Baseerat Online News Portal

کانگریس کے منشور میں لفظ

بی جے پی اور کانگریس کے انتخابی وعدوں پر ایک نظر
شکیل رشید(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)
سیاسی پارٹیوں کے ’ منشور‘ جھوٹوں کے وعدے ہوتے ہیں!
لیکن یہ ’ سچ‘ جاننے کے باوجود کانگریس کے ’ منشور‘ میں مسلمانوں کا نام لے کر ان کے تعلق سے کیا گیا کوئی ’ وعدہ‘ نہ دیکھ کر افسوس ہوا ۔ شاید افسوس کی وجہ یہ ہو کہ ’وعدوں‘ ۔۔۔۔ جھوٹے ہی سہی۔۔۔ کوسن کر ، دیکھ کر اور پڑھ کر ایک طرح کا سکون حاصل ہوجاتا ہے کہ کسی نے ’ وعدہ‘ تو کیاہے !! کانگریس کا ’ منشور‘ اس معنیٰ میں تو بی جے پی کے ’ منشور‘ سے اچھا ہے کہ اس میں بہت سے ایسے ’ وعدے‘ کیے گئے ہیں جن پر اگر عملدرآمد کیا گیا تو فائدہ سارے ملک کو پہنچے گا ، اور اس فائدے میں مسلمانوں کا بھی حصہ ہوگا۔ لیکن خصوصی طور پر مسلمانوں کے لئے اس ’ منشور‘ میں کوئی ’وعدہ‘ نہیں ہے، بلکہ اس سارے ’ منشور‘ میں صرف ایک جگہ لفظ ’ مسلم ‘ اور ایک جگہ لفظ’ اسلامیہ‘ کا استعمال کیا گیا ہے ۔ ایک جگہ یہ ’وعدہ‘ ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کا جو بنیادی کردار ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی ۔ بس ان دو جگہوں کے علاوہ سارے ’ منشور‘ میں نہ لفظ ’مسلم ‘ کہیں اور استعمال ہوا ہے اور نہ ہی لفظ ’ اسلامیہ‘ ۔ اس کے برعکس ’ ایل جی بی ٹی کیو آئی اے پلس‘ کمیونٹی کے لئے تین اہم ’ وعدے ‘ کئے گئے ہیں ۔ پہلے یہ جان لیں کہ یہ کیسی کمیونٹی ہے؟ آسان لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کمیونٹی میں ہر وہ مرد ، عورت یا تیسری جنس شامل ہے جو ’غیر فطری جنسی عمل‘ کو اپنا حق سمجھتی ہے ۔ کانگریس نے اپنے ’ منشور‘ میں یہ وعدہ کیا ہے اس کمیونٹی کے جو بھی ’ حقوق‘ ہیں ان کی حفاظت کی جائے گی ، ان کے ’ حقوق‘ اور ان کے ’تحفظ‘ کے لئے پارلیمنٹ میں پہلے سے پیش ،ٹرانس جینڈربل 2019، کو ہٹاکر ایک نیا بِل پیش کیا جائے گا اور تمام سرکاری محکموں اور اداروں میں بشمول فوج اور پولس اس کمیونٹی کے ’ حقوق‘ کے تئیں احساسات کو بیدار کرنے کے لئے تربیت لازمی کی جائے گی ۔ کم از کم مسلمانوں کا اتنا تو حق تھا کہ کانگریس نے جس طرح مذکورہ کمیونٹی کا نام لیا ہے ان کا نام لے کر بھی کچھ وعدے کرتی ۔
ویسے کانگریس کے ’ منشور‘ میں ’ مذہبی اقلیتو ںکے حقوق‘ کے تعلق سے ایسے کئی اہم وعدے کئے گئے ہیں جنہیں پڑھ کر یا سن کر مسلمان خود کو یہ دلاسہ دے سکتے ہیں کہ ’ یہ وعدے تو ہمارے لئے بھی ہیں ‘ لیکن بنام ’ مسلم‘ اس کے لئے کوئی ’ وعدہ‘ نہیں ہے ۔ آئین ہند کے مختلف آرٹیکلوں کے ذریعے ملازمتوں کی فراہمی میں غیر جانبداری اور یکساں مواقع کی فراہمی ، مذہبی آزادی اور تعلیمی اداروں کے قیام کی آزادی وغیرہ کی جوضمانتیں دی گئی ہیں ’منشور‘ میں ان پر سختی سے کاربندرہنے کا ’ وعدہ‘ کیا گیا ہے ۔۔۔ یہ ’ وعدہ‘ اہم ہے کیونکہ ’مودی سرکار‘ نے ان ’ضمانتوں‘کوزبردست لات ماردی ہے ۔۔۔ جیسا کہ اوپر تحریر کیا گیا ہے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بنیادی کردار کو برقرار رکھنے کا کانگریس نے ’وعدہ‘ کیا ہے ۔ یہ وہ ’ اقلیتی کردار‘ ہے جسے مودی کی یہ سرکار کسی نہ کسی طرح سے چھیننے پر کمربستہ ہے ۔ اگر یہ کردار چھن گیا تو یہ سمجھ لو کہ مسلمانوں کے ہاتھوں سے ان کے دو ایسے تعلیمی ادارے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھن گئے جہاں سے وہ معمولی فیس دے کر اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے چلے آرہے ہیں ۔ اس کا سیدھاسا مطلب یہ ہوگا کہ ان پر ، پہلے ہی سے بند اعلیٰ تعلیمی اداروں کے دروازے ایک دم بند ہوجائیں گے ۔۔۔ ایسا ہوا تو مسلمانوں میں تعلیمی فیصد ،جوپہلے ہی سے کم ہے ، مزید کم ہوجائے گا ۔ مسلمان پچھڑوں سے بھی کہیں زیادہ پچھڑجائیں گے ۔ جو مودی سرکار پہلے سے قائم ’ اقلیتی اداروں‘ کے کردار بدلنے کے لئے کوشاں ہے اس سے یہ امید رکھنا کہ وہ اقلیتوں بشمول مسلمانوں کو نئے تعلیمی ادارے کھولنے کی اجازت دے گی ، فضول ہے لہٰذا کانگریس کے ’ منشور‘ میں یہ ’ وعدہ‘ اہم ہے کہ اقلیتوں کو نئے تعلیمی ادارے کھولنے کی اجازت ملے گی ۔ اگر کانگریس کی سرکار بنتی ہے تو یہ امید تو بہرحال کی جاسکتی ہے کہ جس طرح بہار کے کشن گنج میں اے ایم یو کا سینٹر کھلا ہے اسی طرح ملک کے دوسرے اضلاع میں بھی کھل سکتا ہے ۔ سرکاری ملازمتوں میںیکساں مواقع کی فراہمی کو یقینی بنانے اور جانبداری سے کام نہ لینے کا ’وعدہ‘ بھی اہم ہے کیونکہ آج صورتحال یہ ہے کہ سرکاری اور غیر سرکاری ہر طرح کی ملازمتوں سے مسلمانوں کا صفایا ہوتا جارہا ہے ۔
کانگریس کے ’ منشور‘ میں ایک اہم ’ وعدہ‘ بلکہ اہم ترین ’ وعدہ‘ نفرتوں کی بنیاد پر کیے جانے والے جرائم (Hate Crimes )کو قانون بنا کر روکنے اور ایسے مجرموں کو سزائیں دینے کا ہے ۔ مودی سرکار میں اسے جرائم عروج پر ہیں ۔ ’ منشور‘ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ’ مآب لنچنگ‘ ’ننگا کرکے پٹائی‘ اور ’آگ میں ڈال کر جلاکر قتل کرنے ‘ جیسے جرائم روکے جائیں گے اور ایسے متاثرین کو ’ ہرجانہ‘ فراہم کیا جائے گا ۔ ایک اہم بات یہ کہی گئی ہے کہ پولس اور ضلع انتظامیہ کو ’ قصوروار‘ سمجھا جائے گا اور ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی ۔ اس میں ان سیاست دانوں کو بھی شامل کرنا چاہیئے جو ’ ماب لنچنگ‘ کرنے والوں کے پشت پناہ ہیں ۔ یہ ’وعدہ‘ بے حد اہم ہے کیونکہ مودی سرکار نے Hate Crimes کو ’ ہندوووٹوں‘ کو ’ متحد‘ کرنے کا ایک ذریعہ بنارکھا ہے ۔ اِن دنوں بھی جبکہ الیکشن کا عمل جاری ہے ’ ماب لنچنگ‘ کے واقعات بند نہیں ہوئے ہیں ۔آسام میں بزرگ شوکت علی کی بے رحمی سے پٹائی ہو یا جھارکھنڈ میں گائے کے مرنے پر دلتوں پر حملہ اور قتل ہو، کچھ رکا نہیں ہے ۔ سچ یہی ہے کہ مودی سرکار نے ایسے حملے کبھی روکنے ہی نہیں چاہے۔ کبھی کبھی کسی اسٹیج سے وزیراعظم مودی کی زبان سے ’گئورکشکھوں‘ کی سرزنش کے الفاظ نکلے ہیں، لیکن عملاً وہ اور ان کی ریاستی سرکاریں ان عناصر کی ’ پشت پناہ‘ ہی رہی ہیں ۔ لہٰذا اگر یہ ’ وعدہ‘ پورا ہوجائے ، چاہے جو بھی سیاسی پارٹی اسے پورا کرے ، تو ایک بڑا کام ہوگا ۔ یہ جہاں ملک میں امن وامان کے قیام کا باعث ہوگا وہیں اس کی وجہ سے فرقوں کے مابین جودراڑیں بڑھ رہی ہیں ان پر روک لگ جائے گی ۔ ۔۔ کانگریس کے ’ منشور‘ میں ’ وقف املاک‘ کی حفاظت کا اور ان ’ وقف املاک‘ کو جن پر قبضہ ہیں ، دوبارہ حاصل کرکے قانونی ٹرسٹیوں کے حوالے کرنے کا ’وعدہ ‘ بھی ہے ۔ یہ بھی اہم ’ وعدہ ‘ ہے ۔ کچھ ’وعدے‘ مزید اہم ہیں جو مسلمانوں سے کئے گئے ’وعدے‘ سمجھے جاسکتے ہیں کیونکہ وہ جن معاملات اور جن مسائل پر ہیں ان کی زد میں مسلمان ۔۔۔ یا پھر دلت ، آدی واسی اور پچھڑے طبقات۔۔۔ ہی زیادہ آتے ہیں ۔ مثلاً غیر قانونی حراست، شدید قسم کا ٹارچر، پولس کی جانبدارانہ کارروائیاں وغیرہ ۔ ’ منشور‘ میں یہ اہم ’وعدہ‘ ہے کہ کسی کو بغیر ٹرائل کے حراست میں رکھے جانے کا جو قانون ہے اس میں ترمیمات کی جائیں گی تاکہ آئین کی روح متاثر نہ ہو اور نہ ہی ’ عالمی حقوقِ انسانی کی مجلس‘ کے ضوابطہ کی کوئی خلاف ورزی ہو ۔ ہم دیکھتے چلے آرہے ہیں کہ ’ بے قصوروں‘ کو پکڑ پکڑ کر دس دس ، پندرہ پندرہ اور کہیں کہیں تو بیس بیس سال کے لئے سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا ہے ، ان کے مقدمے شروع نہیں ہوتے اور ان کی زندگیاں برباد ہوجاتی ہیں ۔یہ اہم ’وعدہ‘ ہے ۔ ایک ’ وعدہ‘ یہ بھی اہم ہے کہ ایک ایسا قانون بنایا جائے گا جو’ ٹارچر‘ یعنی ’ تھرڈ ڈگری‘ کو روکے گا ۔۔۔ آزادی کے بعد سے آج تک نہ جانے کتنے خواجہ یونس اور جاوید پھاوڑا پولس حراست میں ٹارچر کے سبب اپنی جانیں گنواچکے ہیں ۔ حالانکہ یہ سب کچھ ’ کانگریس راج‘ ہی میں ہوتا رہا ہے لیکن ’ جب جاگے تب سویرا‘ کے مصداق اگر یہ ’ وعدے‘ وفا کردیئے جاتے ہیں تو انہیں مثبت اقدام کے علاوہ اور کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔ ’ منشور‘ میں کانگریس نے جموں وکشمیر میں ’مذاکرات‘ کے آغاز کا ’ وعدہ‘ کیا ہے ، فوج کو خصوصی اختیارات والے قانون پر اور وادی میں فوج کی تعداد کو گھٹانے وبڑھانے پر نظر ثانی کا ’ وعدہ‘ کیا ہے ۔ یہ سب ’ وعدے‘ اہم ہیں ۔ کم از کم بی جے پی کے ’ منشور‘ میں جو ’ وعدے‘ کئے گئے ہیں ان کے مقابلے تمام اقلیتوں بشمول مسلمانوں کے لئے تو انتہائی اہم ہیں ۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ کانگریس نے اپنے ’ منشور‘ میں جو’وعدے‘ کئے ہیں بی جے پی کے ’ منشور‘ میں ان کے برعکس ’وعدے‘ کئے گئے ہیں ۔ مثلاً اگر کانگریس نے ’ بغاوت کی دفعہ 124 الف کو ختم کرنے کا ’ وعدہ‘ کیا ہے جس کا کہ اس کے بقول بڑے پیمانے پر بیجایا غلط استعمال کیا جاتا ہے ،تو بی جے پی کا یہ ’ وعدہ‘ ہے کہ اس ’ دفعہ‘ کو مزید سخت کیا جائے گا ۔ مرکزی وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ کے بقول ’بغاوت کے قانون کو اس قدر سخت بنایا جائے کہ لوگ کانپ اٹھیں گے ۔‘ ہم دیکھتے چلے آرہے ہیں کہ اس قانون کے تحت اس ملک میں حق گو صحافیوں ، حقوق انسانی کے علمبرداروں ، جمہوریت پسندوں اور مودی وبی جے پی کے مخالفین کو نشانہ بنایا گیا ہے اور بہت سے این جی اوز پر پابندیاں لگادی گئی ہیں ۔ یہ قانون کا وہ بیجا یا غلط استعمال ہے جس کو روکنے کا کانگریس نے ’ وعدہ‘ کیا ہے ۔ جہاں تک بی جے پی کے ’ منشور‘ کا تعلق ہے اس میں 75 ’وعدے‘ کئے گئے ہیں اس قول وقرار کے ساتھ کہ اگر بی جے پی کو دوبارہ اقتدار دیا گیا تو وہ ملک کی آزادی کی 75 ویں سالگرہ تک ، یعنی 2022 تک تمام 75 وعدے پورے کردے گی ۔۔۔۔ ’ منشور‘ کے اجراء پر مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے ’سچ‘ کو قدرے دور چھوڑ دیا جب انہوں نے یہ کہا کہ مودی کی سرکار ’ قوم پرستی‘ کی بنیادو ںکو مضبوط کرنے کے لئے پرعزم ہے اور ’دہشت گردی‘ کو وہ کسی بھی صورت میں برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہے ۔۔۔ آسام میں بزرگ شوکت علی کو یقیناً اس لئے پیٹا گیا تھا کہ پیٹنے والوں کی نظر میں وہ ’ قوم پرست‘ نہیں تھے اور جو ان کی پٹائی کررہے تھے وہ مودی اور راج ناتھ سنگھ کی نظروں میں ’ دہشت گرد‘ نہیں ’قوم پرست‘ تھے۔۔۔ ’دہشت گردی‘ اور ’ قوم پرستی‘ کے معنیٰ اب بدل دیئے گئے ہیں اور اگر بی جے پی جیتی تو ملک کی 75ویں سالگرہ تک نہ جانے کتنے لفظوں کے معنی بدل دے گی ۔ ’ منشور‘ میں بی جے پی نے ’شہریت بل‘ کو منظور کرانے کا ’ وعدہ‘ کیا ہے جو بی جے پی کے صدر امیت ساہ کے بقول ’غیر ملکیوں یعنی مسلمانوں‘ کو کھدیڑنے کا سب سے بڑا ہتھیار ہوگا ۔ یہ ’ وعدہ‘ ہے کہ ملک کے دوسرے حصوں میں آسام کے طرز پر این آر سی کا نفاذ کیا جائے گا یعنی دوسری ریاستوں میں بھی غیر ملکی مسلمان تلاش کئے جائیں گے ۔ جموں وکشمیر کو خصوصی اختیارات دینے والے آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35 الف کو ختم کرنے کا وعدہ کیا ہے ۔ ’طلاقِ ثلاثہ بِل‘ کو منظور کرانے کا ’ وعدہ‘ ہے اور یہ وعدہ بھی ہے کہ ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے کام میں تیزی لانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی ۔ اس ’ منشور‘ میں مودی جی! کا ’من بھاتا‘ نعرہ ’ سب کا وکاس‘ کو مزید مضبوط کرنے کا ’ وعدہ‘ کیاگیا ہے ، سب کے لئے ’انصاف‘ کی بات کی گئی ہے اور ہر شہری کی حفاظت کا ’وعدہ‘ ہے لیکن کہیں بھی ’ مسلم ‘ لفظ کا استعمال نہیں کیاگیا ہے ۔ ۔۔ ویسے یہ امید تھی بھی نہیں کہ بی جے پی کے ’ منشور‘ میں یہ لفظ ہوگا ۔۔۔ ایک بڑا ’وعدہ‘  یکساں سول کوڈ کے نفاذ کا ہے ۔ غرضیکہ اس بار بی جے پی نے اپنے ’ منشور‘ میں خود کو مکمل طور پر ’ عریاں‘ کردیا ہے ۔ 2014کے ’ منشور‘ میں ’ رام مندر‘ کی بات نہیں کی گئی تھی لیکن اس بار اس کو ایک اہم موضوع بنالیاگیا ہے ۔
اب اگر کانگریس اور بی جے پی ان دوسیاسی پارٹیوں کے ’ منشور‘ کا تجزیہ کیا جائے تو آسان لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ بی جے پی کے اکثر ’ وعدے‘ اقلیت دشمن پر مبنی ہیں لیکن کانگریس کے ’ وعدوں‘ میں ’امید‘ نظر آتی ہے۔ویسے یہ بھی صاف ظاہر ہورہا ہے کہ کانگریس لفظ ’ مسلم ‘ استعمال کرنے سے خوف کھارہی ہے ۔ یادانستہ اس لفظ کو استعمال نہیں کررہی ہے ۔ شاید یہ اس کی الیکشن اسرایٹجی ہے! شاید اسے یہ اندیشہ ہے کہ اس کے ذریعے لفظ ’ مسلم ‘ استعمال کرنے سے ’ ہندو‘ ووٹ اس کے خلاف متحد ہوجائیں گے ۔
ویسے جیسا کہ اوپر تحریر کیا جاچکا ہے سیاسی جماعتوں کے ’ منشور‘ جھوٹوں کے وعدے ہوتے ہیں پھر بھی ایک امید بندھتی ہے ، بھلے ہی موہوم امید بندھے ۔۔۔ اگر ’ منشور‘ میں کئے گئے ’ وعدہ‘ کی روشنی میں کوئی ملک کے وکاس کے لئے ،ملک میں جمہوریت کی بقا اور آئین کی مضبوطی کے لئے یا ملک کو سیکولر ڈھرے پر چلانے کے لئے ووٹ دینا چاہےگا تو وہ کانگریس کو ہی پسند کرے گا۔۔۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کانگریس الیکشن جیت سکے گی ؟ جگہ جگہ اس نے ایسے فیصلے کئے ہیں جنہیں خود اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے سے تعبیر کیا جاسکتا ہے ۔ اب سب کچھ رائے دہندگان پر منحصر ہے ، امید ہے کہ رائے دہندگان ۔۔۔ یہاں بات مسلم اور اقلیتی طبقات کے رائے دہندگان کی ہورہی ہے ۔۔۔۔ اچھا ہی فیصلہ کریں گے۔۔۔

Comments are closed.