Baseerat Online News Portal

بلاسٹ کی ملزمہ پارلیمنٹ کی امیدوار!

نازش ہما قاسمی
مالیگاوں بم دھماکے کی ملزمہ سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر امید سے ہیں! انہوں نے بی جے پی سے ٹکٹ ملنے کے بعد انتہائی پر اعتماد لہجے میں کہا کہ ’الیکشن لڑوں گی اور جیتوں گی‘ وہ بھوپال سے الیکشن لڑیں گی، ان کے مقابل مدھیہ پردیش کے سابق وزیر اعلی دگ وجے سنگھ کانگریس سے امیدوار ہیں۔ ویسے سادھوی کو ٹکٹ ملنے سے مجھے کوئی حیرانی اور تعجب نہیں ہوا۔ سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر جیسی شخصیتیں بی جے پی میں شامل نہیں ہوں گی تو بھلا اور کس پارٹی میں شامل ہوں گی۔ اب بھی بی جے پی میں ایسے افراد موجود ہیں جن پر قتل کا مقدمہ درج ہے؛ لیکن وہ اعلی منصب پر فائز ہوکر محترم اور عزیز ہیں۔ اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے خود کو ان الزامات سے پوتر بھی کررہے ہیں، سادھوی بھی الیکشن لڑے گی اور جیت کر پارلیمنٹ جائے گی تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے۔ ہاں افسوس انہیں ہوگا جو سمجھتے ہیں کہ ملک میں سیکولرازم نام کی کوئی چیز ہے، انہیں یہ علم ہوچکا ہے کہ سیکولرازم بس ایک کھوکھلا نعرہ اور کھلا دھوکہ ہے۔ اب ہندوستان میں اکثریتی فرقے کا کوئی بھی لیڈر حقیقی معنوں میں سیکولر نہیں، بس ووٹوں کی خاطر چہرے پر ماسک لگائے ہوئے ہیں، موقع آتے ہی وہ اپنی آر ایس ایس والی چڈی دکھادیتے ہیں۔۔۔۔ مسلمان جن لوگوں کو برسوں سیکولر سمجھتے ہیں وہ عین الیکشن کے وقت بی جے پی میں شامل ہوکر اپنے حقیقی چہرے کو کھول کر یہ واضح پیغام دیتے ہیں کہ مسلمانوں جیسی بے وقوف و احمق ہندوستان کی کوئی قوم نہیں۔ مجھے تو واقعی سادھوی پرگیہ سنگھ کے بی جے پی میں شامل ہونے پر افسوس نہیں ہوا اور کیوں ہو جب یہ پتہ ہے کہ اب کی ’بار آتنکی سرکار‘ کا نعرہ ہے تو آتنک واد کے ملزم ہی پارلیمنٹ پہنچائے جائیں گے۔ سادھوی بم بلاسٹ کی ملزمہ ہے یہ پارلیمنٹ نہیں جائیں گی تو اور کون جائے گا۔۔۔ ویسے اتنا افسوس ضرور ہے کہ مرد آہن آنجہانی شہید ہیمنت کرکرے کی روح ضرور تڑپ اٹھی ہوگی یہ سن کر کہ جسے میں نے انتہائی پختہ ثبوت کی بنا پر ملزمہ قرار دیا تھا، جس کی گرفتاری کے بعد سے بھگوا دہشت گردی کا خونخوار چہرہ پورے ملک میں نظر آیا تھا، اسے کورٹ سے ضمانت مل گئی اور وہ پر امید ہوکر انتہائی جوش وجذبے کے ساتھ الیکشن لڑ رہی ہے اور خود اعتمادی سے کہہ رہی ہے کہ میں جیتوں گی۔۔۔۔۔ شہید ہیمنت کرکرے سازش کے تحت ان ملزمین کو گرفتار کرانے کے بعد شہادت نوش فرماگئے تھے، جس کا باب انتہائی خطرناک ہے۔ اس دن ممبئی خون میں نہارہی تھی جہاں ایک طرف کچھ پاکستانی دہشت گرد خون وخرابہ کررہے تھے، بلاسٹ و دھماکہ کر کے بے قصور ہندوستانیوں کی جان لے رہے تھے، وہیں دوسری طرف گھات لگائے فرقہ پرست، شرپسند عناصر جنہیں یہ خوف تھا کہ اگر ہیمنت کرکرے کچھ دن اور زندہ رہے تو ہماری بھی گردن ناپی جائے گی انہیں شہادت کے مرتبے پر فائز کرکے ایک ایماندار اور مخلص پولس افسر کو ہم سے دور بھیج دیا۔ ہاں افسوس انہیں بھی ہورہا ہوگا جن کے اہل خانہ سادھوی کی بائک بلاسٹ ہونے کی وجہ سے مالیگاوں میں لقمہ اجل بن گئے تھے اور جو اب بھی انصاف کے منتظر ہیں؛ لیکن انصاف کی دیوی شاید ظالموں کے خونی پنجہ میں جکڑی ہوئی ہے؛ اس لیے مظلوم ہوتے ہوئے بھی متاثرین ظالم ہیں اور انصاف سے دور ہیں۔۔۔عین ممکن ہے کہ سادھوی پرگیہ سنگھ الیکشن جیت کر پارلیمنٹ پہنچ جائے اور ان فرقہ پرستوں کے خوابوں کی تکمیل بھی ہوجائے جنہوں نے خواب دیکھا تھا کہ ہم ۲۰۱۹ میں اس ملک کو ہندوراشٹر بنادیں گے اور جب یہ جیت جائیں گی تو یہ لازم ہے کہ ہندوراشٹر بن جائے گا جب پارلیمنٹ میں قتل، عصمت دری، ڈاکہ زنی، سینکڑوں اقلیتوں کے خونی اکثریت میں ہوں گے تو اسے ہندوراشٹر نہیں کہیں گے تو اور کیا کہیں گے ۔ ۲۰۱۴ کے الیکشن میں فرقہ پرستوں کو صرف لوک سبھا میں اکثریت تھی اس بار ممکن ہے کہ راجیہ سبھا میں بھی غالب اکثریت مل جائے اب اگر ان جیسی کٹر ہندوشبیہ والی بلاسٹ کی ملزمہ ایوان میں پہنچنے کی کوشش کریں گی اور ملک کے اکثریتی فرقوں میں جوش و ولولہ امڈے گا تو لازم ہے کہ ہندوستان نام نہاد سیکولرازم کی زنجیر سے آزاد ہوکر اپنے ہندو اسٹیٹ ہونے کا اعلان کردے اور اگر یہ اعلان ہوا تو بقول مولانا سید ارشد مدنی ہندوستان ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گا۔۔۔ ظاہر ہے جب ہندو اسٹیٹ ہوگا تو اقلیتیں غیر محفوظ ہوجائیں گی، ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جانے کا سلسلہ دراز ہوجائے گا اور انہیں ووٹوں سے محروم کرکے انتہائی پستی میں ڈھکیل دیا جائے گا جہاں وہ برما سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہوکر یا تو ہجرت کریں گے یا پھر اپنے حقوق اور اپنے ملک سے محبت کی خاطر اٹھ کھڑے ہوں گے کہ ہمیں انصاف چاہیے اور دوسری ہجرت ان اقلیتوں کے بس کی بات نہیں اب جو بھی ہوگا یہیں ہوگا اور وہ اس پر اٹل رہ کر اپنے حقوق کے لیے پوری شدت سے اٹھیں گے پھر شاید ہندوستان کا نقشہ کچھ اور ہوجائے، ملک کی اقلیتیں جہاں جہاں اکثریت میں ہیں خود مختاری کا اعلان کرکے الگ ریاست قائم بھی کرسکتی ہیں جو لازما ہندوستان کے ٹکڑے ہونے کا اعلان کریں گی؛ اس لیے اگر ملک کے تانے بانے کی حفاظت جہاں مسلمانوں پر فرض ہے تو وہیں سیکولر اکثریتی فرقے کے افراد پر بھی ۔۔۔ اب تک تو مسلمان اپنے ناتواں کاندھے پر سیکولر امیدواروں کو ایوان میں پہنچانے کا ذمہ اٹھاتا رہا جس میں ہمیشہ دھوکہ کھایا جسے سیکولر سمجھا اس کی دھوتی کے اندر سے خاکی چڈی ہمیشہ باہر آئی جسے وہ اپنا ہمدرد سمجھا وہ دشمنوں سے ساز باز کرکے ہمیشہ مسلمانوں کو تکلیفیں پہنچائیں؛ اس لیے اب مسلمان پھونک پھونک کر قدم رکھ رہا ہے اب اکثریتی فرقے کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان سیکولر امیدواروں کو اپنے ووٹ سے پارلیمنٹ پہنچائیں جو نفرت نہیں محبت کی باتیں کرے، جس پر قتل کا الزام نہ ہو، جو کرپٹ نہ ہو، جو ڈاکو نہ ہو، جو ظلم نہ کرتا ہو، اگر یہ خصوصیات نہیں ہیں تو ظالم کے مقابلے میں کم ظالم ہو جو قاتل کے مقابلے میں کم قاتل ہو اگر یہ بھی خصوصیات نہیں ہیں امیدواروں میں تو پھر دائمی ماتم کے لیے تیار ہوجائیں؛ کیونکہ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ان ظالموں کو ہم نے ہی ووٹ دے کر اتنا طاقتور بنایا ہے، اگر ہم شرپسندوں کی باتوں میں آکر ہندو مسلم نہیں کرتے تو آج ترقی یافتہ ہوتے روزی و روزگار سے جڑے ہوتے خوشحال زندگی ہمارا خیر مقدم کرتی؛ لیکن ایسا نہیں ہوا ہم مسجد و مندر میں الجھے رہے اور اب حال یہ ہے کہ قاتل زانی چور ڈاکو بم بلاسٹ کے ملزمین ہمارے اوپر حکمرانی کررہے ہیں۔

Comments are closed.