Baseerat Online News Portal

بالا کوٹ کے نام پر ووٹ ! 

نازش ہما قاسمی
ملک میں الیکشن جاری ہے۔ پہلے مرحلے کی پولنگ ۱۱؍اپریل کو ہوچکی ہے جہاں ۲۰ ریاستوں کی ۹۱ لوک سبھا سیٹوں کے لیے ووٹنگ ہوئی۔ امیدواروں کی قسمت ای وی ایم مشین میں محفوظ کرلی گئی ہے، تمام مراحل کے الیکشن ہونے کے بعد ان کی قسمت کا فیصلہ ہوگا؛ لیکن اس سے قبل اس الیکشن میں جس طرح عوام کو لبھانے، رجھانے، ڈرانے، دھمکانے اور غدار وغیرہ ثابت کرنے کی جو سیاست کی گئی وہ انتہائی خطرناک ہے۔ گویا کہ یہ باور کرایا جارہا ہے کہ اگر دوبارہ ملک پر زعفرانی قوتیں قابض ہوئیں تو مستقبل کا ہندوستان خطرے میں رہے گا۔ لوک سبھا الیکشن کے پہلے مرحلے کی پولنگ سے دو دن قبل ۹؍اپریل کو گجرات کے وزیر اعلیٰ وجے روپانی نے انتخابی جلسے کے دوران بیان دیا تھا کہ اگر ’بالا کوٹ  اسٹرائک کا ثبوت شہید فوجی کے اہل خانہ بھی طلب کرتے ہیں وہ تو پاکستانی ہیں‘۔ اور دوسرا بیان گجرات کے سابق وزیر اعلیٰ اور موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی اسی دن مہاراشٹر کے لاتور میں انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’اپنا ووٹ بالا کوٹ پر چڑھائی کرنے والے کو دیں‘‘۔ ایئر اسٹرائک یقیناً فوج کی جانب سے کی جانے والی بڑی کارروائی تھی جس سے پڑوسی ملک ڈر اور خوف محسوس کررہا ہے؛ لیکن سوال یہ ہے کہ انتہائی جدید ٹکنالوجی کے باوجود وہاں کیے گئے حملے کے ثبوت کیوں نہیں پیش کیے جارہے ہیں؟ جبکہ پاکستان نے جو کچھ کیا وہ دنیا کے سامنے رکھ دیا۔ ہمیں پاکستان سے نہ محبت ہے اور نہ ہی اپنے ملک سے دشمنی، لیکن سوال اُٹھنا لازمی ہے۔ پاکستان نے ہمارے فوجی افسر کو گرفتار کرلیا اور اسے رہا کرکے امن کا پیغام دیا، ہمارے لیڈران نے بھی بالا کوٹ میں حملہ کیا اور تین سو دہشت گردوں کو مار گرانے کا دعویٰ کیا جس پر پورے ملک نے خوشی کا اظہار کیا اور خوشی ہونی بھی چاہیے تھی کہ ہم نے پلوامہ میں ہوئے دہشت گردانہ حملوں کا ان دہشت گردوں کو مار کر بدلہ لے لیا؛ لیکن ان دہشت گردوں کی لاشوں کو زمین نگل گئی یا آسمان؟ یہ پتہ نہیں۔ اس سے حکومت کے دعوؤں پر تذبذب ہونے لگا کہ واقعی اس نے کوئی ایسا کارنامہ انجام دیا ہے بھی یا صرف الیکشن کے مد نظر ناراض ووٹروں کو لبھانے کے لیے کہا جارہا ہو کہ ہمیں پاکستان سے خطرہ ہے اور ہم نے پاکستان پر حملہ کرکے ان کے دہشت گردوں کو مار گرایا۔ حملہ یقینا ہوا اور ہمارے جان باز فوجی بالا کوٹ تک گئے بھی؛ لیکن اس کے آگے کی کارروائی راوی بتانے سے انکاری ہے۔ اس وقت تو ہمیں یہی سمجھ میں آیا کہ ہم نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی اور ہمارے ملک کے رہنما نے انتقام لے کر سوا سو کروڑ آبادی کا تحفظ کیا اور یہ یقین دلایا کہ ہم پر جو آنکھ اُٹھا کر دیکھے گا ہم اسے چھوڑیں گے نہیں، جو ہمارے چالیس مارے گا ہم ان کے تین سو مار گرائیں گے۔ ہم بھی بہت خوش ہوئے اور خوشی فطری تھی کہ ہمارے شہید جوانوں کا بدلہ لے لیاگیا؛ لیکن جب اس بدلے کی تصویریں، کارروائی کی ویڈیو وغیرہ طلب کی جانے لگی تو اقتدار پر براجمان پارٹی نے حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ اس سے منسلک کردیا کہ جسے بھی بالا کوٹ حملہ پر شک ہے وہ پاکستانی ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے جیسا وہ لیڈران سوچ رہے ہیں، انہوں نے صرف اپنے ذاتی مفاد اور حکومت پر دیر تر براجمان رہنے کے لیے فوجیوں کا سودا کیا اور شہید فوجیوں کی لاشوں اور ان کے اہل خانہ کی توہین کی۔ الیکشن میں اس کارروائی کو مدعا بنا کر عوام سے ووٹ دینے کی اپیل کی گئی۔ نوٹ بندی، جی ایس ٹی، ماب لنچنگ، خواتین کی عصمت دری، لوٹ مار، قتل و غارت گری، دلتوں اور اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک کرنے والی برہمن واد پارٹی آر ایس ایس کے اشاروں پر ناچتے ہوئے تمام ناکامیوں کو پس پشت ڈال کر فوجیوں کی لاشوں کا سودا کررہی ہے۔ ان کے پاس نوٹ بندی جیسے عظیم عمل پر ووٹ مانگنے کی ہمت نہیں، جی ایس ٹی پر ہمت نہیں، سب کا ساتھ سب کا وکاس پر ووٹ مانگنے کی جرات نہیں، اس لیے عوام سے دیش بھکتی اور غداری پر ووٹ طلب کررہی ہے۔ عوام کو چاہیے کہ وہ ملک کی کمان ان ہاتھوں میں دیں جو واقعی دشمن ملک کے ہوش اڑادے، انہیں مجبور کردے کہ ہمارے ہندوستان پر گندی نگاہ ڈالی تو آنکھ نوچ لیں گے، ان ہاتھوں میں اقتدار نہ سونپیں جو صرف نفرت کی بات کرتے ہیں، جو ملک کے رہنے والے باشندوں کو ہی آپس میں لڑاتے ہیں، جو دشمن ملک کو چھپن انچ کا سینہ دکھانے کی بات تو کرتے ہیں؛ لیکن اچانک جاکر بریانی بھی اڑا لیتے ہیں۔ دونوں سابق وزرائے اعلیٰ گجرات کے بیانات کو دیکھیں اگر اسی طرح کا بیان راہل گاندھی، تیجسوی یادو، اسدالدین اویسی یا مولانا بدرالدین اجمل دیتے، تو کیا ملک کا ماحول ایسا ہی رہتا۔ نہیں ہرگز نہیں ایسا نہیں رہتا پوری میڈیا لابی ان کو غدار وطن، ننگ وطن قرار دے کر پاکستان بھیج چکی ہوتی؛ لیکن ان کے بیان پر کوئی ہنگامہ نہیں برپا ہوا، کیوں کہ حب الوطنی کا سرٹفیکیٹ ان ہی کے پاس ہے یہ جسے چاہے پاکستان بھیجیں، جسے چاہیں ہندوستان میں رہنے دیں، یہ چاہیں تو فوج کو کٹہرے میں کھڑا کردیں، یہ چاہے تو فوج میں کھانے کی شکایت کرنے والے کو برطرف کردیں، یہ چاہیں تو ظلم پر آواز اُٹھانے والوں کا گلا گھونٹ کر ہمیشہ کے لیے خاموش کردیں، ان کی حکومت ہے اور ان کا زمانہ ہے۔ اسدالدین اویسی نے پارلیمنٹ میں راج ناتھ سنگھ کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ زمانہ کسی کا یکساں نہیں رہتا آج آپ جہاں بیٹھے ہیں کل کوئی اور ہوگا۔ ملک میں جاری الیکشن میں عوام کو چاہیے کہ وہ اقتدار ایسے ہاتھوں میں سونپیں جو ملک کو نفرت سے بچائے، آئین کی پاسداری کرے، اور ملک کو جنگ جیسی صورت حال میں نہ دھکیلے جنگ خود مسئلہ  ہے وہ کیا مسئلے حل کرے گی۔

Comments are closed.