پردہ اور عورت

گلفشا وکیل
فاضلہ جامعة البنات الاسلامیہ
میری پیاری ماؤں اور بہنو!
اسلام نے عورتوں کو پردہ کے بارے میں بڑی تاکید کی ہے۔اور قرآن مقدس اور احادیث میں خصوصیت سے اس کے ذکر کا اہتمام کیا ہے،نیز مرد وزن کو ستر پوشی کے ساتھ شرم وحیا کو بھی مقدم رکھنے کا حکم دیا ہے، چنانچہ کسی بھی مرد کے لیے کسی خاتون پر دوسری نگاہ ڈالنا جائز نہیں۔
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بہت ہی زیادہ باحیا تھے اور دوسروں کو بھی شرم و حیا کا درس دیا ہے،اس باب میں احادیث کی لمبی فہرست ہے۔
آپﷺکے بارے میں حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ جناب نبی کریم علیہ السلام "پردہ والی کنواری لڑکیوں سے بھی زیادہ باحیا تھےجب کوئی بات ایسی دیکھتے جو آپؐ کو ناگوار گزرتی تو ہم لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے سے معلوم ہو جاتا۔”
ہماری بعض بہنیں یہ کہتی ہیں کہ پردہ دل کا نام ہے۔
یہ بات جہالت اور غلط فہمی پرمبنی ہے کہ "پردہ دل کا نام ہے” اصل پردہ آنکھ کا ہے کیونکہ تمام برائیوں و فحاشیوں کی جڑ یہ آنکھ ہے برائی کا اصل دروازہ یہیں سے کھلتا ہے اگر ہم نے آنکھوں کے پردہ کو اپنے لیے لازم کرلیا تو دل کا پردہ بھی آسان ہوجائےگاـ کتاب اللہ کی آیات اور سنتِ رسول اﷲﷺ کے مختلف ابواب میں ترغیب عفت اور تربیت نظر نہایت موثر اور بلیغ انداز میں موجود ہے۔کہیں عفت و عصمت پر بہترین اجر و انعام کا ذکر ہے تو کہیں فحش کاری پر سخت ترین وعیدیں آئی ہیں۔
عورت کی نگاہ کے متعلق رسول اللہﷺ نے فرمایا؛
"آنکھیں زنا کرتی ہیں اور ان کا زنا دیکھنا ہے، دل خواہش اور تمنا کرتا ہے اور شرم گاہ اس کی تصدیق کرتی ہے یا تکذیب۔”
مطلب یہ کہ آنکھوں کے راستے سے جو خوب صورت تصویر مرد کے دل میں اترتی ہے دل اس کیلئے مچلنے لگتا ہے، دماغ اس کیلئے سازشیں کرتا ہے، آخر میں شرم گاہ کی باری آتی ہے۔ اگر وہ اس میں کامیابی پالے تو جو زنا اب تک مجازی تھا، وہ حقیقی روپ دھار لیتا ہے۔
عورتوں کیلئے حکم دیا گیا؛
"آپ مسلمان عورتوں سے کہہ دیں کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمتوں کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں مگر وہ جو خود بہ خود ظاہر ہوجائے اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رکھیں اور اپنا بناؤ سنگار ان لوگوں کے سوا کسی پر ظاہرنہ کریں، شوہر، باپ، شوہروں کے باپ، اپنے بیٹے، شوہروں کے بیٹے، بھائی، بھائیوں کے بیٹے، بہنوں کے بیٹے، اپنے میل جول کی عورتیں، اپنے لونڈی غلام، وہ ماتحت مرد جو شہوت نہیں رکھتے اور وہ بچے جو ابھی عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے واقف نہیں ، وہ اپنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں تاکہ اس زینت کا لوگوں کو پتا چلے جو وہ چھپا رکھی ہیں، اے مومنو! تم سب مل کر اﷲ تعالیٰ کی جناب میں توبہ کرو، توقع ہے کہ تم فلاح پاؤگے۔”
(النور31)
آزادی کے نام پر خواتین کا استحصال:
اس روئے زمین پر عورتوں کا وجود ایک پھول کی طرح ہے جس کی خوشبو سے گھر معطر ہوتا ہے لیکن یہی پھول اگر گھر کی دہلیز سے باہر نکل جائے تو اپنی عطر ریزی کھونے کے ساتھ ساتھ اپنی فطری نسوانیت، جاذبیت اور اصلیت کھودیتی ہے تو پھر اس کی حقیقت مصنوعی پھولوں سے زیادہ نہیں ہوتی۔ عورتوں کی تشبیہ پھول سے ان کے نازک طبع، نازک اندام اوراور خوشبو میں دی گئی اور کہا گیا ہے کہ اس ہستی کی نازکی کو اپنی جگہ سے اگر ہٹا دو گے تو کمہلا جائے گی یا کچل دی جائے گی۔
اور یہ بات طے شدہ ہیکہ جب بھی عورتوں کے حقوق کی بات کی جاتی ہے تو لازماً(ہمارے نام کا سہارا لیکر) اسلام کے معاشرتی نظام پر اشکال کیا جاتا ہے ۔ یہ کہاجاتا ہے کہ مذہب اسلام نے عورتوں پر بہت ظلم کیا ہے۔اس کو حقوق سے محروم رکھا ہے اور اسے قیدی بناکر رکھ دیا ہے؛ جبکہ دوسری طرف آزادیِ نسواں کے علمبرداروں کا حال یہ ہے کہ وہ عورتوں سے دفتروں اورکارخانوں میں کام بھی کروا رہے ہیں اور دوسری طرف انھیں سے بچے بھی پیدا کروا رہے ہیں ،بچوں کی پرورش بھی عورتوں کے ذریعے ہی کروا رہے ہیں،آج کے دور میں جو بہت زیادہ ترقی یافتہ اور روشن خیال اور آزادیِ نسواں پر یقین رکھنے والے لوگ ہیں وہ اپنی عورتوں کو اگر بہت زیادہ با اختیار بنادیتے ہیں تو یہ کرتے ہیں کہ بچوں کی پرورش کے لیے کوئی دوسری عورت رکھ لیتے ہیں اور پھر اس کے ساتھ طرح طرح کی زیادتی کی جاتی ہے ،اب کوئی بتائے کہ وہ دوسری عورت کیا عورت نہیں ہے ؟؟؟
جہاں تک اسلام کی بات ہے تو اس سلسلے بس اس حقیقت کوجان لینا ہی کافی ہے کہ عورتوں کے حقوق و اختیارات کی بات کرنے والے لوگ ،ممالک اور ادارے تو ابھی سو ڈیڑھ سو سال پہلے سامنے آئے ہیں؛ جب کہ اسلام نے ساڑھے چودہ سو سال پہلے ہی عورتوں کو ہر قسم کے مظالم سے اور زیادتیوں سے آزادی دلائی تھی ،سب سے پہلے اسلام نے یہ تصور عام کیا کہ بحیثیت انسان کے مردو و عورت دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے اور دونوں اشرف المخلوقات ہیں ، ورنہ اس سے پہلے کے مذاہب اور تہذیبیں تو عورت کو انسان بھی ماننے کے لیے تیار نہیں تھے، چہ جائے کہ انھیں حقوق دیتے۔ جو حقوق عورتوں کو اسلام نے دئے ہیں اور جس فیاضی سے دئے ہیں، وہ دنیا کی کوئی بھی تہذیب یا ادارہ آج تک نہ دے سکا ۔ اسلام نے عورت کو ہر حیثیت سے ایک منفرد مقام دیا ہے اور باقاعدہ اس کا تعین کیا ہے۔اگر بیوی ہے تو گھر کی ملکہ ہے ، بیٹی ہے تو والدین کے لیے رحمت ونعمت ہے ، بہن ہے تو اس کی پرورش کرنے والے بھائی کے لیے جنت کی بشارت ہے اور اگر ماں ہے تو اس کے قدموں کے نیچے جنت ہے ، عورت کے حوالے سے اسلام کا یہ مجموعی تصور ہے ،کیا اتنا پاکیزہ اور جامع تصور کوئی بھی تہذیب پیش کر سکتی ہے؟؟
اس کے علاوہ اسلام نے عورتوں کےتعلیمی ،معاشرتی و معاشی حقوق و اختیارات کو بھی واضح طورپر بیان کیا ہے۔ما ں کی گود کو بچے کی پہلی تعلیم گاہ قرار دیا گیا، جس سے معلوم ہوا کہ عورت کا تعلیم یافتہ ہونا اور مہذب ہونا کتنا ضروری ہے۔انھیں حلال روزی کمانے اور اپنے مال میں اپنی مرضی کے مطابق تصرف کرنے کا پورا اختیار ہے، کسی کو اجازت نہیں کہ اس کے مال میں تصرف کرے۔ شادی بیاہ کے معاملے میں اگر چہ ولی کولڑکا تلاش کرنے اور پسند کرنے کا اختیار ہے؛ لیکن لڑکی کی مرضی اور خواہش کے بغیر کہیں بھی اس کی شادی نہیں کی جاسکتی،اس کی رضامندی ضروری ہے۔
اسلام نے اعتدال کو ملحوظ رکھتے ہوئے عورت کی فطری حالت اور ساخت کو بھی مد نظر رکھا ہے اور اسی وجہ سے کچھ معاملوں میں مردوں کے احکام الگ ہیں؛ جب کہ عورتوں کے الگ ہیں اور اس میں کسی اچنبھے کی بات بھی نہیں ہے ؛ کیوں کہ ہم سب دیکھتے اور جانتے ہیں کہ چاہے انسان کا معاملہ ہو یا حیوان کا یا کسی بھی چیز کا جتنی اس کی صلاحیت اور وسعت ہوتی ہے اسی کے مطابق اس پر ذمے داری عائد کی جاتی ہے یا اسی کے مطابق اس کو اختیارات دئے جاتے ہیں۔ اسلام بھی اپنے ماننے والوں کی زندگی بھر کے تمام تر مرحلوں میں مکمل رہنمائی کرتا ہے اور عورتوں اور مردوں دونوں کے لیے حقوق اور اختیارات طے کرتا ہے، اگر دونوں اپنے اپنے دائرے میں رہ کر انھیں کریں تو انسانی معاشرہ ہر طرح سے خوشحال اور مامون بن سکتا ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کے دور میں خود مسلمانوں کا بھی ایک بڑا طبقہ دین اسلام کی تعلیمات و ہدایات سے دور ہوچکا ہے، جس کے نتیجے میں ہمارے معاشرے میں بے شمار خرابیاں جنم لے چکی ہیں اور بہت سے بدباطن لوگ مسلمانوں کی عملی خامیوں کو اسلام سے جوڑ کر دیکھتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ مسلمان اپنے معاشرے میں مردو و زن کے حقوق و اختیارات کے حوالے سے اسلام کی حقیقی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں ،تبھی ہم کو ہمارے جو حقوق ہیں وہ ملیں گے اور اگر ہم اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا نہ ہوئیں تو میری پیاری بہنوں یاد رکھو کہ یہ دنیا دراصل آپ کی آزادی کے لیے نہیں لڑ رہی ہے بلکہ آپ کو اپنی ہوس کا شکار بنانے کے لیے عورتوں کی آزادی کا جھوٹا نعرہ لگارہہ ہے تاکہ عورتوں تک رسائی ممکن ہوجائے۔
اللہ رب العزت ہم سب مسلم خواتین کو دین اسلام کے درست اور صحیح راستے پر عمل کرنے کی توفیق دے!
اب ہم کو اس دنیا کے اس جھوٹے اور مکاری والے نعرہ کو سمجھ کر اس کو ناکام بنانے کی ضرورت ہے ہم کو اسلام کی تعلیمات پر عمل کرکے یہ ثابت کرنا ہیکہ ہم کو قرآن و حدیث میں اللہ رب العزت کا بھیجا ہوا قانون اور اس کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہو مذہب(مذہب اسلام) پسند ہےاور ہم بخوشی اس پر عمل کریں گی ہم کو کسی کے جھوٹے وعدوں کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔
Comments are closed.