Baseerat Online News Portal

مسجدیں اور خواتین(۲)

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
سکریٹری آل انڈیامسلم پرسنل لا بورڈ
پس رسول اللہ کے ارشادات، صحابہ کے آثار، دین کے مجموعی مزاج ومذاق اور فقہاء کی تصریحات کو سامنے رکھتے ہوئے خواتین کے مسجد میں جانے اور نماز پڑھنے کے سلسلہ میں جو نکات سامنے آتے ہیں، وہ یہ ہیں:
(۱) اسلام میں عورتوں کو پورا احترام دیا گیا ہے، اور اس احترام کا ایک پہلو یہ ہے کہ خواتین کے مسجد میں داخل ہونے کی ممانعت نہیںہے، جیسا کہ برادران وطن کے یہاں بعض مندروں میں خواتین نہیں جا سکتیں، حرمین شریفین کو مسجدوں میں بھی ایک خاص حیثیت اور تقدس حاصل ہے، اس کے باوجود مسلمان عورتوں کو وہاں جانے کی اجازت ہے، اور ہمیشہ سے اس کا تعامل رہا ہے۔
(۲) اگر کوئی عورت مسجد میں انفرادی طور پر نماز ادا کرلے جیسے راستہ سے گزرتے ہوئے مسجد ملی اور وہاں ایک کونہ میں نماز پڑھ لی، پردہ کا پورا خیال رکھا، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، فقہاء نے اپنے زمانہ کے حالات کے لحاظ سے عورتوں کو مسجد میں کراہت کے ساتھ اعتکاف تک کی اجازت دی تھی: روی الحسن عن أبي حنیفۃ جوازہ وکراھتہ(الاعتکاف) في المسجد (عمدۃ القاری: ۱۱؍۱۴۲)
(۳) عورتوں کے لئے مسجد میں نماز ادا کرنے کے مقابلہ گھر میں نماز ادا کرنا افضل ہے، جیسا کہ حضرت ام حمیدؓ کی روایت سے واضح ہے؛ اس لئے یہ درست نہیں ہے کہ خواتین کو ترغیب دی جائے کہ وہ مسجد میں جا کر جمعہ وعیدین کی نماز ادا کیا کریں؛ کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے گھر کے ایک کونہ میں نماز پڑھنے کو افضل قرار دیا ہے۔
(۴) رہ گئی یہ بات کہ عورتوں کو مسجد میں جماعت کے وقت جماعت سے اور جب جماعت کا وقت نہ ہو تو انفرادی طور پر نماز ادا کرنے کی گنجائش ہے یا نہیں؟ اور مسجد میں خواتین کی نماز کے لئے انتظام رکھنا چاہئے یا نہیں؟ تو اس سلسلہ میں ہمارے یہاں خاصی افراط وتفریط پائی جاتی ہے، ایک گروہ اس بات پر بہت زور دیتا ہے کہ عورتوں کو مردوں ہی کی طرح مسجد جانے کی ترغیب دینی چاہئے اور ہر مسجد میں ان کے لئے نماز کا انتظام ہونا چاہئے، یہ منشاء دین سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرما دیا کہ عورتوں کا گھر میں نماز پڑھنا بہتر ہے تو پھر اس پر اصرار کرنے کے کوئی معنیٰ نہیں ہیں، اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جس اندیشہ کا اظہار فرمایا ہے، وہ ان کے زمانہ کے مقابلہ اب بدرجہا بڑھا ہوا ہے، اس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا،بعض لوگ کہتے ہیں کہ آخر آج کے دور میں خواتین، شاپنگ اور دوسرے کاموں کے لئے تو نکلا ہی کرتی ہیں، اگر نماز کے لئے نکلیں تو اس میں کیا بری بات ہے؟ لیکن ضروری ہے کہ ہم دونوں کے فرق کو سامنے رکھیں، اولاََ تو ویسے بھی عورتوں کا شاپنگ کے لئے نکلنا کوئی بہتر بات نہیں ہے؛ لیکن غور کیجئے کہ اگر بازار میں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آجائے تو اس سے بازار بدنام ہوگا، اور اسی طرح کا واقعہ اگر مسجد میں پیش آئے تو اس سے مسجد کی حرمت پامال ہوگی، اور مسجد کی طرف اس کی نسبت ہوگی، جیسا کہ آج کل برادران وطن کی عبادت گاہوں میں ایسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں اور وہ معاشرہ میں بدنام ہیں؛ اس لئے موجودہ زمانہ کے احوال اس کے لئے بالکل موزوں نہیں ہیں کہ خواتین کو مسجد میں نماز پنج گانہ ادا کرنے کی دعوت دی جائے، اور شریعت میں جہاں دو طرح کے احکام ہوتے ہیں، ان کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ دو مختلف حالات کے لحاظ سے دونوں پر عمل کیا جائے، قرون اولیٰ کے حالات اتنے برے نہیں تھے تو عورتیں مسجدوں میں جماعت سے نماز ادا کیا کرتی تھیں، اور موجودہ دور میں اخلاقی مفاسد بہت بڑھ گئے ہیں؛ اس لئے ہمیں اُس طریقہ پر عمل کرنا چاہئے، جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زیادہ بہتر قرار دیا ہے۔۔
بعض تجدد پسند مرد اور خواتین اس بات کو عورتوں کی تذلیل قرار دیتے ہیں کہ اُن کو جماعت میں شریک ہونے سے روکا جائے، یہ محض ناسمجھی اور کم فہمی کی بات ہے، یہ تذلیل نہیں ہے، رعایت ہے، یہ ان کی حق تلفی نہیں ہے؛ بلکہ ان کے لئے چھوٹ ہے، عورتوں کا سب سے اہم کردار ماں ہونے کا ہے، جب وہ ماں بنتی ہیں تو جنت ان کے قدموں کے نیچے آجاتی ہے؛ کیوں کہ وہ بچوں کی پرورش کے لئے اپنے آپ کو قربان کر دیتی ہیں، اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے گھر کی منتظم بھی ہوتی ہیں اور تمام امور خانہ داری ان ہی سے متعلق ہوتے ہیں، جس ماں نے رات میں جاگ کر بچوں کو سُکھ پہنچایا ہو، جو اپنے سینہ میں محفوظ پاک غذا کے سرچشمہ سے اپنے نونہالوں کو سیراب کرنے کے لئے بار بار اُٹھی ہو، اور فجر کے وقت نیند اس کی آنکھوں میں سمائی ہوئی ہو، اگر اسے اس وقت فجر کی نماز کے لئے مسجد جانا لازم ہوتا تو سوچئے کہ اسے کتنی دشواری ہوتی، جس عورت کو اللہ نے نازک اندام اور سبک خرام بنایا ہے، اگر دوپہر کی آگ اگلتی ہوئی دھوپ میں مسجد جانے پر مجبور کیا جاتا تو یہ بات اس کے لئے کس درجہ پریشانی کا باعث ہوتی؟ اس لئے اسلام نے جیسے زندگی کے دوسرے مسائل میں خواتین کے ساتھ خصوصی رعایت کا معاملہ کیا ہے، کہ حج میں کوئی محرم مددگار یا شوہر ساتھ نہ ہو تو اس پر حج فرض نہیں، اس پر جہاد فرض نہیں، اور کسب معاش کی ذمہ داری نہیں، وغیرہ وغیرہ ، اسی طرح اس مسئلہ میں بھی اس کے ساتھ رعایت کا پہلو اختیار کیا گیا ہے۔
دوسری طرف بعض حضرات نے عملی طور پر واقعی ایسا رویہ اختیار کر رکھا ہے کہ گویا عورت کا مسجد میں قدم رکھنا یا کم سے کم وہاں نماز پڑھنا شجر ممنوعہ ہے، اور یہ دین کا حکم قطعی ہے ، یہ بھی درست نہیں ہے، اگر ایسا ہوتا تو جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض چیزوں کی اجازت دی اور پھر اسے منسوخ فرما دیا، خود نماز کے سلسلہ میں بعض طریقے منسوخ کئے گئے، اسی طرح آپ نے مسجد میںعورتوں کے نماز پڑھنے کو بھی مکمل طور پر منع فرما دیا ہوتا اور آپ جو بات فرماتے تمام مسلمان مردو عورت سے بطیب خاطر اسے قبول کرلیتے؛ لیکن یہ ضروری ہے کہ موجودہ حالات کے اعتبار سے اس اجازت کو محدود کیا جائے، جیسا کہ بعض صحابہ نے اس اجازت کو بعض نمازوں تک اور بعض نے عمر دراز عورتوں تک محدود کر دیا ہے۔
موجودہ دور میں بہت سی جگہ مسجدوں میں خواتین کے لئے نماز کا انتظام ضروری محسوس ہوتا ہے، جیسے بازاروں کی مسجدیں کہ خواتین وہاں آئیں اور نماز کا وقت ہو جائے تووہ نماز سے محروم نہ رہ جائیں، ریلوے اسٹیشن ، بس اسٹینڈ ، ائیرپورٹ، کورٹ، ہاسپیٹل کے قریب کی مسجدیں؛کیوں کہ یہ ایسے مقامات ہیں، جہاں ضرورتاََ خواتین کو آنا پڑتا ہے، اگر ان کے لئے نماز کا انتظام ہو تونماز قضاء نہیں ہوتی، اسی طرح ہائی وے پر جو مسجدیں ہوتیں ہیں،ان میں بھی اس انتظام کی ضرورت ہے،رمضان المبارک میں عورتوں کی بڑی تعداد نماز تراویح کا اہتمام نہیں کر پاتی، حافظ قرآن کے پیچھے قرآن سننے کا جذبہ لوگوںمیں تراویح کے اہتمام کا محرک بنتا ہے، عام طور پرمحلہ میں کئی مسجدیں ہوتی ہیں، اگر ایک مسجد سے متصل خواتین کے لئے ہال بنا دیا جائے؛ تاکہ اڑوس پڑوس کی خواتین یہاں نماز پڑھ لیں تو اس میں بھی کوئی حرج نظر نہیں آتا، اسی طرح تعلیمی اداروں میں مسلمان لڑکیوں کی بھی اچھی خاصی تعداد ہوتی ہے، اگر ان اداروںکے قریب خواتین کے لئے نماز کا مصلیٰ بنا دیا جائے؛ تاکہ وہ ظہر وعصر کی نمازیں یہاں ادا کر لیں ، اس طرح وہ نمازیں پڑھیں گی اوران کو اس کی عادت پڑے گی۔
پھر موجودہ دور میں عموماََ مسجدوں کے ساتھ طبعی حاجات کے لئے بھی انتظام ہوتا ہے، یوں تو کسی کا بھی ادھر اُدھر استنجاء کے لئے بیٹھ جانا بہتر بات نہیں؛ لیکن خاص کر خواتین کے لئے یہ زیادہ دشواری کا باعث ہے؛ اس لئے اگر بازار اورہائی وے وغیرہ کی مسجدوں میں خواتین کے حصہ میں باتھ روم کا نظم بھی رکھا جائے تو یہ ان کے لئے بے حد سہولت کا باعث ہوگا۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے یہاں دین کی جو کچھ باتیں کہی جاتی ہیں، ان سے زیادہ تر مرد ہی استفادہ کرتے ہیں، جمعہ کے بیانات ہوں، دعوتی اجتماعات ہوں، سیرت کے جلسے ہوں، مدارس کے پروگرام ہوں، اصلاح معاشرہ کی کانفرنسیں ہوں، ان میں بے چاری خواتین کو شاذونادر ہی استفادہ کا موقع ملتا ہے؛ حالاں کہ عورت خاندان کی بنیاد ہوتی ہے اور اسی کی گود بچوں کی پہلی درس گاہ بنتی ہے، اس صورت حال میں کیسے خواتین سے توقع رکھی جا سکتی ہے کہ وہ ایک بہتر معاشرہ کی تعمیر کر سکیں گی؛ اس لئے ضرورت ہے کہ شہر کی بعض مسجدوں سے قریب خواتین کے لئے اجتماع ہال تعمیر کیا جائے اور اس کو مسجد کے مائک سے مربوط کر دیا جائے؛ تاکہ جمعہ سے پہلے جو بیان ہو، اسے خواتین بھی سن سکیں، اور اس سے بھی بہتر ہے کہ مسجد سے گھروں کو ایسا کیبل کنکشن دیا جائے کہ خواتین اپنے گھروں میں بیانات کو سن سکیں، میں نے خود برطانیہ میں دیکھا ہے کہ وہاں کثرت سے اس کا رواج ہے ، اس قسم کا نظام گجرات کے بعض قصبات وشہروں میں بھی پایا جاتاہے، یہاں تک کہ خواتین کچن میں ریڈیو ٹرانسمیٹرلگائے رہتی ہیں اور کام کرتے ہوئے بیان سنتی رہتی ہیں، اِس وقت خواتین کی تربیت دونوں پہلووں سے ضروری ہے، اس پہلو سے کہ وہ معاشرہ کی اصلاح کریں اور ان کے ذریعہ ایک اچھے سماج کی تشکیل ہو، اور اس لئے بھی کہ عورتوں کو بنیاد بنا کر اسلام کے بارے میں جو غلط فہمیاں پیدا کی جا رہی ہیں، خواتین اس کی حقیقت سے واقف ہوں اور وہ دوسری بہنوں کو اسلام کے بارے میں مطمئن کر سکیں، اور یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب اصلاحی پروگراموں اور تذکیری خطابات میں خواتین کی شرکت کا نظم کیا جائے۔
حاصل یہ ہے کہ نہ یہ درست ہے کہ خواتین کو مسجد جانے کی ترغیب دی جائے اور ہرمسجد میں ان کے لئے نماز کا انتظام ہواور نہ یہ درست ہے کہ جہاںمسجدوں میں خواتین کے لئے نماز کا انتظام کرنے کی ضرورت ہے، جس کی طرف اوپر اشارہ کیا گیا، وہاں بھی اس ضرورت کو نظر انداز کر دیا جائے۔
۰ ۰ ۰
(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.