ایسی صورت میں ہم کیا کریں؟

ایسی صورت میں ہم کیا کریں ؟

مولانا محمد قمرالزماں ندوی

مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

 

ہم مسلمان یہاں ایک جمہوری ملک میں ہیں، جمہوری حکومت میں ووٹ کی بڑی اہمیت ہوتی ہے ۔ ووٹ ایک ہتھیار ہے جس سے جمہوری طریقہ پر انقلاب اور تبدیلی لائی جاتی ہے ،ظالم اور ناپسندیدہ حکومت کو اقتدار سے بے دخل ووٹ کے ذریعہ ہی کیا جاتا ہے اور اچھے اور انصاف پسند لوگوں کو حکومت اسی کے ذریعہ سونپی جاتی ہے ۔اس لئے اس کا استعمال ضرور کرنا چاہیے ،سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے ۔عقل و شعور کا استعمال کرنا چاہیے ۔ ایسے وقت میں حالات کا صحیح تجزیہ کرنا چاہیے ۔ کسی بھی پارٹی کے جیتنے اور ہارنے اور انتخاب کے نتائج پر غور کرنا چاہیے ۔ اس بارے میں ماضی کے تجربات واقعات اور حالات کو سامنے رکھنا چاہیے مستقبل کے اندیشوں خدشوں اور توقعات کے درمیان موازنہ اور محاکمہ کرنا چاہیے ۔ آج ہندوستان پر بعض ایسے ملکوں کی نظر ہے جو چاہتی ہے اور جن کے سیاسی عزائم کچھ اس طرح ہیں کہ وہ ممالک خاص طور پر (اسرائیل اور امریکہ) چاہتے ہیں کہ یہاں ایسی پارٹیاں اقتدار میں آئیں اور حکومت ان کی بنے جن کا ریمورٹ کنٹرول ان کے ہاتھ میں ہو ۔ وہ ان کی پالیسیوں اور مرضی و چاہت کے مطابق فیصلے کریں ۔ دفاع ۔ خارجہ پالیسی ۔ ایکونمیکس (اقتصادیات ) اور دیگر تمام شعبوں میں ان کی پالیسی کے مطابق اپنے قوانین اور ضابطے نافذ کریں ۔

اس لئے ایسی صورت حال میں مسلمانوں کے لئے جمہوری ملک میں حق رائے دہی کا استعمال واجب ہی نہیں بلکہ فرض عین ہوجاتا ہے ۔ ہر مسلمان کا یہ فرض ہوجاتا ہے کہ جس قدر ممکن ہو وہ برائی، ظلم، تشدد، اتیاچار،اور ناانصافی کو روکنے کے لئے اس ہتھیار کا استعمال کریں اور اس میں کسی طرح کی سستی اور تساہلی نہ کریں ۔ دعوت و تبلیغ کے لیے نکلنے میں اس کا خیال رکھیں کہ وہ ان تاریخوں میں نہ جائیں جن میں ان کو حق رائے دہی کا استعمال کرنا ہے ۔ اس وقت ملک کے حالات انتہائی حساس ہیں ملک نازک دور سے گزر رہا ہے اور ایک دو راہے پر ہے ۔ اگر مسلمانوں نے عقل و فہم اور شعور و ادراک سے کام نہیں لیا تو سمجھ لیجئے کہ

لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی

 

کا نتیجہ اور انجام سامنے آئے گا ۔

 

اگر مسلمان جذبات کے رو میں بہہ گئے، ہوش اور جوش کا فرق نہیں سمجھا اور اپنے فیصلے میں چوک کر گئے اور اپنے اختیار کو استعمال کرنے میں غلطی ہوگئی تو شاعر کے بقول نقشہ یہ ہوگا اور صورت حال یہ بنے گی ۔

لمحہ گزر گیا تھا تو سمجھئے صدی گئی

 

اسلامی نقطہ نظر سے ووٹ ایک امانت (اور یہ شہادت اور وکالت کے درجہ میں بھی جس کی تفصیلات ہیں ) اور اس کا درست اور صحیح استعمال ہماری سماجی قومی ملی اور مذھبی فریضہ ہے ۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم کس پارٹی اور جماعت کو ووٹ کریں ؟ خالص انصاف پسند اور سو فیصد جمہوریت نواز پارٹیوں کا فقدان ہے ایک طرف وہ پارٹی ہے جس کا ایجنڈا بالکل واضح ہے جس کی بنیاد ہی مسلمانوں سے نفرت پر ہے اس نے یکساں سول کوڈ نافذ کرنے اور ہمارے عائلی قانون کو ختم کرنے کو اپنے منشور میں شامل کیا ہے ۔ وہ چاہتی ہے کہ یہاں جمہوری حکومت ختم ہوجائے اور اقتدار اکثریتی فرقہ کو مل جائے ۔ دوسری طرف ایک اور پارٹی ہے جس نے اس ملک پر سب سے زیادہ حکومت کی اور آزادی کی لڑائی میں اس کا رول بہت اہم رہا لیکن افسوس کہ اس پارٹی میں بھی فرقہ پرستی کی جڑیں بہت گہری ہیں اسے بہت مشکل سے سیکولر پارٹی کہنا پڑتا ہے ۔

ہمارے ملک میں کثیر جماعتی جمہوریت کا ںظام رکھا گیا ہے ۔ یہ طریقہ اور سسٹم زیادہ بہتر سمجھا جاتا ہے لیکن اس وقت یہ ملک دو جماعتی طرز حکمرانی کی طرف جا رہا ہے ۔ یہاں کمنسٹ پارٹیوں کے زوال سے تیسرے محاذ کا وجود کمزور ہے بلکہ اب اس کا اٹھ پانا مشکل نظر آرہا ہے ۔ اس لئے ان حالات میں مسلمانوں کو نہایت فہم و بصیرت اور حکمت و دانائی سے کام لینا چاہئے ۔ امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ علم و حکمت اور فہم و فراست کی بات یہ نہیں کہ آدمی شر کے مقابلے میں خیر کو اختیار کرلے۔ بلکہ عقل و دانائی یہ ہے کہ جہاں دو برائیوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے پر انسان مجبور ہو وہاں کمتر اور ادنی برائ کا انتخاب کرکے بڑے نقصان سے اپنے آپ کو بچا لے ۔

شریعت اس نازک موقع پر بھی ہماری بھر پور رہنمائ کرتی ہے ۔ ماہرین شریعت نے قرآن و حدیث کی روشنی میں مختلف قواعد مقرر کئے ہیں جو ترجیحات کے سلسلہ میں امت کی خوب خوب رہنمائ کرتے ہیں ۔ چند کا تذکرہ ذیل میں کیا جارہا ہے ۔

یتحمل الضرر الخاص لدفع الضرر العام۔

عمومی اور اجتماعی نقصان کو دور کرنے کے لئے شخصی اور انفرادی نقصان کو گوارا کیا جائے ۔

اذا تعارض المفسدتنان روعی اعظمھا ضررا بارتکاب اخفھما

 

جب دو برائیوں کا ٹکراؤ ہو تو کمتر برائ کا ارتکاب کرکے بڑی برائی کو دور کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔

درء المفاسد اولی من جلب المنافع

 

مفاسد کو دور کرنا مصلحتوں کے حاصل کرنے سے بہتر ہے ۔

ان اصول و قواعد کی روشنی میں امت کے دانش مند طبقہ امت کی صحیح رہنمائی کرسکتے ہیں اور کرنی چاہیے کہ اس موجودہ انتخاب میں ہمیں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے ۔ (استاد محترم مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی کے مضامین سے مستفاد)

نوٹ قارئین سے درخواست ہے کہ اس پیغام کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچائیں ۔

Comments are closed.