ترکی میں انگریزی زبان

 

محمد انوار خان قاسمی بستوی

انگریزی زبان نے عالمی طور پر انیسویں اور بیسویں صدی میں معاشی، اقتصادی، سیاسی، سماجی، تعلیمی، صنعتی اور مکینکی میدانوں میں دور رس اثرات چھوڑے ہیں۔ خاص طور پر بیسویں صدی کے اخیر میں یہ زبان دنیا میں سب سے اہم اور کثیر الشیوع مواصلاتی زبان(Lingua Franca) بن گئی ہے۔ جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں امریکہ اور برطانیہ کی روز افزوں ترقیات نے دنیا میں اس زبان کو عوامی سطح پر مقبول ومروج بنانے میں غیر معمولی رول ادا کیا ہے۔

دنیا کے وہ ممالک یا علاقے جہاں انگریزی زبان نے بے پناہ مقبولیت حاصل کی ہے اور اس زبان کے سیکھنے والے کو تعظیم وتکریم کی نظر سے دیکھا جاتا ہے وہ ہے بر صغیر۔ ہندوستان، پاکستان، اور بنگلہ دیش وغیرہ بر صغیر کے ممالک نے اس زبان کو اپنی عظمت کا رمز تصور کر لیا ہے۔ چنانچہ انگریزی سیکھنا یہاں قابل فخر گردانا جاتا ہے؛ انگریزی کے ماہر کو یہاں کے سماج میں عظمت واحترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اسی طرح سے عصری اسکولوں میں انگریزی زبان میں تدریس کو امتیازی فیچر یا وصف گردانا جاتا ہے۔ کسی بھی ادارے، تنظیم یا کمپنی میں نوکری حاصل کرنے کے لیے انگریزی میں کمیونیکیشن اور مواصلات کی مہارت کو تقریبا ناگزیر سمجھا جاتا ہے جس کے بغیر کسی اعلی منصب یا رتبے کا حصول تقریبا غیر متصور سمجھا جاتا ہے۔

اسی طرح سے آج بر صغیر کے طول وعرض میں ایسے اسکولوں کی تعداد تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے جن کے یہاں تدریس کا میڈیم انگریزی زبان ہو۔ جن اسکولوں میں تدریس کا میڈیم انگریزی نہ ہو، تو یہ اس اسکول کے پسماندگی، تخلف اور عصرِ حاضر کے تقاضوں سے بے ربطگی وتہی دامنی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ والدین اپنے بچوں کے لیے ایسے اسکولوں کا انتخاب کرتے ہیں جہاں ان کا بچہ انگریزی زبان میں بہتر سے بہتر کارکردگی کا امکان رکھتا ہو۔ خلاصہ یہ ہے کہ ہمارے سماج میں انگریزی کو تعلیم کے لیے جزء لاینفک اور ترقی کے لیے اہم زینہ سمجھا جاتا ہے۔

جہاں یہ ایک حقیقت ہے کہ ترقی پذیر ممالک(Developing countries) بطور خاص بر صغیر میں انگریزی زبان کو اس قدر مرعوبیت ومبہوریت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، وہیں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ ممالک (Developed countries) میں انگریزی زبان کو کوئی اہمیت حاصل نہیں ہے۔ چنانچہ دنیا کے دیگر ممالک مثلا جرمنی، فرانس، روس، اسرائیل، جاپان اور چین وغیرہ میں انگریزی زبان کو کوئی امتیازی مقام حاصل نہیں ہے۔ ان ممالک میں انگریزی میں مہارت کو قابل فخر بھی نہیں گردانا جاتا۔

سرزمین ترکی بھی انھیں ہوشمند اور باغیرت ممالک میں ہے جو انگریزی زبان کی بڑھتی ہوئی چیرہ دستی کے سامنے سر نگوں نہ ہوا۔ ترکوں کو اپنی زبان اور تہذیب پر فخر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں بھی انگریزی زبان امتیازی مقام حاصل کرنے میں پورے طور پر ناکام رہی ہے۔ استنبول انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے ہماری منزل تقریبا ایک گھنٹے کے ڈرائیونگ ڈسٹینس پر شہر استنبول کے وسط میں واقع ہے۔ پورے راستے میں کہیں بھی کوئی بورڈ، سائن بورڈ، سرکاری یا غیر سرکاری اعلان انگریزی میں نظر نہیں آیا۔ اس کے علاوہ کئی بار شہر کے دیگر اکناف واطراف میں جانے کا اتفاق ہوا؛ لیکن ہر جگہ انگریزی ندارد، ہر جگہ ترکی ہی ترکی۔

ترکی میں آج احقر کا پانچواں دن ہے۔ درجنوں اہل علم سے روزانہ ملاقاتیں ہو رہی ہیں؛ لیکن ایک عجیب مشترک چیز جو تقریبا تمام ہی حضرات میں نظر آئی وہ یہ ہے کہ اکثر لوگ انگریزی بولنے سے قاصر ہیں، اور اگر کوئی کچھ جانتا بھی ہے، تو وہ نہایت محدود اور بہت ہی معمولی حد تک، جب کہ اکثر حضرات کافی تعلیم یافتہ تھے۔ اب تک صرف ایک ترکی النسل ایسے ملے جو اچھی انگریزی بولنے پر قادر تھے۔ یہاں تمام یونیورسٹیوں اور کالجوں میں تدریس کے لیے ترکی زبان ہی کو بطور میڈیم استعمال کیا جاتا ہے۔

Comments are closed.