہ کن حالات میں پیش آیا؟

مکی زندگی میں ظاہری طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت ابو طالب اوربیوی ام المؤمنین حضرت خدیجہؓ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑا سہارا تھا۔حضرت ابو طالب کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے قبیلے بنو ہاشم کی تائید اور سپورٹ (Support) حاصل تھا،اور حضرت خدیجہؓ چوں کہ مکہ کی ایک مالدار اور معزز خاتون تھیں، اس لیے مکہ کے مشرکین بھی ان کی وجہ سے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہاتھ ڈالنے سے پہلے سوچتے تھے ۔جب حضرت ابو طالب اور حضرت خدیجہؓ کی وفات ہو گئی تو یہ ظاہری اسباب ٹوٹ گئے،اور مکہ والے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوکھل کر ستانے لگے،تو اب ان کے حالات سے بددل ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم طائف تشریف لے گئے کہ شاید انھیں ایمان کی توفیق ہو جائے؛لیکن وہ مکہ والوں سے بھی زیادہ سخت دل ثابت ہوئے ۔ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایسا بُرا سلوک کیا، جس نے مکہ والوں کی زیادتی کو بھی پیچھے چھوڑدیا۔ غرض کہ مصیبتوں ، آزمائشوں اورپریشانیوں کی جب حد ہوگئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈھارس بندھانےکے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو معراج کا شرف بخشا گیا ۔

 

دو اہــم سبـــق:

(۱) اس واقعہ میں ایک بڑا سبق ہے عقل کے پجاریوں کے لیے کہ جب کوئی بات قرآن وحدیث سے ثابت ہو تو خواہ عقل اسے قبول کرے نہ کرے،مومن کو اسے قبول کرنا چاہیے؛ کیونکہ آنکھیں غلط دیکھ سکتی ہیں، کان غلط سن سکتے ہیں ، ذائقہ غلطی کرسکتا ہے، اور انسان کی عقل قدم قدم پر ٹھوکر کھا سکتی ہے ؛لیکن اللہ اور اس کے رسول کی بات غلط نہیں ہوسکتی۔ اپنی معمولی سی عقل کی ترازو میں خدا کی زبردست قدرت کو تولنا ایسا ہی ہے جیسے رائی کو پہاڑ سے تولنا اور قطرے کو سمندر سے وزن کرنا۔

 

(۲) موجودہ دور میں بھی مکی زندگی کی طرح پوری دنیا کے مسلمانوں پر گھیرا تنگ کیا جاریا ہے ۔انھیں خوفزدہ کیا جارہا ہے۔ان کے حوصلہ کو للکاراجارہا ہے؛لیکن معراج کا واقعہ سخت حالات میں مسلمانوں کی ڈھارس بندھاتا ہے کہ وہ مصیبت اور مایوس کر دینے والے حالات کی وجہ سے حوصلہ نہ ہاریں؛ بلکہ ہونا یہ چاہیے کہ اس طرح کے واقعات سے ان کا ایمان اور مضبوط ہو جائے اور ان کے یقین میں اضافہ ہو جائے۔ اس لیے کہ جس طرح رات کے اندھیرے کے بعد صبح کا اجالا پھیلتا ہے اور جیسے سخت گرمی کے بعد رحمت کی بارش ہوتی ہے، اسی طرح سخت حالات کے بعد اچھے حالات آتے ہیں اور حق کا چراغ پہلے سے اور تیز ہو جاتا ہے۔

(مستفاد از تحریر :حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی مدظلہ العالی)

Comments are closed.