واقعہ معراج……. نکتہ کی دو باتیں

مولانا محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ
اسراء و معراج کا سفر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ عظیم اور حیرت انگیز معجزہ ہے جس پر عقل انسانی آج بھی دنگ اور حیران ہے ۔ تاریخ انسانی کا یہ سب سے طویل اور حیران کن سفر ہے سانس اور انسانی عقلیں ابھی اس کے عشر عشیر کے عشر عشیر تک نہیں پہنچ سکی ہیں ۔ انتہائی کم وقت میں مسجد حرام سے بیت المقدس اور وہاں سے پھر آسمانی سفر سدرة المنتھی تک کی لمبی مسافت طے ہوجاتی ہے جس کا تذکرہ سورہ بنی اسرائیل اور سورہ نجم میں موجود ہے ۔
معراج کا یہ واقعہ پوری تاریخ انسانی کا ایک ایسا عظیم ،مبارک اور بے نظیر معجزہ ہے جس کی مثال پیش کرنے سے دنیا قاصر ہے ،خالق کائنات نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت دے کر اور اپنا مہمان بنا کر وہ شرف عظیم عطا کیا ،جو نہ کسی انسان کو کبھی حاصل ہوا اور نہ کسی مقرب ترین فرشتہ کو ۔ اللہ تعالٰی نے معراج کی رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مہمان کے شایان شان تحفہ اور ہدیہ نماز کی شکل میں دیا ۔ دنیا میں بھی لوگوں کا دستور اور قاعدہ ہے کہ جب آنے جانے والا کسی کے گھر جائے تو لوگ کوئ نہ کوئی تحفہ دیتے ہیں ۔ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قاب قوسین سے زیادہ قریب ہوگئے تو اللہ رب العزت نے اپنے محبوب کو نماز کا مبارک تحفہ دیا ۔ نماز ایمان والو کے لئے بارگاہ خداوندی کا ایک عظیم تحفہ ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج کے طفیل مسلمانوں کو عطا کیا گیا ۔ اگر ایمان والے اس تحفہ کی قدر کر لیتے اور آپ کے آنکھوں کی ٹھنڈک نماز کو اپنی ٹھنڈک بنا لیتے تو آج امت کو یہ زوال، پستی، نکبت ،بدحالی اور رسوائی کا منھ نہ دیکھنا پڑتا ۔
جب اسلام کی سخت اور پر خطر زندگی کا باب ختم ہونے کو تھا ۔( جب شعب ابی طالب کا مشکل و دشوار مرحلہ اور طائف کا کٹھن اور پیچیدہ دعوتی سفر بھی پورا ہو گیا) اور ہجرت کے بعد اطمنان و سکون کے ایک نئے دور کا آغاز ہونے والا تھا تو وہ شب مبارک آئی اور وہ ساعت ہمایوں آئی جس کو تاریخ انسانیت اسراء و معراج کہتی ہے ۔ معراج کا واقعہ ہم مسلمانوں کو یہ پیغام دیتا ہے کہ اگر مسلمان صبر و استقامت عزم و ہمت سے کام لیں اپنے فرضی منصبی کو صحیح طور پر انجام دیں اور دعوت دین کو لوگوں تک دعوت و تبلیغ کی شرطوں اور تقاضوں کے ساتھ پہنچائیں تو ابھی جو دنیا میں مسلمانوں کی حالت ہے اور خاص طور پر ہندوستان میں میں جن مہیب اور مشکل حالات سے مسلمان گزر رہے ہیں یہ حالات ختم ہوجائیں اور پھر مسلمانوں کے لئے کوئ ساعت ہمایوں اور شب مبارک آجائے ۔ مولانا مناظر احسن گیلانی رح نے واقعہ معراج کے حوالہ سے نکتہ کی دو باتیں لکھی ہیں ۔ قارئین اسے بھی ملاحظہ فرمائیں مولانا مرحوم لکھتے ہیں :
جس چیز کو ایک طرف سے دباؤ گے تو دوسری طرف اس کا ابھرنا ناگزیر ہے ،آخر جو نیچے سے دبایا گیا اور مسلسل نہایت بیدردیوں سے دبایا گیا اور وہ دیتا ہی چلا گیا ،کس قدر عجیب بات ہے کہ لوگ اسی کے متعلق پوچھتے ہیں کہ وہ ۰۰ معراج ۰۰ میں اوپر کی طرف کس طرح چڑھا،کیوں چڑھتا گیا،آخر حد درجہ نیچے دبایا گیا اسے حد درجہ اوپر ابھرنا ہی چاہیے تھا،اس میں تعجب کی کیا بات ہے ؟
معــراج کے موقع پر آسمانی سیر میں پہلے آسمان پر آدم علیہ السلام، دوسرے پر عیسی علیہ السلام و یحی علیہ السلام، تیسرے پر ادریس علیہ السلام، چوتھے پرحضرت ہارون علیہ السلام، پانچویں پر یوسف علیہ السلام، چھٹے پر موسی علیہ السلام اور ساتویں پر ابراہیم علیہ السلام سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات ہوئی ۔ ہزارہا پیغمبروں میں سے کل سات پیغمبروں اور ان میں بھی حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوکر معمار کعبہ حضرت ابراہیم علیہ السلام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات کیوں ختم ہوگئ؟ اگر غور کیا جائے تو نکتہ کی بات سمجھ میں یہ آتی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے جس طرح اپنے وطن جنت سے نکل کر دنیا کی ہجرت کی،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ (وطن ) سے نکل کر مدینہ پہنچے ،مدینہ میں یہودی فتنے نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح گھیرا جس طرح حضرت عیسی علیہ السلام و حضرت یحیی علیہ السلام ان میں گھرے ،حضرت ادریس علیہ السلام کتابت کے موجد تھے ،غزوئہ بدر کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں میں نوشت و خواند کو مروج کیا حتی کہ ہر قیدی سے دس بچوں کو لکھنا سکھا دینا فدیہ مقرر ہوا۔ پیغمبروں میں حضرت ادریس علیہ السلام کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلاطین کے نام خطوط روانہ کئے ،آگے جس طرح حضرت ہارون علیہ السلام بنی اسرائیل میں ہردلعزیز تھے ،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ میں محبوب تھے ۔ پھر جس طرح حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنے وطن ثانوی مصر میں جو اقتدار حاصل ہوا وہی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے دور ہجرت مدینہ منورہ میں چند سالوں کے بعد حاصل ہوگیا ۔ پھر جس طرح حضرت موسی علیہ السلام نے اپنے وطن فلسطین پر مصر سے حملہ کیا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے وطن مکہ مکرمہ پر حملہ کیا اور اس کو مشرکوں کے اقتدار سے آزاد کرایا۔حضرت ابراہیم علیہ السلام بانی کعبہ تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ پر قبضہ کرکے پھر اس کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مسجد بنا دیا اور اسی پر زندگی ختم ہوگئی. ( النبی الخاتم )
Comments are closed.