Baseerat Online News Portal

آئین کو بچانے کے لیے سیکولر امیدوار منتخب کریں!

آئین کو بچانے کے لیے سیکولر امیدوار منتخب کریں!
نازش ہما قاسمی

(ممبئی اردو نیوز/ نیشنل بیوروچیف بصیرت آن لائن )

لوک سبھا انتخابات کی تاریخ کے قریب آتے ہی ملک کا منظر نامہ بدلتا جارہا ہے۔ سیاسی پارٹیاں توڑ جوڑ میں مصروف ہیں اور جی ایس ٹی نوٹ بندی کے ستائے عوام وکاس کو ڈھونڈ رہے ہیں۔ لیڈران اپنی چکنی چپڑی باتوں سے عوام کے ذہن و دماغ پر چھانے کی کوشش کر رہے ہیں؛ لیکن عوام نے پانچ سالہ کار کردگی کو سامنے رکھ کر اپنا من بنالیا ہے کہ اس بار مودی سرکار نہیں، بلکہ وکاس سرکار۔۔۔ اب جو بھی وکاس کرے اسے ووٹ دینا ہے۔ جو ترقی کی بات کرے اسے اقتدار سونپنا ہے۔۔۔۔ جو ہندو مسلم نفرت کے بجائے اتحاد کی بات کرے اسے دہلی کے تخت پر بٹھانا ہے۔۔۔۔۔ اپوزیشن لیڈران بھی فرقہ پرست حکومت کو اقتدار سے بے دخل کرنے کےلیے کمربستہ ہوچکے ہیں۔۔۔۔ اور علاقائی طور پر گٹھ بندھن کا اعلان کرکے اپنے امیدواروں کی فہرست جاری کردی ہے۔۔۔۔ اس بار کا الیکشن انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔۔۔۔۔ بعض سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ بی جے پی اس بار بھی بازی مار لے گی اور بعضوں کا کہنا ہے کہ علاقائی پارٹیاں اس الیکشن میں اہم رول ادا کریں گے اور کانگریس اور بی جے پی کا صفایا ہوجائے گا اور تیسرا محاذ حکومت سازی کے فرائض انجام دے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہرحال یہ تو الیکشن کے نتائج سے ہی واضح ہوگا کہ کون دہلی کے اقتدار کو سنبھالے گا اور کون بے دخل ہوگا؛ لیکن عوامی رجحان کا جہاں تک تعلق ہے ان کی پہلی پسند علاقائی پارٹیوں کے سیکولر اتحاد کو ووٹ دینا ہے۔۔۔۔۔ لیکن اس بات سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ اس بار بڑی تعداد میں ووٹ منشتر ہوں گے۔۔۔۔ یوپی میں ایس پی، بی ایس پی نے اتحاد کرلیا ہے اور کانگریس کو اس اتحاد میں اب تک شامل نہیں کیا ہے وہیں بی جے پی اپنے ہم نوا پارٹیوں کے ساتھ میدان میں ہے۔۔۔اگر ایس پی، بی ایس پی اتحاد کے ساتھ کانگریس کے امیدوار ٹکرائیں تو عوام کو چاہیے کہ وہ اتحاد کا ساتھ دیں ۔۔۔۔ اسی طرح بہار میں راجد اور کانگریس کا اتحاد ہے؛ لیکن کچھ جگہوں پر ایسے امیدوار کھڑے ہیں جنہیں پارلیمنٹ تک پہنچانا عوام کی ذمہ داری ہے۔۔۔۔ ان جگہوں پر جہاں یہ امیدوار کھڑے ہیں اگر اتحاد کا نمائندہ بھی وہاں ہے انتخاب لڑرہا ہے تو عوام کو چاہیے کہ وہ ان نمائندوں کو جیت دلائیں جن کے ایوان میں گرجنے کی امید ہے اور جنہوں نے ماضی میں ظلم و جور کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ نہ کہ اتحاد کے ان امیدواروں کو جو اپنی پارٹی کے خوف سے مسلم مسائل اور ملک میں ہو رہے ظلم و ستم کے خلاف ایک آواز نہ بلند کی ہو۔
اس الیکشن میں عوام کو آئین کی حفاظت کے لیے اُٹھنا ضروری ہے۔ کیوں کہ آئین پر شب خون مارنے کا سلسلہ جاری ہے اگر فرقہ پرست دوبارہ اقتدار میں آگئے تو مشکل ہے کہ آئین ہند سلامت رہے۔ عوام کو چاہیے کہ وہ آئین کی حفاظت کے لیے کمربستہ ہوجائیں اور فرقہ پرستی کے عفریت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں۔ الیکشن میں ریکارڈ توڑ ووٹنگ کریں ۔ مسلمان گھروں میں نہ پڑے رہیں، چھٹیاں انجوائیں نہ کریں، بلکہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے جمہوری حق کا استعمال کرتے ہوئے فرقہ پرستی کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں اور ملک کو بچائیں۔ بی جے پی حکومت ہر محاذ پر ناکام رہی ہے۔ تمام وعدے اس کے وعید میں بدل چکے ہیں۔ نئے نئے چہرے شامل کرکے عوام کو ایک بار پھر بیوقوف بنانے کی تیاری کی جارہی ہے۔ بی جے پی کا انتخاب کرنے سے پہلے نوٹ بندی میں مرنے والوں کو یاد کرلینا، جی ایس ٹی کے ستائے ہوؤں کو یاد کرلینا، کیرالہ میں احتجاج کررہے بول وبراز پینے پر مجبور کسانوں کو یاد کرلینا، سرحدوں پر شہید جوانوں کے لہو کو یاد کرلینا، ظلم وجور کے شکار اخلاق، علیم، جنید، پہلو خان، گروگرام کی مسلم فیملی کے افراد کو یاد کرلینا، سوسمارٹ سٹی کا معائنہ کرلینا تب جاکر دام فریب میں آنا۔ موجودہ حکومت نے جی ایس ٹی اور نوٹ بندی کو تاریخی فیصلہ قرار دیا تھا؛ لیکن ان کا کوئی بھی امیدوار اس تاریخی فیصلے کے بل بوتے پر ووٹ نہیں مانگ رہا ہے اگر یہ تاریخی فیصلہ تھا تو عوام سے خراج وصولنا تھا لیکن خراج شہید فوجیوں کی لاشوں سے وصولا جارہا ہے۔ ان شہید فوجیوں کے اہل خانہ اب بھی یہ سوچ رہے ہیں کہ کوئی رہنما آئے گا اور دلاسہ دے گا لیکن رہنما فوجیوں کو مودی سینا قرار دے رہے ہیں اور فوجیوں کی لاشوں پر سیاسی روٹیاں سینک رہے ہیں۔ ان سبھی باتوں کو اگر ذہن میں رکھ کر ووٹنگ کی جائے تو امید ہے کہ فرقہ پرستی کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اس الیکشن میں ملک کی سب سے بڑی پارٹی کانگریس کا رویہ بھی انتہائی دوغلہ ہے۔ اس نے مسلم امیدواروں کو ایک تو ٹکٹ نہیں دیا ہے اور آسام جیسی ریاست میں وہاں کی مقبول سیکولر پارٹی کے خلاف اپنے امیدوار کھڑے کرکے اپنی ذہنیت بتا دی ہے کہ بی جے پی اور کانگریس ایک ہی سکے کے دورخ ہیں۔ ہاں اتنا فرق ضرور ہے کہ ایک رخ پر فرقہ پرستی کا نقش ہے تو دوسرے پر انگوٹھے کا۔ جیسا کہ اس سےاوپر تحریر کیا جاچکا ہے کہ ایسی جگہوں پر مسلمان یکطرفہ طور پر ان امیدواروں کو ووٹ دیں جن کا پارلیمنٹ جانا ضروری ہے۔ وہاں کانگریس کو خاطر میں نہ لائیں۔ کانگریس کہ ذہن میں یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کو مجبور کرکے اپنے حق میں رائے دہی کا استعمال کریں گے؛ لہذا مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ وہاں انہیں دھول چٹا دیں باقی جگہوں پر بڑے فرقہ پرست کو مات دینے کےلیے اس چھوٹے فرقہ پرست (کانگریس) کو ووٹ دیں۔ ہاں ایک بات اور ابھی بڑے بڑے لیٹر پیڈ قائدین کی جانب سے ووٹ دینے کی اپیل کی جائے گی۔ آپ نے ہمیشہ ان اپیلوں پر دھیان دیا اس بار اپیل پر دھیان نہ دیں اور ملک کی سلامتی کےلیے، آئین کی حفاظت کےلیے جو آپ کو سیکولر امیدوار نظر آئے یک طرفہ طور پر اسے ووٹ دے کر کامیاب کریں۔

Comments are closed.