ماضی قریب کی ایک ہمہ جہت عبقری شخصیت : حضرت مولانافداحسین صاحبؒ

از: اظہارالحق قاسمی بستوی
استاذ : مدرسہ عربیہ قرآنیہ ، اٹاوہ

گذشتہ صدی میں ہندوستان کی اگر چند مخلص اور عہدساز شخصیتوں کا تذکرہ کیاجائے تو ان میں سرزمین اٹاوہ (یو پی)کی ایک عہد ساز اور عبقری شخصیت مفکر ملت حضرت مولانا فدا حسین صاحب ؒ کا نام بھی جلی حرفوں سے لکھاجائیگا۔حضرت مولانافداحسین صاحب ؒ وہ شخصیت ہیں جنھوںنے آگرہ اور کانپور کے درمیان واقع ایک پسماندہ اور چھوٹے سے شہراٹاوہ میں مسلمانوں کی دینی، ملی، تعلیمی،تہذیبی، سیاسی اورمعاشرتی ترقی کے لئے زمینی سطح پر محنت کر کے یہاں کے لوگوں کے دلوں میں ایمان وایقان کی جو قندیلیں روشن کیں اس کی ضیا ء پاشیاں آج یہاں بخوبی محسوس کی جا سکتی ہیں۔
شہراٹاوہ بدعت وجہالت کا سخت شکارتھا،حق اور اہل حق یہاں برائے نام ہی تھے۔ اس شہر میں اگر چار اہل حق کسی جگہ اکٹھا ہو کر کوئی بات کرتے تو انہیں ہزیمت کا شکار ہونا پڑتا۔ اہل حق علماء کے مواعظ و بیانات کے لیے ماحول سازگار نہیں تھا۔ ایسے سخت اور آزمائشی مراحل میں حضرت مولاناؒنے یہاں اپنی جدوجہد کا آغاز کیا اور صدائے حق بلند کرکے تمام اذیتوں اور دشواریوں کو خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کرتے ہوئے اپنے اخلاص اور عزم راسخ سے باطل کی ہر تدبیر کا مردانہ وار مقابلہ کیااورحق کی شمع کواس علاقہ میں روشن کیا۔ مولاناؒنے نہ صرف اپنی پوری زندگی کو شہراٹاوہ واطراف کی خدمت کے لیے وقف کردیا بلکہ اپنی ہمہ جہت خدمات سے ملت کی تہذیبی، معاشرتی اورسیاسی بقا کے لیے ایسے تابندہ نقوش ثبت کیے جن کے اثرات ان شاء اللہ ہمیشہ قائم رہیں گے۔
اس خطہ کے لوگوں میں دین حق کے فروغ اور اس کی کی آبیاری کے لیے انھوں نے بے شمار کارنامے انجام دیے۔لڑکوں کے لیے مدرسہ عربیہ قرآنیہ اور لڑکیوں کے لیے مدرسہ اسلامیہ نسواں قائم کیااور ان اداروں کے نظام کو مستحکم کرنے اور اسکو ترقی دینے نیز مسلمانوں کی تعلیمی تحریک کو جلا بخشنے کے لئے ـ’’مسلم تعلیمی سوسائٹی‘‘ کی تاسیس فرمائی جس کے تحت آج کئی دینی،عصری اور تکنیکی ادارے علاقہ میں قوم و ملت کی تعمیر و ترقی میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔ شہراٹاوہ میں تحریک دعوت تبلیغ دین کا آغازبھی حضرت مولاناؒ کاہی مرہون منت ہے۔ اس طرح یہ کہنا حق بجانب ہوگا کہ آج اس خطہ میں جو بھی دین داری یا دین کی کوئی خدمت نظر آتی ہے وہ حضرت مولاناکی شبانہ روز محنتوں کا ہی ثمرہ ہے۔ اس سلسلہ میں حضرت مولانا کی سب سے بڑی خدمت افراد سازی تھی، مولانا علیہ الرحمۃ نے اپنے فیض صحبت اثر سے علاقہ میں ایسے افراد تیار کئے جن کی کوششوں سے یہاں اہل حق کو کام کا میدان میسر آ سکا۔
حضرت مولانا مرحوم حالات حاضرہ پربھی کافی گہری اور دور بین نگاہ رکھتے تھے۔وہ آزادی کے بعد ہندوستان کو ہندوراشٹر کے بنانے کے سلسلہ میں حکومت وقت کے ذریعہ بنے جارہے تانے بانے کو بہت قریب سے دیکھ اور سمجھ رہے تھے۔ چوں کہ حضرت مولاناقلم کے بھی بادشاہ تھے اور لکھتے اور خوب لکھتے تھے۔انھیں عربی فارسی اور اردوکے ساتھ انگریزی اور ہندی پر اعلی درجے کی دست رس حاصل تھی۔ چناں چہ ان کے گہربارقلم سے کئی ایک بہترین اور شاہکارکتابیں منظرعام پر آئیں۔بطور خاص انھوں نے ہندوستان میںنصاب تعلیم کے ذریعہ ہندوراشٹر کے منصوبے کو طشت ازبام کرتے ہوئے کئی ایک قیمتی تخلیقات پیش کیںجو ان کی دور بینی، مومنانہ فراست اور ایمانی غیرت و حمیت کی غمازی کرتی ہیںاور آج بھی اہل فکر و نظر کے حلقہ میں پڑھی جانے کے لائق کتابیں ہیں۔وہ ہندوستان کے سیاسی منظرنامے پر ہورہے اتارچڑھاؤکو بھی بخوبی سمجھ رہے تھے اور اپناکردار اداکررہے تھے۔انہوں نے آزادی کے بعد سے کانگریسی حکومت کے ذریعہ مسلمانوں پر کئے جا رہے ظلم واستبداد کے خلاف محاذ آرائی کرکے میدان سیاست میں بھی اپنا مثبت کردار ادا کیا اور سیکولر و دلت جماعتوں اور تنظیموں کا اتحاد بنا کر سماجوادی جن مورچہ قائم کیا۔مسلم مجلس کی شاخ قائم کر کے ڈاکٹر عبد الجلیل فریدی صاحب کی مسلمانوں کی بھارت کے جمہوری نظام حکومت میںسیاسی حصہ داری درج کرانے کی کوششوں میں عملی تعاون پیش کیا۔
حضرت مولانا ؒ کی شخصیت کے مفصل تعارف سے قبل ہندوستان کے معروف عالم دین اور مفسرقرآن حضرت مولانا اخلاق حسین صاحب قاسمی دہلوی ؒ کاذیل کا اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
”یہ مدرسے جن کا تعارف آئندہ صفحات میں درج کیا گیا ہے ایک ہمدرد ملت اورخیر خواہ حضرت مولانا فداحسین مرحوم کے قائم کردہ ہیںاور مرحوم ان کے بانی، مہتمم اور خادم تھے۔مولانامرحوم ملت اسلامیہ ہندکے دورابتلاء میں خداتعالی کی ایک خاص دین تھے۔ مرحوم نے دین حق کے خلاف سب سے خطرناک تحریک آریہ سماج کے مہلک نظریات اور اس کی سرگرمیوں سے مسلم زعماء اور مسلم عوام کو باخبر کرانے کے لیے بڑااہم قلمی کارنامہ انجام دیااور بڑی اہم کتابیں تحریر کیں۔ مرحوم اردو تحریک کے بھی بڑے قائدین میں شامل تھے۔مرحوم کی قلمی اورعلمی جدوجہد تاریخ کا ایک حصہ ہے۔ان کی دینی سرگرمیوں میں ایک اہم سرگرمی اٹاوہ میں غیرشرعی رسومات سے مسلمانوں کو بچانے کی کوشش ہے اور اس کے مقابلے میں اتباع سنت کو فروغ دینے کی جدوجہد ہے۔ راقم السطور کو مولانامرحوم کی ان سرگرمیوں کا براہ راست علم حاصل رہاکیوں کہ مرحوم کے ساتھ اس کا قریبی تعلق تاحیات قائم رہا۔اس عاجز نے مولانا کے دل میں دین برحق کی حفاظت کا جو جذبہ پایاوہ اس دور کے بہت کم لوگوں میں پایاجاتاہے۔” (از: مکتوب: حضرت مولانااخلاق حسین صاحب قاسمی دہلوی)

حضرت مولانا کا عہدطفولت اور تعلیم وتعلم
حضرت مولانافداحسین صاحبؒ کی ولادت۲۰؍ مارچ ۱۹۱۳؁؁ء کو اٹاوہ میں علاقہ کے نامور رئیس اور زمیندارشیخ فضل حسین صاحب ابن شیخ مراد بخش صاحب مرحو م و مغفور(رئیس و زمیندار و بانی قصبہ مراد گنج) کے گھر پر ہوئی۔ یہ گھرانہ علاقہ کا دین دار، نامور اور خوشحال گھرانہ تھا۔ چار ماہ کی عمر میں ہی والد ماجد کا سایہ سرسے اٹھ گیا۔والدہ ماجدہ جو نہایت نیک اور خدا ترس خاتون تھیں، نے آپ کی پرورش کی۔جب کچھ بڑے ہوئے تو گھروالوںنے 1919میں مکتب بھیجا۔بتقدیر خداوندی آپ کے مربی اورپہلے استاد مستند عالم دین اور صاحب دل شخصیت تھے جو کہ آپ کے حقیقی خالو تھے۔ آپ نے انھیں سے قرآن و عربی فارسی کی ابتدائی کتابیں پڑھیں۔ ان کا نام مولوی شیخ سعید احمد صاحب آنریری مجسٹریٹ ریاست گوالیار تھا۔ وہ بھی علاقہ کے رئیس اور زمیندار تھے۔ ان کی تربیت نے آپ کو کندن بنادیا۔ چونکہ وہ ولی تھانہ بھونؒ کے مسترشد خاص اور مریدبھی تھے؛ اس لئے حکمت و دانائی کے ساتھ اعلائے حق جوآپ کی تربیت کا جوہر تھا، وہ نمایاں طور پرمولانا کی پوری زندگی میں جا بجا دکھائی دیتا ہے۔
ہندوستان کے قریب ودور علاقوں میں پڑھنے والے طلبہ کے دیرینہ شوق کی طرح آپ کے شوق وجستجو نے آپ کے بھی پائے طلب کوہندوستان میں ملت اسلامیہ کی نگہبان عظیم دینی درسگاہ دارالعلوم دیوبند کی طرف بڑھادیا۔سن ۱۹۲۹؁ء میں آپ نے دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیاجہاں اس وقت کے جبال علم مفتی اعظم ہند مفتی عزیرالرحمن صاحب ؒ، شیخ الادب والفقہ حضرت مولانااعزاز علی صاحب ؒ، مفتی اعظم دارالعلوم مفتی محمد شفیع صاحبؒ،علامہ محمد ابراہیم بلیاوی صاحبؒ، شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی صاحبؒ اورحضرت حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب صاحب ؒجیسے نابغہ روزگارشخصیات کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا۔لیکن فراغت سے قبل ہی گھریلوحالات کی بنا پر آپ کو اپنی عظیم اور محبوب درسگاہ کو خیرباد کہناپڑااور وطن مالوف اٹاوہ واپس آناپڑا جہاں حضرت شیخ الاسلام مدنی ؒ کے ہمدرس حضرت مولانا محمود الحسن صاحب بریلوی ؒ سے استفادہ کرتے رہے اورانھیں کے ہاتھ پر آپ نے علوم مدرسیہ کی تکمیل کی۔
اپنے تعلیمی سفر کو طے کرتے ہوئے آپ نے منشی، کامل،اعلی قابلیت،فاضل ادب کے امتحانات سرشتہ تعلیم الہ آباد بورڈ سے، ہائی اسکول انگریزی کا امتحان الہ آباد بورڈ اور منشی فاضل کا امتحان پنجاب یونیورسٹی سے پاس کیا۔24 سال کی عمر میں سن 1937میں آپ کا عقد مسنون ہوا۔اوراس کے ساتھ ہی آپ نے گھریلواور ملی دونوں ذمہ داریاں ایک ساتھ اوڑھ لیں۔
دینی وملی خدمات:
اٹاوہ میں دینی تعلیم کے کسی بھی طرح کے مناسب بند وبست نہ ہونے کے باعث شادی کے اگلے ہی سال جو کہ عمرکا صرف پچیسواں سال تھا مولاناؒنے سنہ ۱۹۳۸؁ء میں دینیات اور قرآن کی تعلیم کے لیے شہر کے محلہ پنجابیان کی مسجد میں مدرسہ عربیہ قرآنیہ کی بنیاد ڈالی۔بعد میں مدرسہ کو اس کی ذاتی عمارت میں منتقل کرکے اس میں پرائمری، جونیر، حفظ وناظرہ، اور شعبہ عا لمیت کے شعبے جاری کئے گئے۔۔ چناں چہ وہی پودا آج ایک تناور درخت کی شکل میں علاقہ وملک و ملت کوفائدہ پہونچارہاہے۔
حضرت مولاناؒکو بنات ملت اسلامیہ کی تعلیم وتربیت کی بھی بڑی فکر ستاتی تھی اور واقعی یہ سچائی ہے کہ معاشرے میں اگر بچیوں کو زیورعلم دین سے آراستہ نہ کیاجائے تو اولاد کی صحیح تعلیم وتربیت ممکن نہیںہوتی۔ حضرت مولاناکو شہر کی بچیوں کی دینی تعلیم کی فکر ستاتی رہتی تھی اور وہ چاہتے تھے کی ملت کی بچیاں بھی علمی تشنگی بجھائیں؛چناں چہ اسی فکر مسلسل نے۱۹۴۴؁ء میں مدرسہ اسلامیہ نسواں کی بنیاد ڈلوادی۔ بنیاد ڈال تو دی گئی اور تعلیم بھی شروع ہو گئی لیکن وہ مدرسہ ہنگامہ ۱۹۴۷؁ء کے باعث بند ہوگیا۔ملک میں امن وامان کی فضا قائم ہونے کے بعد ۱۹۵۴؁ء میں اس کا احیاء کیا گیاجو پھر حاسدین کی نظر بد کے ہتھے چڑھ گیااور بالآخر ۱۹؍ نومبر ۱۹۶۲؁ء کو اس کی ذاتی عمارت میں اس مدرسہ کی نشاۃ ثالثہ ہوئی۔ تب سے آج تک الحمد للہ یہ مدرسہ ہزارہاہزاربہنوں اور بیٹیوں کو علم سے سیراب کررہاہے۔جزوقتی طور پر عربی وفارسی کی تدریس بھی کی اور مکاتب کا نظام بھی چلایاجس سے خلق کثیر نے استفادہ کیا۔
اپنی عملی اورمعاشی زندگی کے طور پرحضرت مولانانے کچھ دن کے لیے سناتن دھرم انٹر کالج میں پڑھایاپھر ۱۹۵۰؁ء میں یو پی پبلک سروس کمیشن کے ذریعہ آپ کا تقررمقامی گورنمنٹ انٹرکالج میںعربی وفارسی لیکچررکی حیثیت سے ہو گیالیکن بعض گھریلو حالات نے اس ملازمت کے تسلسل کی اجازت نہیں دی اور آپ نے ملازمت کو خیر باد کہ دیا۔
کہتے ہیں کہ تحریکی آدمی خاموش نہیں بیٹھتا،ایساہی حال حضرت مولانائے محترم کا بھی تھا۔ اِدھر ایک مدرسہ، اُدھر مدرسۃ البنات، اور اب بالغان کی دینی اور عملی اصلاح کی فکر اور عظیم الہامی دعوتی وتذکیری تحریک سے انھیں جوڑنے کی سعی پیہم! چنانچہ ۱۹۵۲؁ء میں آپ نے اٹاوہ میں جماعت دعوت تبلیغ کی بنیاد ڈالی اور بحکم حضرت جی ثانیؒ اپنے علاقے کے خوب دعوتی اسفار کیے۔جمعہ میں خطابات اور رمضان المبارک میں ترجمہ وتفسیرقرآن کاپوری زندگی التزام رہا۔
سیاسی و سماجی خدمات
یہ تسلیم شدہ امرہے کہ اصل خرابی سیاست اور مذہب کو الگ الگ کردینے کی وجہ سے ہوئی کیوں کہ مذہب (اگر وہ واقعی ایک اچھامذہب ہے) تو وہ اخلاقیات، معاشرت اور معاملات کی درستگی کی تعلیم دیتاہے اور ظاہر ہے کہ جس نظام حکومت میں اخلاقیات کا پہلواور معاشرت ومعاملات کی درستگی کا خیال نہ ہو، وہ بے ایمان اور کرپٹ اور اخلاق باختہ ہی ہوگا۔ حضرت مولاناکی نگاہ فراست اس حقیقت کو دیکھ رہی تھی؛ چناں چہ اخلاقیات و معاشرت سے عاری اور جبر واستبداد کی حامی حکومت کانگریس کے مسلمانوں کے ساتھ طویل ظلم وزیادتی کی داستان سے وہ بہت نالاں تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ہندوستان میں امن و آشتی کے قیام اور پھر اس کی بقا کے لیے دوسرامحاذ تیارکیاجائے۔ چناں چہ سیاسی میدان میں بھی انھوں نے نمایاں خدمات انجام دیں۔ دلت اور پسماندہ طبقہ کی ذمہ دار تنظیموں اور جماعتوں کا اتحادد قائم کرکے سماجوادی جن مورچہ قائم کیا۔ آزادی کے بعدمسلمانوں کی جمہوری نظام حکومت میں حصہ داری کو ایک سوچی سمجھی سازش اور منظم منصوبہ کے ساتھ ختم کیا جا رہا تھا اس لئے زعمائے ملت اور اکابرین امت کے مشورہ پر غیر مسلم پسماندہ اور دلت طبقوں کو ساتھ لے کر حکومت میں مسلمانوں کی حصہ داری قائم کرنے لیے ڈاکٹر عبد الجلیل فریدی صاحب نے مسلم مجلس کی داغ بیل ڈالی تھی۔ مولاناؒ نے ان کو اٹاوہ میں اس کی یونٹ قائم کرنے کو مہمیز کیا اور آپ نے باقاعدہ اس کی یونٹ قائم کرکے مسلمانوں کے سیاسی شعور کو جلا بخشنے کی عملی کوشش فرمائی۔ اس کے ساتھ ہی اسی کاز کے لیے آپ مسلم مجلس کی ایما پر ۱۹۷۷؁ء میں جنتاپارٹی میں شامل ہوئے اور اس کے قومی لیڈران کے ساتھ مل کر غیر کانگریسی حکومت کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔
حضرت مولانا فداحسین ؒ نے نصاب تعلیم کے ذریعے معصوم ذہنوں میں گھولے جانے والے زہر کی حقیقت سے بھی لوگوں کو روشناس کرایا۔ اردو کے تحفظ اور فروغ کی تحریک میں عملی طور پر سرگرم رہے۔ اپنے مقاصد حسنہ کی تکمیل اور عوام و خواص کو اس اہم دینی و ملی ضرورت سے باخبراور انہیں اس کی طرف متوجہ کرنے کے لیے تحریریں اور مضامین شائع کیے، کتابیں لکھیں،ضرورت پڑی تو لیڈران اور حکمرانوںکے پاس گئے اور ان سے ملاقاتیں کرکے اس طوفان بلاخیز کو روکنے میں اہم رول اداکیا۔ اسی کے زیراثرہوکر ۱۹۵۹؁ء میں حضرت مولانا سید ابو الحسن علی میاں ندوی صاحب ؒ کی زیرصدارت لکھنومیں آل انڈیادینی تعلیمی کونسل کا قیام عمل میں آیا۔ جنگ آزادی کی سب سے اہم ملی جماعت جمعیت علمائے ہند کی خدمات کو عوامی سطح پر متعارف کرانے اور اس کی قومی و ملی خدمات سے اہل علاقہ کو جوڑنے کے لئے آپ نے یہاں جمعیۃ علماء کی مقامی یونٹ قائم کرکے مسلمانوں کو قومی و ملی خدمت کا ایک اور مؤثر پلیٹ فارم مہیا کیا اور اس کے تحت اصلاح معاشرہ،دینی بیداری سمیت تمام ملی مسائل پر مسلمانوں کی رہنمائی فرمائی۔
تصنیف وتالیف
حضرت مولانا کی کل چودہ تصنیفات وتالیفات شائع ہوئیں جن میں چندنہایت معرکۃ الآراء ہیں۔ ان کے علاوہ چند مسودہ بھی ہیں جوترتیب اور تعلیق کے بعد اشاعت کے منتظر ہیں۔ شائع شدہ ان کتابوں کے نام ذیل میں درج کئے جاتے ہیں:
۱۔ قرآن کی روشنی (اردو)۲۔ قرآن کی روشنی(ہندی)۳۔وہاٹ ڈزدی قرآن سے؟(انگریزی)۴۔دی اسپرٹ آف ہولی قرآن(انگریزی)۵۔چالیس حدیثیں(اردو)۶۔بھارت کی انقلابی لہریں(اردو)۷۔آزادی کی بہاریں(اردو)۸۔آریہ سماج کی ترقیاں(اردو)۹۔نصاب تعلیم کا مقدمہ اور آریہ سماج کے منصوبے (اردو)۱۰۔آئینہ وطن(اردو)۱۱۔مجموعہ حمد و نعت(اردو)۱۲۔مظلوم اردو کی داستانِ غم(اردو)۱۳۔اسلامی تصوف اور حاجی وارث علی صاحب(اردو)۱۴۔آئینہ محرم شریف(اردو)
اس وقت ملک میں جو بھی صورت حال ہے اس کے منصوبوں کو حضرت مولاناؒ نے اپنے نور بصیرت سے آزادی کے فوراً بعد یعنی آج سے تقریباً ساٹھ ستر سال قبل ہی محسوس فرمالیا تھا۔ ان احساسات کو علمائے امت اور زعمائے ملت تک کتابی شکل میں پہنچا کر حضرت مولانا نے اپنا قومی و ملی فرض ادا کرنے کی کوشش فرمائی۔چنانچہ حضرت کی اس کوشش کو اہل فکر و نظر اور ملی خدمات انجام دینے والی شخصیات اور اداروںنے نہ صرف خراج تحسین پیش کیا بلکہ اس کی روشنی میںاپنی کوششوں کا اجراء بھی فرمایا۔ ان کتابوں کی پیش کش میںمولاناعلیہ الرحمہ نے کتنی جانکاہی برداشت کی ہوگی اس کا اندازہ صرف ان کتابوں کے مواد کو دیکھ کر ہی لگایا جا سکتا ہے۔ فرقہ پرستوں اور خاص طور پرسوامی دیا نند سرسوتی کی بدنام زمانہ تحریک آریہ سماج کی حقیقت اور اس کی اسلام و مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی ارباب حکومت کے ساتھ درپردہ سازشوں اور منصوبوں کو ان کتابوںمیں بے نقاب کیا ہے۔ نصاب تعلیم کے ذریعہ دیو مالائی سنسکرتی کو عام کرنے اور کلچر کے نام پر مسلمانوں کی نسل کشی اور ان کے عملی و فکری ارتداد کی حکومتی مہم کا بھی ان کتابوں میں خوب جائزہ لیا گیا ہے۔ موجودہ دور میں بھی باہوش اور باخبر علماء اور ملی خدمت کرنے والے حضرات کو ان کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ حضرت مفکر ملتؒ کے حفید مکرم جناب مولانا طارق شمسی صاحب زیدمجدہم (مہتمم، مدرسہ عربیہ قرآنیہ اٹاوہ) جو حضرت مولانا کے مشن کے امین اور وارث ہیں ان کے کاموں کو اس وقت کمال بالغ نظری اور ذمہ داری کے ساتھ آگے بڑھا رہے ہیں، چناں چہ وہ ان کتابوں کی اشاعت نو کی کوشش فرما رہے ہیں۔اللہ تعالیٰ ان کی کوششوں کو بار آور فرمائے(آمین)۔
بیعت وارشاداور آخری ایام
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ وہ شخص تمام لذتہائے دنیا سے بے خبر ہے جو محبت کی دولت سے ناآشناہے۔ اور جسے محبت مولا عطا ہو جائے تو اس کے لیے پھر کیا کہنا۔اسی لیے پرانے زمانے کے فضلاء علوم ظاہریہ کی تکمیل کے بعد تکمیل باطن میں لگ جاتے تھے۔حضرت مولاناؒ بھی ابتدا میں حضرت حکیم الامت کے خلیفہ اجل حضرت علامہ سید سلیمان ندوی کے حلقہ ارادت میں داخل ہوئے اور ان کے مشرب سے شراب محبت کو منھ لگایا۔ لیکن جب یہ بزم اجڑگئی تو دیارفاروقی میں امام اہلسنت حضرت مولانا عبدالشکور صاحب فاروقیؒ کے در پر پہونچے اور وہاں بھی بادہ مستی سے مستفیدہوئے۔ ان کی بھی بزم مے اٹھ جانے کے بعد آپ نے حضرت شیخ الحدیث مولانازکریا صاحب ؒ سے کسب فیض کیالیکن حضرت شیخ مدینہ ہجرت کرگئے۔بعدازاں آپ حضرت حکیم الاسلام قاری محمدطیب صاحب ؒ کی خدمت حاضرہوئے اورانھی کو اپناآخری شیخ بنا لیااور جب تک سانس باقی رہی حضرت قاری صاحب کے علوم ومعارف سے ہی لذت آشنارہے۔حضرت مولاناؒ نے ۱۹۵۸؁ء میں حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی۔زندگی بھر دین حق کی آبیاری کرنے والے اس مردمجاہدنے بالآخر۷؍ جنوری ۱۹۸۰؁ء کوداعی اجل کی دعوت پرلبیک کہہ دیااور اس دارفارنی سے دارباقی کی ہجرت کرلی۔ اس وقت قبرستان پنجابیان اٹاوہ میں آسودہ خا ک ہیں۔اناللہ واناالیہ راجعون
(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.