کامیاب اقتصادی زندگی کے چند زریں اصول

مولانا محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ
مال و دولت کے لئے سبھی تگ و دو کرتے ہیں، اور روزی روٹی کے لئے سبھی محنت کرتے ہیں ۔ لیکن دولت کمانا ،اور مال حاصل کرنا یہ اصل کمال نہیں ہے اصل کمال یہ ہے کہ حمکت و دانشمندی اور عقل و دانائی اور سلیقہ و ترتیب سے اس کو خرچ کیا جائے ۔ بہت سے لوگ خوب دولت کماتے ہیں لیکن خرچ کا سلیقہ اور حسن ترتیب نہ ہونے کی وجہ سے وہ پریشان رہتے ہیں ان کی ضرورتیں پوری نہیں ہو پاتی اور جلد ہی وہ مقروض ہوتے جاتے ہیں مہینہ ختم ہونے سے پہلے بیلنس ڈس بیلنس ہوجاتا ہے ۔
انسان کی فراست و ذہانت یہ ہے کہ کم آمدنی میں میں خرچ کی ایسی ترتیب بنالیں کہ ضرورت پوری ہوجائے اور کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے اور قرض لینے کی ضرورت پیش نہ آئے یا کم سے کم پیش آئے ۔ عرب میں ایک محاورہ ( جملہ) مشہور ہے فقہ الرجل فی معیشتہ انسان کی اصل اور کمال دانشمندی اس کے اپنی معیشت کے حسن ترتیب اور حسن نظام میں ہے ۔ یعنی اہل عرب اس کو دانا اور سمجھ دار خیال کرتے ہیں جو کم آمدنی میں بھی خوشگوار زندگی گزار لے ۔
مصلح امت حضرت شاہ وصی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے کامیاب اقتصادی و معاشی زندگی کے چند زریں اصول بیان کئے ہیں ۔ جس میں ہمارے لئے کامیاب اقتصادی زندگی کے رہنما اور سنہرے اصول ہیں ۔ضرورت ہے کہ ہم اس کی روشنی میں اپنی معاشی زندگی گزاریں جو در اصل قرآن و حدیث ہی سے مستفاد ہیں ۔
مصلح الامت حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
انفاق یعنی خرچ کرنے میں ترتیب کا لحاظ ضروری ہے ،اسی طرح اہل حق پر صرف کرنے ( خرچ کرنے) میں بھی اعتدال اور میانہ روی ضروری ہے ،نہ اتنی تنگی کرے کہ اہل حقوق تنگی میں ہوجائیں،نہ اتنی وسعت کرے کہ اسراف (جس سے روکا گیا ہے) تک نوبت پہنچ جائے ،بلکہ آمدنی کے موافق ہی خرچ کرنا چاہیے اور آئندہ کے لیے بھی آمدنی کا کچھ حصہ بچا کر پس انداز کرنا چاہیے، اسی کو اقتصاد کہتے ہیں جو نہایت اہم اور دشوار مسئلہ ہے اور یہی تدبیر منزل اور گھریلو زندگی کی اصل و اساس ہے ،اگر اقتصادی حالت درست نہیں ہے اور اس میں فساد و قصور ہے تو پھر تدبیر منزل(گھریلو زندگی )بھی خراب اور فاسد ہوگی۔
سمیر المہذب نامی کتاب میں کامیاب اقتصادی زندگی کے لئے چند رہنما اور زریں اصول بیان کئے گئے ہیں وہ یہ ہیں۔
آمدنی اگر چہ قلیل ہے مگر اس سے کچھ پس انداز کرنا چاہیے اور جو شخص آمدنی سے زیادہ خرچ کرتا ہے وہ احمق ہے.
ضرورت کی اشیاء ( چیزیں) نقد لو ،کسی سے قرض لے کر مقروض نہ ہو.
آئندہ آمدنی کی توقع پر سب مال خرچ نہ کر ڈالو ،اس لئے کہ جو چیز حاصل نہیں ہے اس پر کیا بھروسہ؟ ملے نہ ملے ،جو شخص آئندہ کی امید پر خرچ کرے گا وہ قرض اور فقر میں مبتلا ہو جائے گا. ۔
اپنے مال کو تلف ضائع اور ہلاک کرنے سے بچاو اس لئے کہ نہ تو تم کو ہی اس سے کوئ نفع پہنچے گا اور نہ کسی اور کو ہی.
اپنے اعمال کی خود حفاظت کرو اور اگر عمل خود کرسکتے ہو تو کرو،اس لئے کہ مثل مشہور ہے لا ہھم فی العمل الا صاحبہ ولا یراقب الشئ الا عین صاحبہ ۔ یعنی جس کا کام ہوتا ہے وہ اس کا اہتمام بخوبی کرسکتا ہے اور کسی چیز کی حفاظت و نگرانی اس کے مالک ہی کی آنکھ کرسکتی ہے.
اگر کسی چیز کی ضرورت نہ ہو تو اس کو نہ خریدو ،اگر چہ وہ سستی ہی کیوں نہ ہو،جب تم اکو س کی ضرورت نہیں ہے تو مفت بھی ملے تو گراں اور مہنگا ہے.
اپنے مستقبل پر نظر رکھو اور ایسا حساب رکھو کہ اگر کوئ حادثہ پیش آجائے تو مالی دقت اور پریشانی نہ ہو. (اقتباس از مصلح الامہ شاہ وصی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ)
مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ دولت خرچ کرنے کا اصول بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
دولت خرچ کرنے کا سب سے بڑا اصول یہ ہے کہ ضروریات پر خرچ کرو،فضولیات سے بچو ۔ آج ہمارے معاشرہ میں غور کیا جائے تو ضروریات کم ہیں فضولیات زیادہ، بلکہ فضولیات کا نام ہی ہم نے ضروریات رکھ لیا ہے ۔ میں سچ کہتا ہوں کہ اگر انسان اس زریں اصول پر عمل کرے تو آج دنیا سے نوے فیصد معاشی تنگی اور بدحالی دور ہوجائے ۔ یہ ساری دنیا جو پریشان ہے آپ تجزیہ کرکے دیکھ لیں کہ ان میں کچھ تو ایسے آدمی ضرور ہیں جو آمدنی نہ ہونے کی وجہ سے پریشان ہیں لیکن کثیر تعداد ایسے لوگوں کی ہے جن کی آمدنی تو ہے لیکن وہ اس آمدنی سے اپنے اخراجات کے کفیل نہیں ہوسکتے اور ہوں بھی کسی طرح ؟ آج غسل خانے اور پاخانہ میں ٹائلس تو لگتے ہیں لیکن بیوی بچوں کی جائز ضروریات پوری نہیں ہوتیں۔ آج ٹیلیفون اور موٹر ضروریات بن گئیں اور ہمسایہ(پڑوسی)بھوکاسو رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بڑے بڑے گھرانے کا آج حال یہ ہے کہ مہینہ کی اول تاریخوں میں اخراجات کی حالت کچھ اور ہوتی ہے اور آخر تاریخوں میں قرضے کی نوبت آجاتی ہے پہلے لوگوں میں کبھی پہلی اور آخری تاریخ کا فرق کوئی جانتا بھی نہیں تھا ،وجہ یہ ہے کہ وہ ۰۰ ضروریات پر خرچ کرو،فضولیات سے بچو ۰۰ کے اصول پر عامل تھے. ( اقتباس از مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ)
اگر ہم لوگ ان اصولوں پر عمل پیرا ہوجائیں اور ان اصول اقتصاد و معاش کو اپنا لیں اور خرچ کرنے والے اور اہل حقوق سبھی لوگ ان کی رعایت کریں اور افراط و تفریط سے بچیں اور اہل حقوق سے بے جا مطالبات سے احتراز کریں تو آج ہماری گھریلو زندگی سنور جائے معاشی تنگی دور ہو جائے اور اطمنان و سکون میسر ہوجائے ۔
Comments are closed.